ضمنی انتخاب کے آئینے میں سیاسی منظر نامہ

ملک کا سیاسی منظر نامہ دکھانے کی ذمہ داری ذرائع ابلاغ پر ہے لیکن دولت کی حرص نے اسے اندھا کردیا ہے اور اس کے آئینے میں سارا عکس دھندلا دکھائی دیتا ہے لیکن درمیان میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اسے صاف کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حال میں جملہ ۱۳؍ ریاستوں پر محیط ۳؍ پارلیمانی اور ۲۹؍ صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں انتخابات ہوئے۔ ان کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کا رحجان کیا ہے؟ بی جے پی ، کانگریس اور شیوسینا نے۳؍ پارلیمانی نشستوں میں سے ایک ایک پر کامیابی درج کرائی لیکن چونکہ کانگریس اور شیوسینا کا مہاراشٹر میں الحاق ہے اس لیے ۲؍ کے مقابلے ایک سے بی جے پی یہ سیریز ہارگئی۔ اس میں ایک خاص بات یہ بی جے پی نے کھنڈوا میں کامیابی حاصل کی وہ نشست پہلے بھی اسی کے پاس تھی جبکہ کانگریس نے منڈی سیٹ اس سے چھین لی جہاں پر ڈھائی سال قبل ایک لاکھ کے فرق سے بی جے پی کو کامیابی ملی تھی ۔ دادرہ نگر حویلی میں شیوسینا نے پہلی بار مہاراشٹر سے باہر نکل کر اپنی کامیابی درج کرائی ہے۔ یہ حلقہ مہاراشٹر اور گجرات کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے جسے عبور کرنے میں شیوسینا کو کامیابی ملی ہے۔ اب گجرات کے مراٹھی رائے دہندگان بی جے پی کے بجائے اس کی جانب راغب ہوں گے اور اگر وہ کوئی کامیابی درج کرانے میں ناکام بھی ہوجائے تب بھی کمل کا نقصان تو ضرور ہی کرے گی۔

ریاستی اسمبلی کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے بی جے پی نے اپنے حامیوں سمیت ۱۲؍ اور کانگریس کے الحاق نے ۹؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی مگر اس میں ایک فریب ہے۔ دنیا کی سب بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کے ۱۲؍ میں سے صرف ۷؍ امیدوار کامیاب ہوئےہیں جبکہ ملک کی ناکام ترین کانگریس نے ۹؍ میں سے ۸؍ مقامات پر اپنے میدوار کامیاب کیے اس طرح پنجے کی کارکردگی کمل سے بہتر رہی۔ علاقائی جماعتیں اپنے فائدے کی خاطر برسرِ اقتدار جماعت کے ساتھ ہوجاتی ہیں اس کا فائدہ فی الحال بی جے پی کو مل رہا ہے لیکن یہ اسی وقت تک ہوگا جب تک کہ وہ حکومت پر قابض ہے۔ کمل کا شکنجہ جیسے ہی کمزور ہوگا یہ ابن الوقت جماعتیں اس کے چنگل سے نکل جائیں گی۔ ان نتائج کی روشنی میں اس نعرے کی قلعی اپنے آپ کھل جاتی ہے کہ کچھ بھی کرلو ’آئے گا تو مودی ہی‘ ۔ یمودی کا جادو اگر اتنا ہی کارگر ہوتا تو ایسے نتائج نہیں آتے۔

بی جے پی کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اس کو سب سے بڑی کامیابی شمالی ہندوستان میں نہیں بلکہ ملک کے مشرقی حصے میں ملی ۔ آسام سے اس کے تین امیدوار جیت گئے اور دو حامی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیمنتا بسوا سرمانے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی جو مذموم کو شش کی تھی اس کا اسے انتخابی فائدہ ہوا۔ وطن عزیز میں آسام کا جبر ہو یا تریپورہ کا ظلم اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جاکر سیاسی مفاد پرستی سے مل جاتے ہیں ۔ اس انتخابی تماشے میں عام لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر سماج کے کمزور طبقات کو ظلم و جبر کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بی جے پی والے دوسروں کی مدد سے ملنے والی آسام کی کامیابی پر تو خوب بغلیں بجا رہے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے بغل میں واقع مغربی بنگال کے اندر ممتا بنرجی نے بغیر کسی کا تعاون لیے چاروں نشستوں پر اپنی کامیابی کا پرچم لہرا دیا ۔

