خلاصہء سیرتِ خاتم النبیین ﷺ

خلاصہء سیرتِ خاتم النبیین ﷺ
ازقلم: انجینئر علامہ محمد شعیب اکرام

حضور خاتم النبیین ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مشعلِ راہ بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کے معمولاتِ زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرت النبی ﷺ کا ہر پہلو روشن ہے۔ سیرت النبی ﷺکی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔ دنیائے انسانیت میں کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالاتِ زندگی، معمولاتِ زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں، جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرت النبی ﷺکا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ ﷺسے نسبت رکھنےوالے افراد اور آپ ﷺسے نسبت رکھنے والی اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کے لیے موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو نظامِ حیات اوراپنے محبوب رسول ﷺکو نمونہٴ حیات بنایا ہے۔درحقیقت وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہے،جو رسول اللہﷺسے قولاً، فعلاً منقول ہے۔ آپ ﷺکا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے: جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ ﷺکا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہورہا ہوتا ہے، آپﷺ کی سیرت سنائی اور بتائی جارہی ہوتی ہے، پھر بھی سیرت النبی ﷺکا عنوان پُرانا نہیں ہوتا، یہی معجزہ ہے سیرت النبی ﷺکا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔
صحابہ کرام کی دنیا وآخرت میں کامیابی کا رازاتباعِ سنت ہے، یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرت النبی ﷺکا نور جھلکتا تھا ،یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں صحابہ کرام کو اپنی رضا کی نوید سنائی۔
رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌
ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے۔ (سورۃ المائدہ، آیت 119)
خود خاتم النبیینﷺنےصحابہ کرام کیلئے ارشاد فرمایا :
اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم
ترجمہ: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤگے۔(ترمذی)

ولادتِ باسعادت اور اسمِ گرامی:
حضور کریم ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ ﷺ کا زمین پر نام "محمد" اور آسمانوں پر "احمد" ہے۔ آپ ﷺ کے والد حضرت عبد اللہ اور والدہ حضرت آمنہ ہیں۔آپﷺ کا تعلق عرب کے مشہور خاندان قریش کی شاخ بنو ہاشم سے ہے۔آپ ﷺ کے دادا کا نام "عبد المطلب " ،دادی کا نام"فاطمہ" ، نانا کا نام "وہب" اور نانی کا نام "برہ" ہے۔

حلیہ مبارکہ:
شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی نے ذکر فرمایا ہے:
حضور نبی ﷺمیانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے، تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہٴ مبارک چوڑا، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا ، کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر ، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی ،مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں بولتے تو نور نکلتا تھا، سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی ۔ صحابہ کا اتفاق ہے کہ آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔
حضرت حسان بن ثابت شاعرِ رسول ﷺہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبریًا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
ترجمہ: آپ ﷺسے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے پیدا ہی نہیں کیا، آپ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے ،گویا رب نے آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق تخلیق کیا۔

اندازِ بیاں:
حضور نبی ﷺ نہ کبھی چیخ کر بات کرتے ، نہ قہقہہ لگاتے ،نہ چِلّاکر بولتے ، ہر ایک لفظ واضح بولتے ،جب مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملے کو بالکل صاف صاف دہراتے، اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں ایسی حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل کرتا رہے، لبوں پر ایساتبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا ، چلتے تو رفتار ایسی ہوتی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں، نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے ، نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے، قدم مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے کہ نعلین شریفین کی آواز بھی نہیں آتی، ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم اور قدم پُرگوشت، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے ، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے، جب تک وہ الگ نہ کرلے، جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے ،کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے۔

حضرت خدیجہ سے نکاح:
اعلانِ نبوت سے 15 سال قبل حضور خاتم النبیین ﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ بنت خویلد سے ہوا۔ حضرت خدیجہ رسول اللہ ﷺ کی پہلی زوجہ اور مؤمنوں کی ماں ہیں۔ انہیں دورِ جاہلیت میں بھی طاہرہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ نکاح کے وقت حضور خاتم النبیین ﷺ کی عمرِ مبارک پچیس(25) سال اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس(40) سال تھی۔ نبی پاک ﷺ نے آپ کی حیاتِ مبارکہ میں کسی دوسری خاتون سے نکاح نہیں فرمایا۔ حضرت خدیجہ کا وصال نماز کی فرضیت اور ہجرتِ مدینہ سے تین سال قبل اور حضرت ابوطالب کی وفات کے تین دن بعد ہوا۔ وصال کے وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر پینسٹھ(65) سال تھی اور وہ رسول اللہ ﷺکے نکاح میں پچیس (25)سال رہیں۔ وہ پہلی خاتون تھیں، جو آپ ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ کی تصدیق کی۔

