پاکستان میں تعلیم سب سے نیچے

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ایک ’خاموش بحران‘ کا شکار ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی مذہب، معاشرہ یا ملک ہو ہر کوئی تعلیم کی طرف زور دیتا ہے۔ اسلام نے بہت زیادہ تعلیم پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت محمدﷺ کی طرف پہلی وحی بھیجی تو وحی کا پہلا لفظ ہی “پڑھ” تھا۔ ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی کام کی شروعات صرف اور صرف تعلیم سے ہی ہو سکتی ہے اور کوئی کام تعلیم کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے چالیس فیصد بچے سکول کا منہ نہیں دیکھتے۔ اسکولوں کی بڑی تعداد گھوسٹ اسکول کی ہے۔ جو صرف کاغذ پر ہیں مگر اسکے اساتذہ کو تنخواہ برابر مل رہی ہو۔ روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ملک کے لگ بھگ دو لاکھ بیس ہزار سکولوں میں سے میں ایسے کراماتی سکولوں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے جنہوں نے سلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے۔ بیس ہزار درختوں کے نیچے قائم ہیں۔چالیس فیصد میں پانی نہیں اور ساٹھ فیصد میں بجلی نہیں۔قیام پاکستان سے آج تک اس ملک میں چودہ سے زائد تعلیمی پالیساں نافد ہوچکی ہیں۔لیکن اس کے باوجود یہ جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ھمارا نظام تعلیم فرسودہ اور انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ اس کا بانی لارڈ میکالے ھے جس نے کہا تھا کے میرا نظام تعلیم پڑھ کر مسلمان - مسلمان نہین رہ سکتا -

انسانی معاشروں کا حسن تعلیم، شعور، احساس ذمہ داری،کا ہی مرہون منت ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر معیشت کا اہم ترین حصہ تعلیم پر صرف ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیمی شعبہ کی زبوں حالی اور اس شعبہ کو تجارت کا درجہ دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں شرح تعلیم انتہائی کم ہے محض 57فیصد افراد پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ تعلیمی شرح میں اس حد تک کمی کے باوجود افسوس اس بات کا ہے کہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کا حصہ بڑھنے کے بجائے مزید کم کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ 2006-2007ءمیں بجٹ میں تعلیم کے لیے 2.5فیصد حصہ مختص کیا گیا تھا جو کہ گھٹ کر 2010ءمیں 2فیصد رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم خطے کے دیگر ممالک میں تعلیم کے لیے بجٹ کے حصہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم تعلیمی بجٹ میں سب سے نیچے ہیں۔ اس وقت تعلیم پر بنگلہ دیش 2.6فیصد، نیپال3.2فیصد، بھارت 3.3فیصد، ایران 5.2فیصد، مالدیپ 8.3فیصد خر چ کرتا ہے۔ ان تمام ممالک میں سے پاکستان تعلیم پر بجٹ کا سب سے کم حصہ مختص کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ عالمی سطح پر تعلیم کے شعبے میں سرگرم تنظیم ’گلوبل کیمپین فار ایجوکیشن‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ایشیائی ممالک کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں´ ان کے مطابق پاکستان میں 41 فیصد لڑکیاں بنیادی تعلیم مکمل نہیں کر پاتی ہیں جب کہ ہمسایہ ملک بھارت میں یہ شرح 30 فیصد ہے۔گلوبل کیمپین فار ایجوکیشن کی معاون برطانوی تنظیم ’اوکسفیم‘ کے پاکستان میں عہدے دارسعید الحسن کا کہنا ہے کہ ملک میں خصوصاً لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کے حوالے سے حالات کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہے۔ پاکستان میں لڑکوں کی شرح خواندگی 69 فیصد اور لڑکیوں کی 45 فیصد ہے، جب کہ ملک میں قائم تقریباً ڈیڑھ لاکھ پرائمری اسکولوں میں سے 45 فیصد لڑکوں اور 31 فیصد لڑکیوں کے لیے ہیں۔حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی زیادہ توجہ اس صنفی فرق کو ختم کرنے اور تعلیم کے فروغ پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں لڑکیوں کے لیے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کا امکان ہی 50 فیصد ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت شعبہِ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی کے بعد کیا صورتحال ہوگی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ صوبوں میں تعلیم سمیت دیگر اقدام پر توجہ دینے کا کوئی خاص نظریہ یا پالیسی نہیں ہے۔ تعلیم سے متعلق اکثر تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد سے قبل صوبوں کی استعداد بڑھانا ناگزیر تھا۔”یہ فوری فیصلہ تو کیا گیا ہے، لیکن اس کے لئے باقاعدہ جس ہوم ورک کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا اور نہ یہ دیکھا گیا کہ صوبوں میں یہ ذمہ داری نبھانے کی استعداد ہے یا نہیں۔ وزارت تعلیم بھی ایک دباؤ کا شکار ہے کیوں کہ صوبوں کو اس نئی صورت حال سے واضح آگاہی نہیں ہے۔“۔بیشتر سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اختیارات کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی کے علم میں ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا ہو گا لیکن مستبقل میں اس فیصلے کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے کیوں کہ اختیارات اور وسائل کی منتقلی کے بعد صوبے اپنی کارکردگی کے خود ذمہ دار ہوں گے اور ناکامی کا الزام وفاق پر نہیں ڈالا جا سکے گا۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ صوبوں کو چار سو ارب روپے کی اس رقم سے زیادہ دلچسپی ہے۔ جو صوبوں کو تعلیم کے لئے منتقل کی جائے گی تاکہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق فنڈز اور وسائل کا استعمال کر سکیں۔تعلیم کے ساتھ ہی معیار تعلیم کا بھی ذکر آتا ہے اس بارے میں بھی شکوک وشبہات ہیں۔حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے حکومت ترجیحی بنیاد پر کام کر رہی ہے اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبوں کو چار سو ارب روپے کی رقم منتقل کی جا رہی ہے تاکہ وہ تعلیم کے فروغ کے منصوبوں پر مالی وسائل کا استعمال کر سکیں۔ این ایف سی کے تحت وسائل کی منتقلی کے بعد پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں وفاق کا کردار محدود ہو جائے گا اور اب یہ صوبوں پر منحصر ہو گا کہ وہ کس طریقے سے اپنے ہاں اس شعبے میں بہتری لاتے ہیں۔پاکستان خصوصاََ دیہی علاقوں میں تعیلم کے گرتے ہوئے معیار پر ناقدین مرکزی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ اب اس شعبے پر اگر توجہ نہیں دی جاتی تو اس کا حساب صوبوں کو دینا ہو گا۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں معیارِ تعلیم پرمرتب کیے گئے اپنی نوعیت کے ایک جائزے میں درس وتدریس کی عمومی صورت حال کو’ نہایت مایوس‘ کن قراردیا گیا ہے۔ ساؤتھ ایشین فورم فار ایجوکیشن (سفید) نامی ایک غیر سرکاری علاقائی تنظیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے تین سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں میں 50 فیصد سے زیادہ اردو یا پھر اپنی مادری زبان میں تحریر کیا ہوا ایک جملہ بھی نہیں پڑسکتے۔ اس رپورٹ میں اسلام آباد کے علاوہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خواہ، پنجاب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے 32 اضلاع کے دیہی علاقوں میں 445 نجی اور 1,296 سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ لیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ریاضی کا مضمون پڑھنے والوں میں صرف 44 فیصد بچے دو ہندسوں پر مشتمل تفریق کے سوالات حل کرسکے لیکن یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ دیہی علاقوں کے ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں سے انگریزی کا متن پڑھنے والوں کی شرح 32 فیصد ہے۔اس جائزہ رپورٹ میں 960 دیہاتوں میں54 ہزار سے زائد بچوں کی تعلیمی اہلیت کا جائزہ لیا گیا جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔زیر جائزہ اسکولوں میں تیسری جماعت کے صرف 44 فیصد طالب علم پہلی جماعت کی کتاب کا متن پڑھ سکتے ہیں جب کہ 80 فیصد بچے دوسری جماعت کی نصابی کتاب کا متن پڑھنے سے قاصر ہیں۔اسکولوں کی عمومی حالت زارپر بھی اس جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری پرائمری اسکولوں میں صرف 57 فیصد میں پینے کے صاف پانی اور 45 فیصد میں قابل استعمال بیت الخلاء کی سہولتیں موجود ہیں جبکہ نجی اداروں میں صورت حال نسبتاََ بہتر ہے۔۔ اس جائزے میں بچوں میں معیار خواندگی کے بارے میں جو پریشان کن انکشافات سامنے آئے ہیں وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جائیں اور آئندہ نسلوں کی تعلیم و فلاح میں نمایاں سرمایہ کاری کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں اسکولوں کے اساتذہ کی بہتر تربیت کی جائے ۔ ہمارے نظام تعلیم میںطالب علم رٹے رٹائے الفاظ یا جملوں کو یاد تو کر لیتا ہے لیکن مفہوم سے نا آشنا رہتا ہے۔ تعلیمی امور کا جائزہ لینے والے ملک میں نظام تعلیم کو یکساں کرنے پر زور دیتے ہیں اور ہنگامی بنیادوں پر بجٹ کو دوگنا کرنے اور پرائمری، سکینڈری اور یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو دنیا کے تعلیمی اداروں کے ہم پلہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ مذہبی تعلیمی اداروں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ملایا جائے تاکہ مذہبی طلبہ دنیاوی تعلیم اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ مذہبی تعلیم سے مستفید ہو سکیں۔ اس طرح سوچ اور علمی میدان میں یکسانیت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ ادھر برطانوی حکومت کے تعاون سے پاکستان میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے والی پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس نے بھی سال دو ہزار گیارہ کو تعلیمی ایمرجنسی کا سال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام ہنگامی صورتحال کا شکار ہے جس سے کروڑوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔

ایجوکیشن ٹاسک فورس کی طرف سے ’پاکستان کی تعلیمی ایمرجنسی‘ کے عنوان سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اس تباہ کن ایمرجنسی کے اثرات انسانی، سماجی اور معاشی سطح پر موجود ہیں اور اس بحران سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیم کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے میں اب تک ناکام رہا ہے اور تقریباً ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں اور یہ تعداد لاہور شہر کی پوری آبادی کے برابر ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جتنے بچے اس وقت پرائمری تعلیم سے محروم ہیں ان کی تقریباً دس فیصد تعداد پاکستان میں ہے اس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہائی سکولوں میں داخلے کی شرح محض تئیس فیصد ہونے کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اور بھی پیچھے ہے۔ اور آج بھی ایسے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔دنیا میں چند غریب ترین ممالک میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی مواقع کم نہیں ہیں بلکہ اس کی ناہموار تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے بیس فیصد امیر ترین شہری غریب ترین شہریوں کے مقابلے میں سات سال زیادہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف تیس فیصد پاکستانی انتہائی تعلیمی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ بمشکل دو سال تک سکول جا پاتے ہیں۔ دنیا میں چند غریب ترین ممالک میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا اپنے اپنے تعلیمی اہداف مقررہ مدت میں حاصل کرنے کی جانب گامزن ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی قومی پیداوار کا کم از کم چار فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا پابند ہے۔ لیکن حالیہ برسوں کے بجٹ میں یہ شرح بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے یعنی گزشتہ برس صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی اہداف کو پورا کرنے کےلیے سالانہ سو ارب روپے درکار ہوں گے۔ٹاسک فورس کا کہنا ہے کہ حکومت سرکاری سکولوں پر قومی پیداوار کا محض ڈیڑھ فیصد خرچ کر رہی ہے اور یہ خرچ اس سبسڈی سے بھی کہیں کم ہے جو پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پیپکو کو دی جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں تیس ہزار سے زیادہ سکول مخدوش حالت میں یا اس کی عمارتوں کو مرمت کی اشد ضرورت ہے جبکہ اکیس ہزار سے زیادہ سکول کھلے آسمان تلے چل رہے ہیں اور بہت سے سکولوں میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ صرف پینسٹھ فیصد سکولوں میں پینے کا پانی میسر ہے، باسٹھ فیصد میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہے، اکسٹھ فیصد کی چاردیواری ہے اور صرف انتالیس فیصد میں بجلی کا نظام موجود ہے۔