مستقبل کے مِعمار

پیارے اسلامی بھائیو! طلبہ(Students)مستقبل کے مِعمار ہوتے ہیں اور یہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ طلبہ اپنی تعلیم کے دوران جس قدر مخلص اور محنتی ہوں گے معاشرے اور قوم کو اسی قدر بہترین افراد میسر ہوں گے، بالآخر یہ افراد مل کر نہ صرف ایک اچّھا معاشرہ قائم کرسکیں گے بلکہ ایک زندہ قوم کے ستون بن کر اسے مضبوطی فراہم کریں گے۔ تعلیم و تعلُّم کی اہمیت کو دینِ اسلام نے بہت اُجاگر فرمایا ہے، نسلِ انسانی کے بہترین مستقبل کی بنیاد ہونہار، قابل، مستقل مزاج، محنتی اور اپنے وطن وقوم سے خالص محبت رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ پر ہوتی ہے۔( )
ذیل میں ”طالبِ علم کو کیسا ہونا چاہئے؟“ کے بارے میں کچھ اہم پوائنٹس ملاحظہ کیجئے:
❀طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کی ہر بات توجہ سے سنے اور اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرے، ممکن ہو تو لکھ بھی لے، اگر استاد صاحب کی آواز صحیح طور پر آپ تک نہیں پہنچ رہی تو ادب و تعظیم کے ساتھ مناسب انداز میں ان سے عرض کردے۔
❀اس بات کا انتظار نہ کرے کہ استاد صاحب سبق سُنانے کا
فرمائیں گے تو سناؤں گا بلکہ خود ہاتھ اٹھا کر سبق سنانے کا عرض کرے۔
❀ رہائشی طلبہ اگر سمجھیں تو ان کے پاس طویل وقت ہوتا ہے، جس میں وہ اپنے اسباق کی اچھی تیاری کے ساتھ ساتھ غیرنصابی مطالعہ وغیرہ بھی کرسکتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ بہت سے طلبہ اپنا وقت موبائل اور دیگر غیرضروری معاملات میں ضائع کردیتے ہیں، بعض تو نیند کے بہت رَسیا(شوقین) ہوتے ہیں کہ نمازِ عشا کے بعد جلد سونے اور فجر پڑھنے کے بعد بھی سوجانے کے عادی ہوتے ہیں، یادرکھئے! کہ تعلیم کا یہ دورانیہ سال مکمل ہونے پر ختم ہوجائے گا لیکن آپ کی سُستی یا غیر ضروری معاملات میں مصروفیت کے باعث رہ جانے والی کمی و کوتاہی کا ازالہ کبھی نہ ہوسکے گا، اسی طرح غیر رہائشی طلبہ جو چھٹی کے بعد گھر چلے جاتے ہیں، انہیں بھی چاہئے کہ جامعۃ المدینہ کے بعد بھی اسباق کی تیاری اور مطالعۂ کتب کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت مُقرّر کریں، معاشی حالات کی بہت زیادہ پریشانی نہ ہو تو آمدنی کے لئے کوئی کام وغیرہ ہرگز نہ کریں صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دیں، بلکہ اگر ممکن ہو تو جامعۃ المدینہ میں ہی رہائش اختیار کریں۔
❀علمی بنیاد مضبوط رکھنے کیلئے اسباق کی تکرار اَزحد ضروری ہے، لہٰذا بعدِ نمازِ ظہر و عشا تعلیمی حلقوں میں لازمی شرکت کریں اور اسباق کی تکرار کریں، اگر آپ کو لگتاہے کہ سبق مکمل سمجھ آگیا ہے تو بھی مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کی نیّت سے دیگر طلبہ کے ساتھ اسباق کے تکرار کا حصّہ بنیں کہ آپ کو یاد ہے تو دوسروں کوبھی یاد ہوجائے۔
❀دعوتِ اسلامی کے مدنی کام آخرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کو سنوارنے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد عملی زندگی(Practical life) میں کامیاب رہنے کا بہترین ذریعہ ہیں، لہٰذا دورانِ طالبِ علمی ہی سے مدنی کاموں کا جذبہ جوان رکھیں اور سُستی نہ آنے دیں، اِنْ شَآءَ اللہ مدنی کاموں کی برکت سے پڑھائی میں بھی بہتری آئے گی۔
❀جیسے جیسے طالبِ علم علمی میدان میں آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے اس کا ذہن کُھلتا ہے اور اس کی سوچ میں پختگی آتی جاتی ہے۔ ایسے موقع پر گروپ بندی یا انتظامی معاملات پر نکتہ چینی کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے، کیونکہ ایسے لوگ عملی زندگی میں مشکل سے ہی کامیاب ہوتےہیں۔
❀بڑی عمر کے طالبِ علم کو چاہئے کہ اپنی عمر کے طلبہ کے ساتھ ہی دوستانہ ماحول رکھے، بہت چھوٹے یا کم عمر طلبہ اپنی کلا س کے ہوں یا چھوٹی کلاسوں کے، ان سے دور ہی رہے۔(اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْاِشَارَۃ)
❀جامعۃ المدینہ کی پڑھائی کو دُنیوی تعلیم کی طرح ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ جو پڑھ لیا دوبارہ اسے نہیں پڑھنا، بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ گزشتہ سالوں کی کتابیں بھی کچھ نہ کچھ مطالعہ و تکرار کا حصہ رہیں، اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پچھلے درجات کے ایک دو طلبہ کو کوئی نصابی کتاب پڑھانا شروع کردیں ۔
❀غیر نصابی مطالعہ میں کوئی ایک کتا ب تصوف کی ضرور رکھے تاکہ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی بھی صفائی ہوتی رہے۔ اس کیلئے مکتبۃ المدینہ کی چَھپی ہوئی کتابیں احیاء العلوم، لباب الاحیاء، منہاج العابدین،غیبت کی تباہ کاریاں،فیضانِ سنّت،باطنی بیماریوں کی معلومات اور امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمدالیاس قادری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی کے مختلف موضوعات پر رسائل کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
❀یہ بھی یاد رکھئے! کہ ہر کوئی ہر فن کے حوالے سے مشورہ و رہنمائی نہیں دے سکتا، اس لئےہر فن اور عِلم کے مطالعہ کے حوالے سے اس علم کے ماہر(Expert) استاد صاحب سے مشورہ کیجئے اور کچھ نہ کچھ غیرنصابی مطالعہ لازمی کرنا چاہئے۔
❀بعض اوقات مالی (Financially)، جسمانی(Physically)، گھریلو یا ذہنی مشکلات و پریشانیاں بھی آتی ہیں، اپنے معاملات کو ہر کسی کے سامنے نہ بیان کریں ۔ ضرورتاً کسی استاد صاحب سے ذکر کرکے ان کا مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔
❀انسانی زندگی میں نشیب و فراز (اُتارچڑھاؤ) آتے رہتے ہیں، پریشانی، بیماری اور ضروریاتِ زندگی کے معامَلات ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن طبیعت کی ہلکی پھلکی ناسازی اور ایسے کام جو کوئی دوسرا بھی کر سکتا ہے ان کی وجہ سے چُھٹّی کرلینا یا درس گاہ دیر سے پہنچنا مُناسب نہیں، ایک اچّھے طالبِ علم کو یاد رکھنا چاہئے کہ چھٹّی کیا ذرا سی تاخیر بھی اس کے مستقبل کو متأثر کرسکتی ہے۔


 

Rashid Gujjar
About the Author: Rashid Gujjar Read More Articles by Rashid Gujjar: 2 Articles with 5500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.