دعوت و تبلیغ کا آغاز:
اعلانِ نبوت کے بعدحضور خاتم النّبیین ﷺنے ایک ایسے معاشرے کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، جہالت کا شکار تھا، جس میں انسانیت وشرافت موجود نہ تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا، نہ عزت محفوظ تھی، نہ عورتوں کا کوئی مقام تھا، شراب پانی کی طرح پی جاتی تھی، بے حیائی عروج پر تھی، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی، ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا۔ ایسے دور میں حضور خاتم النبیین ﷺ نے کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان کیاکہ ”یآ ایھا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ ترجمہ: اے لوگو! کہو (یعنی ایمان لے آؤ) کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تم فلاح پاجاؤگے۔
یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی۔ یہی اعلانِ توحید تھا، جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بت شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سینکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے جھکنے لگیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے عورتوں کے محافظ بن گئے اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے کمزوروں کا سہارا بن گئے ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ محمد عربیﷺ کے غلاموں نے ایمان وتوحید کی ایک ایسی تاریخ مرتّب کی، جیسی دنیا نے نہ کبھی دیکھی تھی اور نہ ہی سنی تھی۔

صبرواستقامت :
رسول اللہ ﷺنے دعوتِ حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ظلم و ستم برداشت کئے ، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپﷺ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا ،راستوں میں کانٹے بچھائے،طرح طرح کے لالچ دیئے، دھمکیاں دیں، بائیکاٹ کیا، آپ ﷺ کے صحابہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے کہ کسی طرح حق کا قافلہ رُک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا، توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا ہی تھا۔خودرسول اللہ ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا ،کسی اور کو نہیں ڈالاگیا۔

ہجرتِ :
جب مکہ کی سرزمین حضور خاتم النبیین ﷺاور صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی، تب بحکم ِالٰہی آپﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائیداد سب چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا۔ پہلی ہجرت صحابہ کرام کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے تمام صحابہ کرام کو مدینے کی جانب کی ہدایت دی۔ جب صحابہ کرام نے ہجرت فرمالی، تو حضور خاتم النبیین ﷺ نے حضرت علی کو مکے والوں کی امانتیں دیں، اپنے بستر پر سُلایا اور ہدایت کی کہ کل صبح یہ امانتیں لُٹا کر مدینے آجانا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کو اپنی رفاقت کیلئے چُنا اور آپ کو لے کر مدینے کی جانب روانہ ہوئے۔ کفار مسلسل آپ ﷺ کو ڈھونڈتے رہے، حضور خاتم النبیین ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق نے غارِ ثور میں تین دن اور تین راتیں قیام فرمایا۔ پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے ، جو"یثرب" بیماریوں کا شہر سمجھا جاتا تھا، ہجرت کے بعد دنیا کیلئے شفاء کا مرکز بن گیا، نور والا شہر "مدینہ منورہ" بن گیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئےمدینہ اسلام کا مرکز بن گیا۔

