عبدالغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی-۱

بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تین سال گزرگئے ، مارچ ۸۰۰۲ءتک عبد الغنی محتشم صاحب ہمارے درمیان جیتے جاگتے اپنے بھاری بھرکم تن و توش کے ساتھ موجود تھے ، اس دنیا میں ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے ، ساڑھے نو سو سال کی عمر تو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے مخصوص کی تھی ، حدیث نبوی کے مطابق تو امت محمدیہ کے افراد کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال کی ہے، آپ کی ولادت ۲ مئی ۴۳۹۱ءکو ہوئی تھی اس لحاظ سے آپ کی عمر عزیز (۴۷) سال بنتی ہے۔ لیکن کیا عجب شخص تھا، جنازہ بڑے ہجوم کے ساتھ سب کی آنکھوں کے سامنے کاندھوں پر لاد کر غوثیہ محلہ کے بڑے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا ، باوجود اس کے جب بھی شہر پر کوئی افتاد آتی ہے ، اداروں اور جماعتوں میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کی زندگی کا احساس ہونے لگتا ہے، آنکھیں اس کو تلاش کرتی ہیں اور اس کی یاد ستانے لگتی ہے ،جس طرح انسان کے جسم میں خون کی شریانیں دل پر جاکر رکتی ہیں ، وہ بھی ہمارے معاشرے میں دھڑکتے دل کی حیثیت رکھتا تھا ، جب وہ زندہ تھا معاشرے کی رگوں میں خون کے دوڑنے کا احساس ہوتا تھا ،ایک جملہ تاریخ میں ذکر ہوتا آرہا ہے کہ﴾تمام راستے رومہ کی طرف جاتے ہیں﴿ نور مسجد کے سامنے آپ کے مکان کی طرف سے بھی کچھ اسی طرح بھٹکل کے تمام راستے ہوکر گزرتے تھے ، آپ کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ یہ گھر ڈھنڈار ہوگیا ،بھٹکل میں شمال مشرق و مغرب میں نوائط کالونی ، ساگر روڈ اور مخدوم کالونی وغیرہ دیگر علاقوں سے قدیم شہر جانا ہو، یا قدیم شہر سے اوپر آنا ہو نور مسجد کے سامنے آپ کا مکان راستے میں ضرورملتا ہے اور یہاں کا تین سال پرانا چہچہاتا ماحول آنکھوں سامنے گھومنے لگتاہے اور گھر کے مکین کی یاد آنے لگتی ہے ۔ وہ بھی کیا دن تھے عبدالغنی صاحب جب زندہ تھے فجر کی نماز کے بعد ہو یا مغرب اور عشاءکے بعد اس جگہ ایک عجیب سی زندگی کا احسا س ہونے لگتا تھا ، مرحوم نے اپنے مزاج کی مناسبت سے دنیا میں رہائش کے لئے جگہ منتخب کی تھی ، کتنی اپنائیت بھردی تھی اللہ نے اس جسد خاکی میں ، چھٹیوں میں جب بھی ہمارا وطن جانا ہوتا تو پہلے ہی روز حاضری کی کوشش ہوتی ، ملنے پر ایسا لگتا جیسے ہمارا ہی انتظار ہورہا ہو، وطن پہنچنے پر کبھی ملاقات میں ایک دو روز کی تاخیر ہوجاتی تو بڑی شرمندگی کا احساس ہوتا ، حالانکہ نہ ہماری ان سے کوئی رشتہ دار ی تھی نہ عمر میں کوئی برابری ، اجتماعی معاملات میں بھی ہم ان کے طفل مکتب سے بھی کم حیثیت رکھتے تھے ،لیکن آپ سے باتوں میں کبھی اس فرق کا احساس نہیں ہونے پاتا تھا ، ہمیشہ دل کھول کر باتیں ہوتیں، چبا کر بات کرنا گویا ان کی سرشت میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا ، مہتر ہوکے برتر ، افسر ہوکہ چپڑاسی ، استاد ہو کہ طالب ، معاشرے کے جملہ طبقات کا مکان پر آپ کی موجودگی کے موقعہ پر ملاپ ہوتا، سب ان سے یہاں آکر ملتے ، سب اپنا دکھ درد یہاں آکر بانٹتے ، سب کا مداوا کرنے کی یہاں کوشش ہوتی ۔ الحاج محی الدین منیری مرحوم کے غریب خانے کے بعد اپنی نوعیت کا ایک ایسا نمونہ تھا جس کی مثال اب دور دور تک نظر نہیں آتی ، بس ایک خلا نظر آتا ہے ، ایسا نظر آتا ہے کہ بھٹکل کا نوائط اپنے بیش بہا اداروں اور جماعتوں اور تنظیموں کے باوجود اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف لوٹ رہا ہے اورتپتی دھوپ میں اس کے سر سے چھتناور درخت کا سایہ چھن گیا ہے یا پھر جیسے بیوہ کے سر سے چادر گر گئی ہے ۔ جن حالات سے بھٹکل کا معاشرہ گزررہا ہے اس میں کم ہی ایسا ہوتا ہے جب مرحوم کی یاد نہ آتی ہو۔ لیکن اس دنیا سے ہرایک کو جانا ہے،جب رسول صحابی اور امام نہیں رہے تو ہما شما کی کیا بات ، دوام صرف اللہ کی ذات کو ہے ، وہی ح ¸ و قیوم ہے ، اس ¸کو زوال نہیں ۔

