میں چھپ گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔آہ ڈاکٹر اجمل خان نیازی

ڈاکٹر اجمل خان نیازی مرحوم کے ایک شعر سے آغاز کرتا ہوں ۔۔
سب کھیلتے ہیں آنکھ مچولی مگر یہاں
میں چھپ گیا ہوں کوئی مجھے ڈھونڈتا نہیں
اجمل ہوں وسط شہر میں اجڑا ہوا مکاں
پاس آ کے لحمہ بھربھی کوئی بیٹھتا نہیں
ڈاکٹر اجمل خان نیازی 16ستمبر1946ء موسی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے آپ نے اپنی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی طالب علمی کے زمانے میں ہی راوی اور محور کی ادارت کی اس کے علاوہ آپ گارڈن کالج راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج میانوالی میں بطور لیکچرار کام کرتے رہے پھر آپ گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج میں بھی پڑھاتے رہے آپ کے کالم نوائے وقت میں بے نیازیاں کے نام سے شائع ہوتے رہے آپ نے پنتالیس سال ادب کی خدمت میں گزارے ادب کی خدمت کے سلسلے میں ہی حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز سے بھی نوازاآپ کی تصانیف میں مندر میں محراب جو کہ ایک سفر نامہ ہے جل تھل جو میانوالی کے شعرا ء اکرام سے متعلق ہے محمد الدین فوق،بے نیازیاں اورمجموعہ مقالات قابل ذکر ہیں آپ اردو اور پنجابی میں شاعری بھی کرتے تھے ۔

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے ہم اس کی قدر نہیں کرتے لیکن جب وہ دنیا سے رحلت فرما جاتا ہے تو ہمیں اس کی یاد آنے لگتی ہے ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہیں ان کی موت کے بعد یاد کیا گیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں اب اپنے علاوہ کسی کا خیال نہیں ہے جس شخص نے پاکستان کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہو اس کی قدر اس کی زندگی میں کریں میں نے بہت سے ایسے کالم نگاروں اور فنکاروں کو بے بسی کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھا ہے جن کی آخری زندگی برے حالات کے ساتھ گزری اگر ہم چاہیں تو ہم ان کی زندگی میں مدد کر سکتے ہیں تا کہ ان کی باقی ماندہ زندگی خوشحال گزر سکے حکومت کو بھی اس سلسلے میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک آدمی کو اعزاز سے تو نواز دیتے ہیں لیکن اس کی زندگی کیسی گزر رہی ہے اس بارے میں نہیں جاننا چاہتے اور نہ ہی اس کی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب سے میری ایک دو ملاقاتیں ہیں جب بھی ملتے تھے بڑے پیار سے ملتے تھے وہ ہر ایک سے محبت سے پیش آتے تھے یہی بڑے لوگوں کی نشانیاں ہیں ڈاکٹر صاحب ایک خوددار انسان تھے آج تک میں نے ان کے بارے میں نہیں سنا کہ انہوں نے کھبی کسی سے فریاد کی ہو آج وہ سرخرو ہوگئے ہیں لیکن ہم پر ان کا قرض ابھی باقی ہے ہمیں ان کے کام کو آگے بڑھانا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب گزشتہ کچھ سالوں سے سخت بیمار تھے اور محافل میں نہیں جاتے تھے لیکن ایک وقت تھا کہ وہ محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے کوئی تقریب ان کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی ان کی باتیں لوگ غور سے سنتے تھے ان کا انداز بیاں جدا گانہ تھا جب بولتے تھے تو لفظوں کی لڑی بنتی چلی جاتی تھی میں سمجھتا ہوں کہ جس شخص نے پاکستان کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دی ہو اور وہ یوں کمپرسی کی حالت میں دنیا سے چلا جائے اس سے زیادہ ہماری اور کیا بے حسی ہو سکتی ہے کسی نے بھی ان کے علاج معالجے کی طرف توجہ نہیں دی اور وہ اپنی زندگی کے آخری ایام گھر میں گزارنے پر مجبور ہوئے اگر ان کا علاج معالجہ بہتر طریقے سے کیا جاتا تو وہ اپنی آخری زندگی بہتر طریقے سے گزار سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا ایسے معروف لوگوں کو دیکھ کر کبھی کبھی ڈر سا لگنے لگتا ہے کہ ہم نے بھی مرنا ہے کیا یہی لوگ جو آج ہمارے کالمز پڑھ کر ہمیں داد دیتے ہیں کل ہمارا پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا کیونکہ ہم تو کسی کھیت کی مولی نہیں ڈاکٹر صاحب تو ایک قد آور شخصیت تھے ان کا معاشرے میں ایک مقام تھا اس کے باوجود انہوں نے ایسی زندگی گزاری کہ نہ ہی حکومت اور نہ ہی ان کے کسی چاہنے والے نے ان کے علاج معالجے کی طرف دھیان دیا ایسے لوگ ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ہمیں ان کی زندگی میں ہی ان کی قدر کرنے کی ضرورت ہے وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو تعلیم دی انہیں اس قابل بنایا کہ وہ ملک و قوم کے لئے کچھ کر سکیں لیکن خود وہ اپنے لئے کچھ نہ کر سکے روز محشر وہ ہم سے ضرور پوچھیں گے کہ میرا قصور کیا تھا آج اگرایک سیاست دان بیمار ہو جائے تو اسے بیرون ملک فوری بھیج دیا جاتا ہے جس کی خرچہ پاکستانی خزانے سے لیا جاتا ہے لیکن ایک محب وطن ایک قوم کے معمار کے لئے ملک میں بھی علاج نہیں کروایا جاتا ہے ایسی بے حسی کیوں ۔۔؟

ڈاکٹر صاحب آج 18اکتوبر 2021کو ہمیں چھوڑ گئے ہیں مجھے ایسے شخص کے جانے پر بے حد افسوس ہے جس نے اپنی زندگی ملک و قوم کے لئے وقف کر رکھی تھی اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ ٖڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں۔آمین
 

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1846154 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More