مغربی بنگال کے نتائج نہایت دلچسپ ہیں وہاں دِن ہاٹا نشست پر جیت کا فرق 1,64,089ووٹ کا تھا۔ اتنے ووٹ تو جیتنے والے امیدوار کو بھی نہیں ملتے ۔ اس کے علاوہ گوسابہ میں جیت کا فرق1,43,051 ووٹ کا تھا ۔ کھر داہا میں 93,832کے فرق سے ٹی ایم سی کو کامیابی ملی اور شانتی پور میں اس نے 64,675 ووٹ سے بی جے پی کو روند دیا۔ فتح و شکست کے اس فرق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کے اندر ہنوز بی جے پی کے خلاف کس قدر غصہ ہے ؟ ورنہ ایسی بڑی کھائی نہیں ہوتی ۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ دن ہاٹا اور شانتی پور میں ۶؍ ماہ قبل بی جے پی کامیاب ہوئی تھی مگر اب عوام اس کے دامِ فریب سے پوری طرح آزاد ہو چکے ہیں۔ اس فرق سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی بی جے پی کا رکن اسمبلی پارٹی چھوڑ کر ٹی ایم سی کا رخ کیوں کرتا ہے؟ بی جے پی کے ارکان اسمبلی کی تعداد ۷۷؍ سے گھٹ کر ۷۰؍ پر آچکی ہے اور بابل سپریہ کی وداعی کے بعد ارکانِ پارلیمان کی تعداد بھی ۱۸؍ سے گھٹ کر ۱۷؍ ہوگئی ہے۔

اس صورتحال نے بی جے پی کے ترجمان کیلاش ورگیہ کو خون کے آنسو رلا دیئے ہیں اور انہوں نےٹی ایم سی کی کامیابی کو پولس کے ذریعہ حاصل کی جانے والا پولنگ بوتھ پر قبضہ قرار دے دیا۔ اس الزام کو اگر درست مان لیا جائے تو خود کو سپر مین سمجھنے والے امیت شاہ کی مٹی پلید ہوجاتی ہے کیونکہ جو وزیر داخلہ اس طرح کی کھلے عام دھاندلی کے سامنے بے بس ہوجائے اسے سیاست چھوڑ کر پرچون کی دوکان کھول لینی چاہیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنگال سے بھی زیادہ درگت ہماچل پر دیش میں ہوئی۔ پارٹی کے صدر جے پی نڈا کا تعلق اسی ریاست سے ہے۔ ایک زمانے میں وزیر اعظم نریندر مودی وہاں کے نگراں ہوا کرتے تھے ۔ یہاں پر ایک پارلیمانی اور تین صوبائی نشستوں پر انتخاب ہوا اور چار سال سے زیادہ حکومت کرنے کے باوجود بی جے پی کا سپڑا صاف ہوگیا ۔ وزیر اعلیٰ نے اس کا الزام لینے کے بجائے مہنگائی کا بل پھاڑ دیا یعنی اب ان کا ٹکٹ جلد ہی کٹنے والا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مہنگائی کی مار سے بی جے پی ہماچل میں ہار سکتی ہے تو اتر پردیش ، اتراکھنڈ اور گوا میں کیوں نہیں ؟

منڈی کی پارلیمانی نشست بی جے پی کے رام سوروپ سنگھ کی موت سے خالی ہوئی تھی۔ یہاں پر کانگریس نے سابق وزیر اعلیٰ ویر بھدر سنگھ کی اہلیہ کو ٹکٹ دیا تو اس کے مقابلے میں بی جے پی نے کارگل کی جنگ کے ہیرو سبکدوش بریگیڈیر خوشحال سنگھ کو میدان میں اتارا۔ بی جے پی والے سوچ رہے ہوں گے کشمیر میں نام نہاد انقلابی اقدامات کے بعد خوشحال سنگھ ووٹ کی دولت سے مالا مال ہوجائیں گے لیکن کشمیر کے بغل میں واقع ریاست میں بھی یہ کارڈ ناکام ہوگیا ۔ انتخابی نتائج نے خوشحال سنگھ کو بدحال کردیا اور کانگریسی امیدوار پرتبھا سنگھ کا وقار بلند کردیا ۔ اتفاق سے ہندی زبان میں پرتبھا کے معنی وقار کے ہوتے ہیں۔ منڈی چونکہ وزیر اعلیٰ جئے رام ٹھاکر کا اپنا علاقہ ہے اس لیے ان نتائج نے ان کا وقار خاک میں ملادیا ۔