عبد الغنی صاحب نے ایک خوش حال گھرانے میں آنکھیں کھولیں تھیں ، آپ کے والد حاجی باپا ابن ابو محمد محتشم mab نوائط برادری کے ایک بااصول ا ور امانت دار تاجر مانے جاتے تھے ، مدراس (چنئی) میں لنگیوں کی تجارت سے وابستہ تھے ۹۶۸۱ء میں اپنے والد ماجد کی قائم کردہ فرم یم اے بی اینڈ سنز (موتی مارکہ لنگی) میں اپنے بھائیوں کے شریک تھے ، بعدمیں یہ کمپنی آپ نے خود خرید لی تھی ، آپ کی اصول پسندی کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے اپنی مصنوعات پر چھ فیصد منافع مقررکر رکھا تھا ، جب بازار میں مال کم ہوتا اور زیادہ فائدہ کمانے کا موقعہ ملتا تب بھی وہ مقررہ فیصد منافع سے زیادہ منافع وصول نہیں کرتے تھے، آپ کی زندگی بڑی قناعت پسندی میں گزری ، آپ کی کاروباری حلقہ اور بھٹکلی احباب میں بڑی عزت تھی ، اپنے نظام اور ضوابط کے بڑے پابند تھے ، ۱۸۹۱ءمیں اللہ کو پیارے ہوئے ، وفات سے کچھ عرصہ قبل تک جب تک ہاتھ پاؤں نے کام کیا موصوف بھٹکل کے ایک اور و جیہ تاجر مصبا عبد الغفور مرحوم کے ساتھ نور مسجد کو لگ کر جہاں اب جامع مسجد کامپلکس واقع ہے ، شاہ نگاہ درگاہ کے بالمقابل ایک کشادہ جگہ پر جہاں اس وقت شکاکائی کے اونچے اونچے سایہ درخت اور سیمنٹ اور پتھر کے بنے پختہ چبوترے ہوا کرتے تھے ، یہ دونوں عصر کی نماز کے بعد پابندی سے سلطان محلہ سے یہاں تک پیدل چڑھائی پار کرکے آتے اور کچھ دیر سستا تے ، رنگ گور ا چٹا ، دراز قد ، جسم بھرا پرا ، لیکن توند کا نشان نہیں ، بال پورے سفید ہوگئے تھے ، غالبا اسی (۰۸) کے پیٹھے میں رہے ہونگے ، یہ دونوں مقررہ وقت پر یہاں نظر آتے تو بہتوں کے سر احترام سے جھک جاتے ۔

عبد الغنی صاحب نے ابتدائی تعلیم بھٹکل میں حاصل کرکے محمد ن کالج مدراس جو اب گورنمنٹ آرٹس کالج کہلاتا ہے وہاں سے ۸۵۹۱ءمیں یف اے پاس کیا ، جو آج کے حساب سے پی یوسی کا درجہ رکھتا ہے، اسی دوران آپ نے مدراس میں اہل بھٹکل کے مشہور لنگیوں کی فرم SRK (شابندری ، رکن الدین ، قاضیا) کے مینیجر کی حیثیت سے معاشی زندگی کا آغاز کیا ، ساتھ ہی ساتھ بھٹکلی احباب کی اجتماعی زندگی سے وابستہ ہوئے اور بھٹکل مسلم جماعت مدراس (چنئی) کے نائب سکریٹری منتخب ہوئے ، یہ بھٹکل میں زبردست جماعتی اختلافات کا زمانہ تھا، آپ نے اس موقعہ پر جماعت المسلمین بھٹکل کا بڑھ چڑھ کر اور جذباتی انداز سے ساتھ دیا ،یہیں آپ کا ادبی ذوق بھی پروان چڑھا ، آپ نے وہاں پر مونٹ روڈ ( اناسلے) میں منعقد ہونے والے سالانہ مشاعروں کے انتظام و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، مشاعروں کا یہ شوق آخر دم تک جاری و ساری رہا ، انجمن پلاٹینم جوبلی کے موقعہ پر آپ کی قیادت میں ہونے والے آل انڈیا مشاعرہ کی شان و بان اب بھی دیکھنے والوں کی نگاہوں میں تازہ ہے ۔
Abdul Mateen Muniri
About the Author: Abdul Mateen Muniri Read More Articles by Abdul Mateen Muniri: 18 Articles with 18419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.