غزوات :
ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک طرف حضور خاتم النبیین ﷺکو دعوتِ اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص ساتھی ملے ،جس کے باعث قبائل ِ عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا ، تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہودِ مدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا ۔ مکہ میں مسلمان بے قوت و طاقت تھے، اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین کی گئی تھی۔ مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منہ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے قبل کچھ سرایا بھی ہوئے تھے۔ وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور ﷺ بھی تشریف لے گئے ،اس کو غزوہ کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضور ﷺ شامل نہیں ہوئے ان کو سرِیّہ کہتے ہیں۔غزوات کی تعداد تقریباً 28 ہے۔
1۔ غزوہ ابواء 2۔ غزوہ بواط 3۔ غزوہ ذی العشیرہ 4۔ غزوہ بدر اولی (غزوہ سفوان) 5۔ غزوۂ بدر الکبریٰ
6۔ غزوہ بنی سلیم 7۔ غزوہ بنی قینقاع 8۔ غزوہ سویق 9۔ غزوہ ذی امر 10۔ غزوہ بحران
11۔ غزوہ احد 12۔ غزوہ حمراء الاسد 13۔ غزوہ بنی نضیر 14۔ غزوہ ذات الرقاع 15۔ غزوہ بدرالصغری
16۔ غزوہ دومۃ الجندل 17۔ غزوہ بنی المصطلق (المریسیع) 18۔ غزوہ خندق 19۔ غزوہ بنی قریظہ 20۔ غزوہ بنی لحیان
21۔ غزوہ ذی قرد 22۔غزوہ حدیبیہ 23۔ غزوہ خیبر 24۔غزوہ عمرۃ القضا 25۔ غزوہ موتہ 26۔ غزوہ حنین 27۔ غزوہ طائف 28۔ غزوہ تبوک

چند اہم غزوات:
• غزوہٴ بدر 2ھ میں مؤمنین ومشرکین مکہ کے درمیان میدانِ بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا ،جس میں رسول اللہ ﷺکی سپہ سالاری میں تین سو تیرہ(313) مجاہدین نے مشرکین کے ایک ہزار ہتھیار بند لشکر کو شکست سے دوچار کیا اور ابوجہل، شیبہ، عتبہ سمیت ستر (70) سردارانِ قریش مارے گئے اور ستر (70)گرفتار ہوئے ،اسی سے مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قبائل عرب پر نقش ہوگیا۔
• غزوہٴ اُحد 3ھ میں اُحد کے مقام پر پیش آیا ،مسلمان سات سو (700)اور کفار تین ہزار(3000) تھے۔
• غزوہ ذات الرقاع 4ھ میں پیش آیا ،اسی میں پہلی مرتبہ صلوٰة الخوف ادا کی گئی۔
• غزوہٴ احزاب 5ھ میں ہوا ،مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔ حضور خاتم النبیین ﷺنے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی، اسی لیے اس کو غزوہٴ خندق بھی کہتے ہیں۔
• غزوہٴ بنی المصطلق 6ھ میں ہوا ،اسی میں منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تھی۔
• صلحِ حدیبیہ 6ھ میں ہوئی، جب رسول اللہ ﷺنے عمرہ کا ارادہ فرمایاتھا اور آپﷺ چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ مکے کی جانب روانہ ہوئے تھے، مگر مشرکینِ مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا تھا، پھر حدیبیہ کے مقام پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں، اسی لئے اس صلح کو "صلح حدیبیہ" کہا جاتا ہے۔
• غزوہٴ خیبر 7ھ میں پیش آیا، یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا۔ اس سے قبل غزوہٴ بنو نضیر اور غزوہٴ بنوقریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔
• غزوہٴ تبوک 9ھ میں پیش آیا، یہ ہرقل سے مقابلہ تھا۔ اس میں دور کا سفر تھا، شام جانا تھا، گرمی کا موسم تھا،اس لئے خلافِ عادت آپ نے اس غزوہ کا اعلان فرمایا اورچندہ کی اپیل کی۔ صحابہ نے دل کھول کر چندہ دیا اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر آپﷺ تبوک روانہ ہوئے، مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ ﷺمع صحابہ کرام واپس بخیریت مدینہ تشریف لائے۔

کچھ اہم واقعات:
• 2ھ میں ہجرت کے بعد سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ ہوا۔
• 2ھ ہی میں روزے فرض کئے گئے۔
• 4ھ میں شراب حرام ہوئی۔
• 8ھ میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتحِ مکہ پیش آیا، جس سے کلی طور پر اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا اور مشرکین کا سارا زور ٹوٹ گیا۔ فتح مکہ کے بعد واپسی میں غزوہٴ حنین پیش آیا، جس میں پہلی بار مسلمان تعداد میں بارہ ہزار (12،000)اور کفارِ طائف چارہزار(4000) تھے، ورنہ ہر غزوہ میں مسلمان کم اور دشمن کی تعداد زیادہ ہواکرتی تھی۔

