کسان تحریک: جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے

 26؍نومبر ۲۰۲۰کو ہندوستان کی تاریخ میں طلائی حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ اس دن ملک کی دس ٹریڈ یونین تنظیموں نے کسانوں کی حمایت میں بند کا اعلان کیا گیاتھا ۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے اس کی حمایت کی تھی اور مزدور تنظیموں کے مطابق پچیس کروڈ لوگوں نے اس میں حصہ لیا ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ اس کی سالگرہ قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے اسی لیے کسان رہنما راکیش ٹکیت نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت تک کا موقع ہے اگر اس نے کسانوں کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا تو تحریک کو تیز تر کیا جائے گا۔ اس دوران کسانوں کی ابتری کا اندازہ کھاد کی کمی کے سبب اترپردیش کے ضلع للت پور میں دو کسانوں نے خودکشی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیٹ نے خودکشی کرنے پر مجبور ہونے والے کسانوں کے مسائل کے لئے زرعی قوانین ذمہ دار ٹھہرایا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پچھلے گیارہ ماہ سے جاری کسان تحریک کے اندر دو ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے جسے مستقبل کا مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ میں اس پر خاطر خواہ بحث نہیں ہوئی۔

خوش قسمتی سے فی الحال گودی میڈیا کے مقابلے میں ایک متوازی میڈیا کھڑا ہوگیا ہے ۔یہ نسبتاً کمزور نظر آنے والا میڈیا اپنی دلیری اور اعتباریت کے سبب باشعور طبقہ میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس دورِ پر آشوب میں جہاں ہر سو خوف اور حرص کا بول بالا ہے یہ میڈیا دراصل ’ باغی بلکہ انقلابی میڈیا‘ کہلانے کاحقدار ہے کیونکہ وہ قابلِ قدر خدمت انجام دے رہا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان واضح فرق کے باوجود باغی اور گودی میڈیا میں ایک شئے مشترک ہے۔ یہ نادانستہ طور پر انہیں موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جو بی جے پی چاہتی ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ بی جے پی کا آئی ٹی سیل جب کوئی شوشہ چھوڑ تا ہے تو پہلے گودی میڈیا اس پر ڈھول تاشے بجانے لگتا ہے اور پھر باغی میڈیا اس کی چیر پھاڑ میں جٹ جاتا ہے ۔ اس دھینگا مشتی میں باغی میڈیا کوخود موضوع کا انتخاب کرکے گودی میڈیا کو اس پر گفتگو کرنے پر مجبور کرنے میں ابھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوم جمہوریہ کے دن لال قلعہ پر پرچم لہرانے کا واقعہ ہو یا سنگھو سرحد کے قریب لاش کو لٹکانے کا سانحہ ، دونوں کی بحث اپنے منطقی انجام تک نہیں پہونچ سکی۔

کسان تحریک کے خلاف سرکاری ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بدستور جاری و ساری رہتا ہے۔ اس میں آخری سازش 15؍ اکتوبر 2021؍ کو سنگھو کنڈلی سرحد پر ایک 35 سالہ شخص کے بہیمانہ قتل کرکے کی گئی ۔اس کا ہاتھ کاٹ کر لاش کو بیریکیڈ پر لٹکادیا گیا تھا۔ اس بد قسمت کے جسم پر تیز دھار ہتھیار سے حملے کے نشانات تھےاور ایک ہاتھ کلائی سے کٹا ہوا تھا۔موقع واردات پر کسان رہنما تو موجود تھے مگر پولیس کو قریب جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تاہم ابتداء سے ہی نہنگوں پر قتل کا الزام لگایا گیا جس کی بعد میں تصدیق ہوگئی۔ اس معاملے میں ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ اسے اسٹیج کے 500 میٹر دور قتل کرکے وہاں لٹکایا گیا۔ ایک اور چشم دید فواہ نے بتایا چونکہ نہنگوں کے لباس میں لکھبیر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اس لیے وہ اس کی مدد نہیں کرسکا ۔ اپنی جان کا خوف لاحق تھا ۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے ویڈیوز سامنے آنے لگے ۔ ان میں نہنگ ہلاک ہونے والے سے بار بار پوچھتے تھے کہ اسے کس نے بھیجا ہے ۔ وہ گڑگڑا کر کہتاتھا کہ مجھے مار ڈالو اور گرو کے چرنوں میں بھیج دو ۔ اس کا ہاتھ چونکہ کاٹاجا چکا تھا اور وہ گہار لگا تھا کہ اب یہ درد نہیں سہا جار ہاہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اس کو سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کی سزا دی گئی ۔

اس معاملے میں آگے چل کر چار نہنگوں خود سپردگی کی اور یہ کہا کہ 400 سے زیادہ بے حرمتی کے واقعات کے باوجود بھی کسی کو سزا نہیں ملی۔ سب کو پاگل قرار دے کر چھوڑ دیا گیا اس لیے انہوں نے خود سزا دے دی تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہیں کی لیکن اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا ۔ کسان رہنماوں نے گرو گرنتھ صاحب کی بے ادبی کی مذمت کی مگر اس کو ازخود سزا دینے کو غلط کہا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اس واردات کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے اس موقع پر راکیش ٹکیت نے سب سے پہلے اسے کسانوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے دیا۔اس دل دہلا دینے واقعہ کے بعد مہلوک شدہ نوجوان کی تفصیل ذرائع ابلاغ میں آنے لگی۔ 35 سالہ لکھبیر کا تعلق ترن تارن کے چیما خورد گاوں سے تھا ۔منشیات کے عادی لکھبیر کی بیوی پانچ سال قبل اپنے تین بچوں کے ساتھ اسے چھوڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ مزدوری کرنے والا لکھبیر اپنی پھوپی زاد بیوہ بہن اور اس کی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔

