نتائجوں کا برہمن - پہلی قسط

برما کے سفر کے دوران ایک ایسی جگہ جا نے کا اتفاق ہوا جو رنگون سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر وہاں کی مشہور ندی آیوریدی کے کنارے پر آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ”نتائجوں“ جس کی آبادی لگ بھگ آٹھ دس ہزارکے قریب ہوگی، اس سفر میں میرے ساتھ میرا ہندو ایکسپورٹر جس کا پورا نام ’رنگانادھن انے ‘تھے مگر میں اُسے مختصراً بابو جی کہہ کر مخاطب کر لیتا تھا ، اُس کا خاندان بھی کسی زمانے میں تامل ناڈو (انڈیا) سے مائی گریٹ کر کے یہاں آیا تھا اس لیے وہ تھوڑی بہت اردو بول لیتا ( جسے وہ ہندی کہتا) ہم لوگ ایک مسافر بس جس سے وہ لوگ ٹرک کا بھی کام لے رہے تھے یعنی چھت کے علاوہ سیٹوں کے درمیان والی جگہ پر بھی سامان بھر دیتے ،جس کی وجہ سے سواریوں کو سامان کے اوپر سے کبڑا ہو کر اپنی سیٹ تک جانا پڑتا ، اور دوران سفر اسی طرح سے مسافروں کو اُترتے چڑھتے بھی دیکھا جن میں عورتیں مرد سبھی شامل ہوتے ، میں اس عجیب و غریب طریقے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ کوئی مسافر احتجاج بھی نہیں کرتا اور نہ کوئی ٹریفک پولیس والا ہی اس بات کا نوٹس لیتا ہے، آ خر میں نے بابو جی سے کہا کہ ویسے تو یہاں کا قانون اتنا سخت ہے کہ رات کو تین بجے بھی ٹیکسی والا سگنل توڑنے کی ہمت نہیں کرتا اور دوسری طرف اس بس میں غیر قانونی طور پر سامان لوڈ کرنے پر بھی پولیس کوئی کاروائی نہیں کرتی ، اس پر بابو جی نے ہنستے ہوئے کہا،اس کا جواب آپکو اگلے چوراہے پرمل جائے گا، واقعی سامنے چوراہے پر بس تھوڑا آگے جا کر رکی تو ایک ٹریفک پولیس والا ڈرائیور کے پاس آیا اُس سے ہاتھ ملایا اور بس کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا، بابو جی نے میرا کندھا دبایا تو میںنے بابو سے کہا ، یہ کوئی انسانیت نہیں کہ چند سکوں کے لیے انسانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرنا جو بس ڈرائیور اور پولیس والوں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے اور جس کے خلاف کوئی آواز بھی نہیں اُٹھتی، کیا یہ قوم مردہ ہو چکی ہے ؟ تو بابو جی نے مجھے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا، میں نے پھر آہستہ آواز میں کہا ،کیا بابو یہاں پر بات کرنا بھی منع ہے،تو اُس نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ پر سوال کر دیا ،کیا آپ نے ویزا فارم بھرتے وقت غور سے نہیں پڑھا تھا، میں نے کہا ہاں بھئی پڑھا تو تھا ، تو کیا اُس میں ایک کالم میں یہ نہیں لکھا دیکھا کہ برما میں کسی قسم کی سیاسی بات چیت کرنا منع ہے بابو نے مزید کہا، اور آپ تو برمی پڑھ نہیں سکتے یہاں بس میں بھی اور ہر ہوٹل میں یہی لکھا رہتا ہے، یہاں کی فوجی حکومت اتنی ظالم اور رشوت خور ہے کہ ان کو دے لے کر ہر ناجائز کام بھی جائز ہو جاتا ہے اور نہ دینے پر ایک ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے پر سات ہزار چٹ موقع پر جرمانہ ہے جو نہ دے سکنے کی صورت میں چھ ماہ جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔بابو کی اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ برما کی عوام کو یہاں کی فوج نے ایسا ضمنی بنا کر رکھا ہے کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ان کے خلاف آواز اُٹھا سکے اور اگر بھول کر کسی نے ایسی حرکت کر دی تو اُس بیچارے کے وارثوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اُسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، اس لیے لوگ خوف کے مارے ہر ستم خاموشی سے سہہ جاتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ کو ہانکنے والا ڈنڈا دکھا کر قابو میں رکھتا ہے ویسے ہی یہاں کی فوجی حکومت غریب عوام کو قانون کی سختی دکھا کر بجلی پانی جیسی اہم ضروریات بھی ترسا ترسا کر دیتی ہے کوئی آواز اُٹھے تو اُسے بندوق کے زور پر دبا دیا جاتا ہے۔