ازواجِ مطہرات:
حضور خاتم النبیینﷺ نے گیارہ (11) نکاح فرمائے۔ ان گیارہ خواتین کو حضور ﷺ کی ازواج ہونے کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی ماں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔آپ ﷺکے وصالِ ظاہری کے وقت آپ ﷺ کے نکاح میں کل نو ازواج مطہرات تھیں۔
1. حضرت خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے حضرت خدیجہ کی خواہش و پیغام پر نکاح کیا تھا، جب کہ آپ ﷺ کی عمر شریف 25سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی باعزت خاتون تھیں ۔حضور ﷺکی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے حضرت خدیجہ کے بطن سے ہی ہیں ، حضرت خدیجہ ہجرت سے قبل وفات پاگئیں تھیں۔
2. حضرت سودہ بن زمعہ رضی اللہ عنہا ان سے قبلِ ہجرت نکاح فرمایا۔
3. حضرت عائشہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہا ان سے بھی ہجرت سے قبل نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ایک ہجری میں ہوئی۔
4. حضرت حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا ان سے شعبان 3ھ میں نکاح فرمایا۔
5. حضرت زینب بن خزیمہ ان سے 3ھ میں نکاح فرمایا مگر دو یا تین ماہ کے بعد یہ وفات پاگئیں۔
6. حضرت ام سلمہ بن ابی امیہ ان سے شعبان 4ھ میں نکاح فرمایا۔
7. حضرت زینب بنت جحش ان سے 5ھ میں نکاح فرمایا یہ آنحضرت ﷺکی پھوپھی زاد بہن ہیں۔
8. حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان ان سے 6ھ میں نکاح فرمایا اور خلوت ۷ھ میں ہوئی۔
9. حضرت جویریہ بنت حارث ان سے 6ھ میں نکاح فرمایا۔
10. حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ ان سے 7 ھ میں نکاح فرمایا۔
11. حضرت صفیہ بنت حی بنت اخطب ان سے 7ھ میں نکاح فرمایا یہ یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔

حضور خاتم النبیین ﷺکی اولادا ور داماد:
حضور نبی ﷺکی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے ہیں ،سوائے حضرت ابراہیم کے، وہ حضرت ماریہ قبطیہ کے بطنِ پاک سے دنیا میں آئے ۔ حضرت ابراہیم کے علاوہ دو (2) صاحبزادے حضرت عبد اللہ اور حضرت قاسم بھی تھے، مگر تینوں صاحبزادوں کا وصال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ حضور نبی ﷺکی سب سے بڑی شہزادی حضرت زینب ہیں، جن کا نکاح حضرت ابوالعاص سے ہوا تھا ۔ دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ ہیں، جن کا نکاح امیر المؤمنین خلیفہ ثالث حضرت عثمانِ غنی سے ہوا تھا۔ تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ہیں، نبی کریم ﷺ نے حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد حضرت عثمانِ غنی سے حضرت ام کلثوم کا نکاح فرما دیا تھا۔ چوتھی اور سب سے محبوب صاحبزادی حضرت فاطمہ ہیں، جن کا نکاح امیر المؤمنین حضرت علی شیرِ خدا سے ہوا تھا۔

حضور خاتم النبیین ﷺ کے صاحبزادگان کے وصال کے بعد کفار نے طعنہ کشی کرنا شروع کردی کہ محمد ﷺ کی تو نسل ہی ختم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر میں ایسے لوگوں کو جواب دیا کہ آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نسل ہوگا اور حضور نبی ﷺ کا سلسلہ نسب آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے ذریعے بڑھایا۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الۡاَبۡتَر
ترجمہ: بے شک آپ کا دشمن ہی بےاولاد رہے گا (سورۃ الکوثر، آیت 3)
حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سے آج بھی سید گھرانہ شاد و آباد ہے۔

حضور خاتم النبیینﷺ کے چچا اور پھوپھیاں:
حضور خاتم النبیین ﷺ کے بارہ(12) چچا تھے:
1۔ حارث 2۔ ابوطالب 3۔ زبیر 4۔ امیرِ حمزہ 5۔ عباس 6۔ ابو لہب
7۔ غیداق 8۔ مقوم 9۔ ضرار 10۔ قثم 11۔ عبد الکعبہ 12۔ جحل

حضور خاتم النبیین ﷺ کی چھ (6) پھوپھیاں تھیں:
1۔ عاتکہ 2۔ امیمہ 3۔ امِ حکیم 4۔ برہ 5۔ صفیہ 6۔ اروی