اس رپورٹ میں تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی اہداف حاصل کرنے کےلیے کچھ اضافی اخراجات کرنا ہوں گے۔ معاشی دباؤ کی موجودہ صورتحال میں اولین ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ سال کے بجٹ میں تعلیمی اخراجات موجودہ سطح پر بحال رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستان کے نظامِ تعلیم کی زبوں حالی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی ایک معیاری تعلیمی نظام رائج ہی نہیں ہو سکا۔ ہر حکومت تعلیم کے فروغ کے لئے نئے سے نئے تجربے کرتی ہے جو کہ پہلے نظام سے بھی برے نتائج لاتا ہے ۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی خرابیوں پر توجہ کی جائے تو اس کی چند بڑی وجوہات درج ذیل ہیں۔اپنی زبان سے دوری ،طبقاتی تفریق ،ریسرچ اور معیارِ تعلیم کا فقدان تعلیم کا ترجیحی پالیسی میں شامل نہ ہونا،ہمارے نظامِ تعلیم میں سب سے بڑا مسئلہ اپنی قومی زبان اردو سے دوری ہے۔ ہم انگریزی کی اندھی تقلید اور اردو کے دشمن ہو چکے ہیں۔پاکستان میں دو فیصد طبقہ انگریزی کا سہارا لے کر اٹھانوے فیصد عوام پر حکمرانی کر رہا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ باور کریا جاتا ہے کہ انگریزی تعلیم کے بغیر جدید ٹیکنالوجی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اگر ترقی کے لئے انگریزی ہی ضروری ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے اپنی قومی زبانوں میں ترقی کی ہے وہ انگریزی کے بغیر ترقی کیسے کر گئے ہیں۔ دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ہی زبان میں ترقی کی ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ انسان ہمیشہ اپنی زبان میں ہی سوچتا ہے۔ اگر آج پاکستان میں نظامِ تعلیم کی زبان اردو کر دی جائے تو ایسے ایسے شاہکار ہوں جن کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ایک محدور سروے کے مطابق دیہاتی بچے جو پڑھ نہیں پاتے اور پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے تقریباً 95 فیصد صرف انگریزی کی وجہ سے چھوڑتے ہیں۔ اگر آپ میٹرک میں فیل ہونے والے طلباءکا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے تقریباً 80 فیصد انگریزی کے مضمون میں فیل ہوتے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ کی صورتحال مزید ابتر ہے۔ ایک طالب علم ساری زندگی اردو میں پڑھتا ہے پھر اچانک کالج پہنچ کر سب کچھ اردو کی بجائے انگریزی میں ہو جاتا ہے تو اسے سمجھ تو سب آ جاتی ہے لیکن انگریزی کی وجہ سے وہ لکھ نہیں پاتا۔ پنجاب یونیورسٹی کے آرٹس کے طالب علم جو فیل ہوتے ہیں ان میں 97 فیصد صرف انگریزی میں فیل ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم اردو میں ہو تاکہ ایک عام طالب علم بھی آسانی سے علم حاصل کر سکے اس کے علاوہ انگریزی یا کوئی بھی دوسری زبان سیکھنا چاہے ضرور سیکھے بلکہ علم میں اضافے کے لئے جتنی چاہے زبانیں سیکھے۔ہمارے تعلیمی نطام میں بگاڑ کا دوسرا بڑا سبب طبقاتی تفریق ہے جو قومی زبان اردو اور انگریزی کو بنیاد بنا کر ہی ڈالا گیا ہے۔ پرائیویٹ ادارے کاروباری ذہن کے پیشے نظر انگریزی میں تعلیم دینے کو ترجیع دیتے ہیں اور امراء کے بچے انہیں پرائیویٹ اداروں میں پڑھتے ہیں اور غریب گورنمنٹ کے پیلے اسکولوں میں ۔ اب تعلیم اور ڈگریاں فروخت کی جارہی ہیں۔ گورنمنٹ کالج یا یونیورسٹی میں غریب طالب علم سر توڑ محنت کے بعد میرٹ پر آ کر داخل ہوتا ہے اور امیر کا بچہ سلف فنانس پر سیٹ خریدتا ہے، اور یہ ثابت کر دیا جاتا ہے کہ غریب طالب علم محکوم ہے اور امیر حکمران جو پیسے سے کہیں بھی داخل ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ اداروں کا معیار ، پرائیویٹ کے مقابلے میں پشت ہے۔ چونکہ پرائیویٹ میں فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے غریب کی پہنچ سے دور اور امیر وہاں تعلیم حاصل کرتا ہے یوں امیر کا معیار غریب سے بلند سمجھ لیا جاتا ہے۔عام طور پر غریب کا بچہ ماسٹر کر کے کلرک بنتا ہے اور امیر کا ماسٹر کر کے افسر۔۔۔ اسی طبقاتی تفریق کی وجہ سے سفارش اور رشوت کے ذریعے امیروں کو نوکریاں ملتی ہیں لیکن غریب اس سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے غریب بچوں اور جوانوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ یہاں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی طالب علم نے کتنی کتاب اپنے ذہن میں نقش کی ہے اور یہ کتنا لکھ سکتا ہے۔ عام طور پر چھٹی جماعت سے لے کر گریجویشن تک امتحانات میں یہ ہی دیکھا جاتا ہے کہ کوئی طالب علم ایک خاص وقت میں کتنا لکھ سکتا ہے۔ جو جتنا زیادہ لکھتا ہے اسے اتنے ہی نمبر ملتے ہیں۔ ہمارا معیار علم کی بجائے لکھنے کی رفتار بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ دیکھا جائے کہ ایک طالب علم کتنا علم رکھتا ہے۔ لیکن یہاں زیادہ سے زیادہ لکھنے اور خوبصورتی کے نمبر ہوتے ہیں۔ اب ایک طالب علم بہت ذہین ہے وہ ایک اچھا سکالر بن سکتا ہے لیکن اس کی لکھنے کی رفتار یا لکھائی خوبصورت نہیں تو بس اسے اسی بات کی سزا دی جاتی ہے کہ تم تیز اور خوبصورت لکھ نہیں سکتے اس لئے تم کسی کام کے نہیں۔۔۔ مزید ہماری اعلٰی تعلیم میں سب سے بڑا مسئلہ ریسرچ سے دوری ہے۔ کتابیں یاد کرنا اور پھر انہیں امتحانات میں لکھ دینا ہی معیار سمجھ لیا ہے اور ریسرچ کا شوق اور فائدہ بتایا ہی نہیں جاتا۔ ان سب باتوں کے علاوہ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے تعلیم کا شعبہ ترجیح نہیں ہے۔ جس کے سبب نظامِ تعلیم میں بھی بے شمار کمزوریاں ہیں۔ جن میں اساتذہ کی تربیت، آئے دن نصاب کی تبدیلی، جدید سہولیات کی کمی، عملی تربیت، تجربہ گاہ کی کمی، تجربہ گاہ میں معیاری سامان کی کمی، امتحانات کا نظام، تعلیمی اداروں کی عمارتوں کا غلط استعمال، رشوت، سفارش اور ان جیسی بے شمار کمزوریاں ہمیں ترقی سے دور کر رہی ہیں۔اسلامی جمعیت طالبات پاکستان نے جو تعلیمی سفارشات ومطالبات پیش کئے ہیں ان میں سر فہرست :۔ ۱) بجٹ 2011-2012ئ میں GDP کا 5فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔ ۲) تعلیم کو تجارت بنانے اور نجی شعبہ کے ہاتھوں میں دینے سے گریز کرتے ہوئے حکومت اس کو اپنی پہلی ترجیح میں رکھے۔ ۳) 18ویں ترمیم کے مطابق نصاب کی تیاری کا اختیارصوبوں کو منتقل کرنے کے فیصلہ کو فی الفور واپس لیا جائے۔ اس فیصلے سے ملک کی ملی وحدت اور قومی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ۴) طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے فوری کوششیں کی جائیں اور یکساں نظام تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ جس کے ذریعے معاشرہ سے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ ۵) باقاعدہ اور موثر منصوبہ بندی کے ذریعے ملک سے جہالت کا خاتمہ ممکن بنا کر تعلیم کی شرح کو بڑھایا جائے۔ ۶) پرائمری اور سکینڈری سطح کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ ۷) اساتذہ کی خصوصی تربیت اور اہل افراد کو شعبہ تعلیم میں بھرتی کرکے معیار تعلیم کو بلند کیا جائے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو ہمیں سب سے پہلے نظامِ تعلیم کو اپنی ترجیح کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہ کام حکومت اور عوام دونوں کا ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ انفرادی طور پر تعلیم عام کرنے اور نظامِ تعلیم کو بہتر کرنے کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں تعلیمی مقابلے کرائیں۔ غریب طالب علموں کے اخراجات جو اٹھا سکتے ہیں۔ انھیں اٹھانا چاہیئے۔ اسکول، کالج تعلیمی ادارے بنانے چاہیئے۔ معیاری اور سستی تعلیم کو عام کیا جائے۔ تاکہ غریب بھی آسانی سے پڑھ سکے۔ تعلیمی ماحول کو عام کیا جائے۔ بچوں اور نئے طالب علموں کی بہتر سمت میں رہنمائی کرنے، ریسرچ کا جذبہ پیدا کرنے میں خاص طور پر توجہ دینی ہو گی۔ انٹرنیٹ جیسے میڈیا پر کھیل کود کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواد اردو میں مہیا کیا جائے۔ اسی سے معاشرہ بہتر ہوگا۔ اور ایسے افراد پیدا ہوں گے۔ جو ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔۔۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387272 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More