چین کے ڈبلیو ٹی او میں 20 برس

رواں برس عالمی تجارتی تنظیم میں چین کی شمولیت کو 20 برس ہو چکے ہیں۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کو عالمگیریت کی ترقی کے لحاظ سے ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عالمگیریت ہی کے ثمرات ہیں کہ حالیہ عرصے میں بین الاقوامی معیشت کی عظیم ترقی کو فروغ ملا ہے۔ چینی معیشت کی بات کی جائے تو 20 برس قبل ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے مقابلے میں آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت اور عالمی اقتصادی میدان کا ایک نمایاں کھلاڑی بن چکا ہے۔آج چین ایک ترقی پزیر ملک اور ترقی پذیر معیشت کے طور پر دنیا کے اہم ترین صنعتی ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ چین صاف توانائی، مصنوعی ذہانت، مالیاتی ٹیکنالوجی اور دیگر بے شمارشعبوں میں سرفہرست ہے۔ علاوہ ازیں چین ایک ایسی معیشت میں ڈھل چکا ہے جہاں بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح حاصل ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے دنیا کو بیرونی سرمایہ کاری کے ایک ایسے نئے ماڈل سے متعارف کروایا ہے جس کا "حاصل" مشترکہ مفاد اور اشتراکی ترقی ہے۔عالمگیریت کو مستقبل میں مزید فروغ دینے کی خاطر چین ایسی پالیسیاں ترتیب دے رہا ہے جو نہ صرف ملکی ترقی کے لیے اہم ہیں بلکہ پڑوسی ممالک کی خوشحالی کو بھی فروغ دیں گی۔یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے کئی مواقع پر بارہا دنیا میں ایک مضبوط کثیرالجہتی نظام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔چین کا ماننا ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم کے تحت ایک کثیرالجہتی نظام تشکیل دینا اور دنیا کی تمام مسابقتی کمپنیوں کے لیے ایک مساوی ماحول فراہم کرنا ، ہر کسی کے مفاد میں ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کے بعد سے گزشتہ 20 سالوں کے دوران چین نے عالمی اقتصادی نظام میں فعال طور پر حصہ لیا ہے، متعلقہ وعدوں کو سنجیدگی سے پورا کیا ہے، کھلے پن کے معیار کو مسلسل بہتر بنایا ہے اور اقتصادی عالمگیریت کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا ہے۔ چین مصنوعات کی تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔چین کی اقتصادی مجموعی مالیت میں تقریباً 11 گنا اضافہ ہوا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ چین آزاد عالمی تجارتی نظام کے محافظ کی حیثیت سے ایک ذمہ دار طاقت کے طور پر اپنی ذمہ داری احسن انداز سے نبھا رہا ہے، عالمی تجارتی تنظیم کے کثیر الجہتی تجارتی نظام کی اصلاحات کو بھرپور طریقے سے فروغ دے رہا ہے، اور چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو جیسی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی کثیر الجہتی آزاد تجارت میں نئی تحریک پیدا کر رہا ہے۔
آج یہ ایک حقیقت ہے کہ چین دنیا کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور دنیا چین کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ بیس سال قبل ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کے موقع پر، اُس وقت کے ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل مائیک مور نے "نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل ایڈیشن" میں لکھا تھا کہ مستقبل کے مورخین ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کو "اکیسویں صدی کی وسیع ترین شراکت" اور اہم تاریخی واقعات میں سے ایک قرار دیں گے۔ ان کے خیال میں عالمی کمپنیوں کے لیے چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کا مطلب "قابل زکر مواقع" کی دستیابی ہے۔آج حقائق نے مور کی پیش گوئی کو درست ثابت کر دیا ہے- گزشتہ 20 سالوں میں عالمی کمپنیاں چینی مارکیٹ سے مستفید ہونے کے لیے تیزی سے آگے بڑھی ہیں اور وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھایا ہے.

اس کی ایک حالیہ مثال رواں سال چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو ہے جس میں 127 ممالک اور خطوں کی تقریباً 3000 کمپنیوں نے شرکت کی ہے۔ان ممالک میں ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں فارچون 500 کمپنیوں کی تعداد میں بھی گزشتہ ایکسپو کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے ، یہ چین کی جانب سے مسلسل کھلے پن کے ثمرات ہیں۔2001 میں، بہت کم لوگ یہ تصور کر سکتے تھے کہ چین اپنے ترقیاتی منافع کو دنیا کے ساتھ بانٹنے اور عالمی اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے قومی سطح پر دنیا کی پہلی درآمدی نمائش کی میزبانی بھی کر سکتا ہے۔
چین نے 20 سال قبل ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے وقت مصنوعات کے درآمدی ٹیرف کو 15.3 فیصد سے کم کر کے 9.8 فیصد تک کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کیا ہے۔ اس وقت چین کا مجموعی درآمدی ٹیکس 7.4 فیصد ہے جو کہ ڈبلیو ٹی او کے ترقی پذیر ارکان کی اوسط سطح سے کم ہے اور تنظیم کے ترقی یافتہ ارکان کی سطح کے قریب ہے۔ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد چین نے دنیا میں ہنر مند افرادی قوت، انفراسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ شعبہ جات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی برآمدات نے دنیا بھر کے کاروباری اداروں اور لوگوں کو کم قیمت پر اعلیٰ معیار کی اشیا فراہم کی ہیں۔چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی تعاون کا پلیٹ فارم بن چکا ہے اور گزشتہ آٹھ سالوں میں اسے انتہائی مقبول عوامی پروڈکٹ کا درجہ ملا ہے، جس کے تحت چین اور 170 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان 200 سے زیادہ تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

چین اس وقت خود کو ایک وسیع اور خوشحال معیشت میں ڈھال چکا ہے۔تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت کرتے ہوئے چین کھلے تعاون کے پلیٹ فارمز کی تعمیر میں سرگرم ہے۔ چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ اِن سروسز، چائنا انٹرنیشنل کنزیومر پروڈکٹس ایکسپو ،کینٹن فیئر اور اب چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو ، یہ سب مظہر ہیں کہ چین اپنے دروازے دنیا کے لیے مزید کھولنے اور اپنی مارکیٹ کو مزید قابل رسائی بنانے کا خواہاں ہے تاکہ اشتراکی ترقی دنیا کے سبھی ممالک کی دسترس میں ہو۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1117 Articles with 417586 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More