’’عاقل گوٹھ‘‘


لاڑکانہ کا قدیم گاؤں، جو امن و سکون کا گہوارہ ہے

عاقل گاؤں تحصیل و ضلع لاڑکانہ کا دو صدیاں قدیم گاؤں ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دریائے سندھ کے سیلابی ریلوں کی وجہ سے سات مرتبہ اجڑا اور پھر دوبارہ آباد ہوا۔ آخری مرتبہ اسے 1933ء میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا۔یہ گاؤں لاڑکانہ شہر سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔ یہ مردم خیز سرزمین ہے جہاں نام ور سیاستدانوں، علمائے کرام ، ادیب و شعرائے کرام اور اساتذہ نے جنم لیا۔یہ علاقہ انتہائی سر سبز و شاداب ہے۔ اس کے تین اطراف امرود کے باغات جب کہ مشرقی سمت بچاؤ بند ہے جس کے ساتھ دریائے سندھ اپنی شوریدہ سر لہروں کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ دادو کینال کا پل عبورکرکے گاؤں میں قدم رکھنے پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کشمیریا سوات کی کسی وادی میں آگئے ہیں۔ عاقل گاؤں ایک بڑے رقبے پر محیط ہےجس کی تعمیر میں شہری سہولتوں کا خاص خیال رکھا گیا۔ ہر گلی کے اختتام پر ایک چوراہاہے، کشادہ گلیاں، نکاسی آب کا نظام اور گلیوں میں سی سی بلاک سے سڑک بنائی گئی ہے۔ گاؤںایک ہزار سے زائد گھروں پر محیط ہے جس میںتقریباً پانچ ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لاڑکانہ سے عاقل تک ایک سنگل روڈ اوربڑا سرکلرروڈ جاتا ہے۔ یہ سڑک سکھر سے ایک بائی پاس کی شکل میں عاقل روڈ سے گذرتی ہوئی لاڑکانہ کے ایئر پورٹ کی طرف جانے والی سڑک اور موئن جو دڑوسے جا ملتی ہے۔

یہ گاؤں قدیم دور سے ہی علم وادب کا مرکزرہا ہے، جب انگریزوں نے ٹالپور حکمرانوںکوشکست دے کر سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نےسندھ میں تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔ انہوں نے تعلیمی ادارے قائم کیے۔اس سلسلے میں عاقل گوٹھ کوبھی خصوصی اہمیت دی گئی۔ 1895ء میں انہوں نےیہاں ایک جدید تعلیمی ادارہ قائم کیا۔1939ء میں چار کمروں پر مشتمل پرائمری اسکول کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس دور میں سارا تعلیمی نظام ڈسٹرکٹ کونسل کے ہاتھ میں تھا۔ قیام پاکستان کے بعدیہ اسکول حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہوگیا۔ 2012ء ‏میں پرانی عمارت مسمار کرکے نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔
وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں پانچ نکاتی پروگرام کے تحت عاقل گاؤں میں مڈل اسکول کو اپ گریڈ کرکے 1988ء میں ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا اور ساتھ بنیادی صحت مرکز قائم کیا گیا۔ وفاقی وزیر شاہ محمد پاشا کھوڑو نے ہائی اسکول ، اسپتال اور کالونی کے قیام کے لیے اپنی زرعی زمین وقف کردی۔حمیدہ کھوڑو جب صوبائی وزیر تعلیم تھیں ،تو انہوں نے ایک ٹیکنیکل اسکول بھی تعمیرکروایا تھا۔یہ واحد گاؤں ہے جو 1973ء میں ہی برقی رو سے منور ہوا جب کہ 2010ء میں اسے سوئی گیس کی سہولت بھی حاصل ہوئی ۔ عاقل گاؤں میں پانچ مساجد ہیں،جب کہ دینی تعلیم کا ایک مدرسہ بھی موجودہے۔ممتاز سیاست داں، محمد ایوب کھوڑو کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا ۔ پاکستان کے قیام کے بعدوہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے۔ حمیدہ کھوڑو انہی کی صاحب زادی ہیں ، جو صوبائی وزیر ہونے کے علاوہ سندھ کی معروف دانش ور، محقق اور مؤرخ کے طور پر مشہور ہیں۔ محترم نثار احمد کھوڑوکا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔ عاقل گاؤں کے سومرو خاندان جن کا علم اور ادب میں ایک بڑا نام ہے، ان کا بھی تعلق اسی زرخیز خطے سے ہے۔جیساکہ مولانا محمد عاقل عاقلی جو ایک بڑے عالم دین اور شاعر تھے، اور ان کے صاحبزادے اپنے وقت کے بڑے شعراء اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں مشہور عامہ عبدالفتاح عبد عاقلی، عبدالحق زیب عاقلی، غلام سرور تخلص سرور عاقلی شامل ہیں۔ کہا جانا ہے کہ عاقل گاؤں کا نام انہی سے منسوب ہے۔