ہماچل پر دیش میں ارکی اور فتح پور اسمبلی حلقوں پر پہلے بھی کانگریسی امیدوار کامیاب ہوئے تھے اس بار پھر سے وہی ہو ا لیکن سب سے دلچسپ مقابلہ کوٹ کھائی میں ہوا جہاں بی جے پی نے کراری چوٹ کھائی ۔ اس حلقۂ انتخاب میں آنجہانی رکن اسمبلی نریندر برگیٹا کی جگہ ان کے بیٹے چیتن سنگھ برگیٹا نے اپنا دعویٰ پیش کردیا۔ اس صوبے میں بھی یوگی اور شاہ کی مانند پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا اور سابق وزیر اعلیٰ پریم کمار دھومل کے درمیان سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ اس چپقلش کی وجہ سے نیلم سرئیک کو ٹکٹ دینا پڑاجس سے ناراض ہوکر چیتن سنگھ ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان جنگ میں کود پڑے ۔ اس سے سنگھ پریوار کے سارے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھل گئی۔سنگھ پریوار کانگریس پر اقرباء پروری کا الزام لگاتاہے لیکن اس سے خود بی جے پی کے اندر وراثت کی سیاست کا عقدہ کھل گیا اور اپنے آپ کو نظم وضبط کا پابند کہنے والے پریوار میں اقتدار کی خاطر بغاوت ہوگئی ۔
بی جے پی کے رائے دہندگان کی بابت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی گروہ ہے ۔ سنگھ نے ان کا برین واش کردیا ہے لیکن انتخابی نتائج نے وہ پول بھی کھول کر رکھ دی ۔ اس نشست پر کا نگریس کے کامیاب امیدوار روہت ٹھاکر کو ۲۹۹۵۵ ووٹ ملے اس کے مقابلے بی جے پی کی نیلم کو صرف ۲۶۴۴ ووٹ مل سکے اور ان کی ضمانت تک ضبط ہوگئی۔ اس کے برعکس باغی آزاد امیدوار چیتن سنگھ برگاٹا نے ۲۳۶۶۲ ووٹ حاصل کرلیے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنگھ کی جڑیں کس قدر کھوکھلی ہیں، وہاں بھی نظریہ کے بجائے شخصیات کا بول بالا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماچل پردیش میں بی جے پی کے صفایہ نے دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے صدر سمیت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو بھی آئینہ دکھا دیا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پچھلے ۶ ماہ میں ۴ وزرائے اعلیٰ کو بدل دیا تاکہ عوام کی ناراضی کو کم کیا جاسکے مگر ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جئے رام ٹھاکر کو نہیں بدلا حالانکہ انہیں بھی دہلی طلب کیا گیا تھا۔ ان نتائج کے بعد ان کے بھی دن بھر گئے ہیں۔

بی جے پی کے رہنما اپنے آپ کو بہت زیادہ عقلمند اور عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن ان لوگوں کا وزیر اعلیٰ کو بدل کر عوام کو بہلانے پھسلانے کا حربہ بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا ۔ کرناٹک میں بی جے پی نے بڑی ہمت کرکے یدورپاّ کی جگہ بسوراج بومائی کا تقرر تو کردیا لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے تو وہ اپنے علاقہ کی میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کو بڑی کامیابی نہیں دلاسکے اور اب اپنے آبائی وطن ہنگل میں کانگریس کو کامیاب ہونے سے روک نہیں پائے۔ سندگی میں کامیاب ہونے کے باوجود اپنے شہر میں ہار جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب بسوراج کا راج پاٹ زیادہ دن نہیں چلے گا اور بی جے پی انہیں ٹشو پیپر کی مانند استعمال کرکے پھینک دے گی ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو چھوڑ کر بی جے پی میں آنے والے ایٹالا راجندر کی بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیابی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ بانجھ سنگھ پریوار سے پارٹی کو ایسے امیدوار نہیں ملتے جو انتخاب جیت سکیں ۔ ایٹالہ جیسے زمین قبضے کی بدعنوانی کے الزام میں ملوث لوگوں کو اپنی پارٹی میں لینے کے بعد ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘ کا نعرہ بھی سراسر منافقت لگتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.