نہنگوں کی صحبت میں رہنے والے دانے دانے کےمحتاج معمولی مزدور کا ازخود بلا وجہ اپنے گاوں سے سنگھو بارڈر پہنچ کر ایسی حرکت کردینا سازش کی جانب اشارہ کررہا تھا ۔ اس کی پھوپی زاد بہن نے اس کو لالچ دے کر لے جانے کے شک کا اظہار کیا۔ لکھبیر کی بیوی جسپریت کور نے بھی نیوز لانڈری کی ٹیم کو بتایا کہ وہ دل کا برا نہیں ہے۔ اسے موت کے بعد بھی یقین ہے کہ یہ حرکت کسی کے بہکاوے میں آکر کی گئی ہے۔ اسے خیال میں کسی نے لکھبیر کو اپنی باتوں میں پھنسایا ہے۔ کسی نے نشے یا پیسوں کا لالچ دے کر اس سے یہ کام کروایا ہے۔ گاوں والوں کا بھی یہ خیال ہے کہ وہ چوری تو کرسکتا ہے مگر بے ادبی نہیں کرسکتا ۔ اسے ورغلایا گیا ہے۔ اس دوران ایک 43 سیکنڈ کی ایک ویڈیو سامنے آگئی جس میں وہ 30 ہزار روپئے لینے کا اعتراف کرتا ہے اس طرح مندرجہ بالا شکوک و شبہات درست ہوگئے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ سازش کس نے رچی ؟ تو اس کا جواب چنڈی گڑھ کے انگریزی روزنامہ ’دی ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ میں مل گیا۔ اس کے مطابق لکھبیر سنگھ کے قتل کی ذمہ داری لینے والی نہنگ تنظیم کے رہنما بابا امن سنگھ کے ساتھ مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر سمیت کئی وزراء اور بی جے پیرہنماوں کی میٹنگیں ہو چکی ہیں۔اخبار کے مطابق کچھ مہینے قبل مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے بابا امن سنگھ کو باقاعدہ سروپا دے کر اپنی سرکاری رہائش پر اعزاز بخشا تھا۔ وہ مبینہ طور پر اعلیٰ بی جے پی لیڈروں اور مرکزی وزراء سے سنگھو بارڈر پر ڈٹے کسانوں کی یکطرفہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہےاور مرکزی وزیر مملکت برائے زراعت کیلاش چودھری کے دہلی میں واقع سرکاری بنگلے پر مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر طویل میٹنگ بھی کر چکا ہے بعید نہیں کہ وہیں سازش رچی گئی ہو۔

مذکورہ دعوت میں جھارکھنڈ کے بی جے پی رکن پارلیمان سشیل کمار سنگھ، بھارت-تبت ایسو سی ایشن کے قومی جنرل سکریٹری سوربھ سارسوت، بی جے پی کسان مورچہ کے سابق قومی جنرل سکریٹری سکھ مہندر پال سنگھ گریوا کے علاوہ پنجاب کا ایک بدنام پولیس اہلکار گرمیت سنگھ پنکی کیٹ بھی شامل تھا۔’دی ٹریبیون‘کے پاس موجود تین تصاویر یہ ثابت کرتی ہیں کہ نہنگ لیڈر بابا امن سنگھ کی بی جے پی لیڈروں کے ساتھ گہری قربت ہے۔ مہندر پال سنگھ گریوال نے نہنگ رہنمابابا امن سنگھ کے ساتھ سرکردہ بی جے پی لیڈروں سے ملاقات کا اعتراف کردیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس نہنگ تنظیم پر اتنے خطرناک قتل کا سیدھا الزام ہے، اس کے رہنما کا بی جے پی کے قومی رہنماوں اور وزراء کے ساتھ ایسا تال میل قابل تشویش ہے۔ بابا امن سنگھ کے ذریعہ لکھبیر کو اپنا آلۂ کار بناکر قتل کروانے والوں کا کسان سنیوکت مورچہ کو گنہگار ٹھہرانا شرمناک نہیں تو او رکیا ہے؟

بی جے پی نے اس سانحہ کے ذریعہ کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کے ساتھ اس سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔ پنجاب میں ایک دلت کو وزیر اعلیٰ بناکر کانگریس نے جو سبقت حاصل کی اس کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر لکھبیر کے پسماندہ طبقے سے تعلق کو اچھال کر تحریک پر تنقید کی گئی۔ پسماندہ ذاتوں کا قومی کمیشن حرکت میں آگیا ۔ اس کے سربراہ وجے سامپلا نے دلت برادری کی پندرہ تنظیموں سے ملاقات کرنے کے بعد سنگھو سرحد کے نزدیک احتجاج کرنے والے کسانوں پر سخت کارروائی کا مطالبہ کردیا ۔ سامپلا نے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر ہریانہ حکومت سے رپورٹ طلب کی اورریاست کے ڈی جی پی سمیت چیف سکریٹری کو سخت کارروائی کرنے کیلئے نوٹس بھیجا ہے لیکن ڑیبیون کی رپورٹ اور اس میں موجود شواہد نے بی جے پی کی ہوا اکھاڑ دی ۔ اس طرح کسانوں کو بدنام کرنے کی یہ دوسری سازش بھی چاروں خانے چت ہوگئی۔ یہ کھیل کب تک چلے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن قومی امید ہے کہ کسانوں کی تحریک مودی سرکار کو ناک آوٹ کردے گی ۔ کسانوں کی اس تحریک پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہواکرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236309 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.