مولانا علی محمد حقانی صاحب اور ان کے صاحبزادے شہید علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ حضرت مولانا علی محمد حقانی اپنے دور کے ایک جید عالم دین تھے، جنہوں نے ابتدائی تعلیم اسی گاؤں سے حاصل کی ۔ انہوں نے اس گاؤں میں دینی تعلیم کا ایک مدرسہ بھی قائم کیا، جہاں سے شہید اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعد میں وہ ملک کے بڑے خطیب، مبلغ اورسیاستدان کے طور پر مشہور ہوئے۔

عاقل گاؤں میں مختلف قبائل کے لوگ رہتے ہیں، جن میںگاد، کھہڑا، کلہوڑا، سومرا، بھٹا، میمن، دایا، بلوچ، چنہ، ابڑو، کھوکھر، میرانی، کھرل، کوکاری، کیھر، سید وقابل ذکر ہیں ۔گاؤں کے 90 فیصد افراد غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور کھیتی باڑی کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا گذر سفر کرتے ہیں، جبکہ کچھ افراد مختلف کاروبار بھی کرتے ہیں، کچھ افراد سردی کی موسم میں امرود کے باغوں میں مزدوری کرتے ہیں، یہاں کے کافی افراد سرکاری و خانگی سروس کے سلسلے میں یہاں سے نقل مکانی کرکے بڑے شہروں یعنی ملحقہ شھر لاڑکانہ، حیدرآباد اور کراچی میں منتقل ہوگئے ہیں اور جبکہ دریائی کچے کے علائقے کے افراد نقل مکانی کرکے عاقل گاؤں میں آباد ہوگئے ہیں۔کچھ عرصہ قبل قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے یہاں بھی خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا،اوربہت سے لوگ نقل مکانی کرکے واپس شہروں میں چلے گئے تھے۔

اس گاؤں کو اس وقت بھی خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے جب ملک میں ریلوے نظام کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی زمینی سفر کے لیے مناسب سہولتیں موجود تھیں۔اس وقت عاقل گاؤں کے قریب دریائے سندھ کا مشہور ’’عاقل پتن ‘‘ بنا ہوا تھا۔ پتن سندھی زبان میں کشتیوں کے گھاٹ کو کہتے ہیں۔اس زمانے میں کاروباری لوگ، تاجر طبقہ، حکومتی عمل دار، سیاح اور بڑے سرکاری افسران ،کشتیوں اور، لانچوں کے ذریعے سندھو دریاکو عبور کرکے اونٹوں گھوڑوں اور بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب عاز سفر ہوتے تھے۔

قیام پاکستان سے قبل اس گاؤں میں ہندو وکثیر تعداد میں آباد تھے جن میں سے بیشتر سود کا کاروبار کرتے تھےجب کہ باقی لوگ تجارت پیشہ تھے۔حسین مناظر ، علم و ہنر کے ساتھ عاقل گاؤں امن و شانتی کا گہوارہ ہے، جہاں ملک کے مختلف شہروں سے لوگ چین و سکون کے ماحول میں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.