بس کے سفر میں سڑک کے آس پاس بڑے بڑے مچھکی فارم یا پھر ماش کی دال کے کھیت جن میں کسان عورتیں مرد بڑے بڑے بانس کے بنے ہوئے ٹوپ سرپر رکھے کام کرتے دکھائی دیے، ان ٹوپوں سے وہ چھتری کا کام لے رہے تھے ،گرمی کے دنوں میں تیز دھوپ سے بچاﺅ اور بارش میں بھیگنے سے بچنا،ہر دوسرے تیسرے میل پر بدھوں کا مندر نظر آ جاتا جس کے چندہ کے لیے برمی لڑکیاں ہاتھوں میں سلور کے بڑے بڑے پیالے جن میں کچھ سکے اچھال اچھال کر چندے کی اپیل کرتی نظر آتیں کہیں کہیں تو بیک گراﺅنڈ میں باقاعدہ لاﺅڈ اسپیکر لگا کر زور شور سے یہ مہم جاری وساری تھی، برما میں بھیک مانگنا بہت عزت دار کام ہے یہاں بدھ بھکشو جن کو لوکل زبان میں فاﺅنجی بھی کہا جاتا ہے شاید ان کے مذہب میں یہ فرض ہے کہ ہر مرد وزن ایک عرصہ مندر میں رہ کر گزارتے ہیں جہاں وہ اپنا سر منڈوا کر دو پیلے رنگ کی چادروں سے بدن ڈھانپتے ہیں اور گلی گلی بھیک مانگ کر مندر میں جمع کراتے ہیں ، وہیں کھاتے سوتے اور اپنی مذہبی رسومات میں حصہ لیتے ہیں میں نے اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھا کہ الصبح ایک لائن میں یہ لوگ نکلتے ہیں ان کے آگے ایک گھنٹی بجانے والا ہوتا جو گھنٹی بجا کر محلے والوں کو مطلع کرتا ہے اور لوگ گھروں کے دروازوں میں کھانے کی چیزیں لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں جب فاﺅنجی قریب آتے ہیں تو بڑے احترام سے جوتے اتار کر ان کے پاس جا کر بھیک دی جاتی ہے، بدھ مذہب اپنی خواہش اور انا کو مارنے پر زور دیتا ہے جس کے لیے بھکشو کے لباس میں امیر ہو یا غریب نوجوان بچہ بوڑھا سبھی کاساء گدائی ہاتھ میں لے کر نکل پڑتے ہیں جو شاید وہ اپنے غرور اور تکبر کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، مگر بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔

راستے میں جگہ جگہ سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے کئی جگہ ون وے ٹریفک تھی جس سے ایک طرف رک کر انتظار کرنے میں بہت سارا وقت ضائع ہوا ، خُدا خدا کر کے ہم لوگ منزل پر پہنچے توشام گہری ہو چکی تھی بابو جی نے بتایاکہ اس قصبے میں ایک ہی ہوٹل ہے جس میں غیر ملکی ٹھہر سکتے ہیںجو ایک چینی عورت کی ملکیت ہے وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ اسکول کا سالانہ فنگن ہونے کی وجہ سے سرکاری مہمانوں نے پورا ہوٹل بک کیا ہوا ہے کوئی کمرہ خالی نہیں ہے ،بابو جی بھی بیچارے پریشان کہ اور کسی ہوٹل میں مجھے ٹھہرایا نہیں جا سکتا،آخر انہوں نے ایک ہوٹل جس میں اُن کی کچھ جان پہچان بھی تھی یہاں اُن کا چاول یا دال کی خریداری کے سلسلے میں اکثر آنا جانا رہتا تھا مجھے بھی وہاں اپنے ساتھ لے گئے سامان رکھ کر کہنے لگے بابو یہ جگہ تو اتنی صاف ستھری نہیں ہے مگر آج رات آپ کسی طرح یہاں گزار لیں کل اُس ہوٹل میں کمرہ خالی ہو جائے گا تو آپ کو آرام ہو جائے گا ، میں نے ادھر اودھر دیکھتے ہوئے کہا ،بابو جی مجھے یہاں رات گزارنے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ میرے ساتھ آپ بھی تو ہیں اور جیسا سفر ہم لوگ کر کے آ رہے ہیں اس کے سامنے تو یہ جگہ بہت آرام دہ ہے مگر جیسا کہ یہاں کا قانون ہے کہ کوئی غیر ملکی عام ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتا سوائے اس کے جس کو یہاں کی حکومت نے اجازت نامہ دے رکھا ہو اگر کوئی پولیس ولیس کا چکر ہو گیا تو آپ کیا کریں گے ؟ بابوجی نے معنی خیز انداز میں بس والی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ، اس کی آپ چنتا نہ کریں، چلیں آپ کو بھوک لگی ہو گی پہلے کچھ کھا لیں پھر آرام کریں گے، ہوٹل سے باہر آ کر انہوں نے ایک سائیکل رکشہ کو روک کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا جس کے پچھلے پہیے کے ساتھ ایک اور پہیہ لگا کر ان دونوں پر ایک کرسی لگی ہوئی تھی جس پر پیٹھ جوڑ کر آگے پیچھے دو آدمی بیٹھ سکتے تھے ، راستے میں بابو نے بتایا کہ یہاں پر مسلم فوڈ صرف ایک جھونپڑی نما ہوٹل میں ایک مسلمان عورت بناتی ہے اس کے علاوہ کوئی جگہ نہیں جہاں آپ کے مطلب کا کھانا مل سکے ، میں نے ہامی بھرتے ہوئے بابو ہی کے لہجے میں کہا ، کوئی چنتا کی بات نہیں’چلے گا‘ اگر آپ کو میرے ساتھ کھانے پر کوئی اعتراض نہ ہو تو ؟ ، اس پر بابو نے گردن ہلاتے ہوئے ہلکی ہنسی کے ساتھ کہا کوئی فکر نہیں ! وہاں سبزی اور دال بھی ملتی ہے ۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77131 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.