حضور خاتم النبیین ﷺکے غلام اور باندیاں:
حضور ﷺکے پاس مختلف زمانوں میں کل ملاکر ستائیس(27) غلام تھے۔ آپ ﷺنے ان سب کو آزاد کردیا تھا۔ آپ ﷺ کے غلاموں کے نام: زید بن حارثہ، اسامہ بن زید، ثوبان، ابوکبشہ، انیسہ، شقران، رباح، یسار، ابورافع، ابومویہہ، فضالہ، رافع، مدعم، کرکرہ، زید جدہلال، عبید، طہمان، نابورقطبی، واقد، ہشام، ابوضمیر، ابوعسیب، ابوعبید، سقیہ، ابوہند، الحبشہ، ابوامامہ ہیں۔

باندیوں کی تعداد دس تھی ان سب کو بھی آپﷺ نے آزاد فرمادیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں:
سلمہ، ام رافع، رضویٰ، اُسیمہ، ام ضمیر، ماریہ قبطیہ، سیرین، ام ایمن میمونہ، خضرہ، خویلہ رضی اللہ عنہن۔

شاہانِ ممالک کے لیے نبی پاک ﷺکے سفراء:
حضور خاتم النبیین ﷺنے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کو دعوتی خطوط بھیجے تھے۔ ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کی دعوت دی تھی، جن حضراتِ صحابہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ سفیرِ رسول مقبول ﷺکی حیثیت سے سفر کریں۔ ان کے نام یہ ہیں:
• حضرت عمروبن امیہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا
• حضرت دحیہ کلبی کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا
• حضرت عبداللہ بن حذافہ کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا
• حضرت حاطب بن ابوبلتعہ کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا
• حضرت عمرو بن العاص کو شاہ عمان کے پاس بھیجا
• حضرت سلیط بن عمر کو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا
• حضرت شجاع بن وہب کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا
• حضرت مہاجربن امیہ کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا
• حضرت علاء بن حضرمی کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا
• حضرت ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو اہل یمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا

کاتبین وحی :
حضورخاتم النبیین ﷺ کی رسالت و نبوت کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ ایک امی لقب رسول نے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا، جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب حیران رہ گئے اور قیامت تک دنیا اس کی مثل کوئی کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپ ﷺکے قلبِ اطہر پر نازل ہوتیں، تو آپ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت عبداللہ بن ارقم، حضرت اُبی بن کعب، حضرت ثابت بن قیس ، حضرت خالد بن سعید، حضرت حنظلہ بن ربیع، حضرت زید بن ثابت، حضرت معاویہ بن ابی سفیان، حضرت شرجیل بن خسنہ سےکتابت کرواتے تھے۔

حرفِ آخر:
حضور خاتم النبیین نے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی فرمائی، آپ ﷺ بیٹے بھی ہیں ، شوہر بھی ہیں، باپ بھی ہیں، سسر بھی ہیں، داماد بھی ہیں، تاجر بھی ہیں، قائد بھی ہیں، سپہ سالار بھی ہیں، مہاجر بھی ہیں ، آپ ﷺ نے مشقتیں بھی جھیلیں، بھوک بھی برداشت کی۔ الغرض نبی کریم ﷺ نے ایک بشر کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کرکے دکھایا، جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپﷺ کو زندگی گزارنے کیلئے آئیڈیل بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، سسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرسکتا ہے۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی آیت نازل فرمائی:
اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ (سورۃ المائدہ، آیت 3)

حضور خاتم النبیین ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور جب دینِ اسلام کی تعلیمات پائے تکمیل تک پہنچ گئیں، تو ایک روزنبی کریم ﷺ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے گھر تشریف فرما تھے،نبی کریم ﷺ نے حضرت میمونہ سےارشاد فرمایا کہ "میری ازواج کو جمع کرو" تمام ازواج ِمطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں علالت کے ایام عائشہ کے حجرے میں گزار لوں؟ "امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کو اجازت ہے۔ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے مبارک میں تشریف لے گئے اور کم و بیش تین دن بعد ہجرت کے گیارہویں سال 12 ربیع الاول بروزپیر کو63 سال کی عمر میں حضور ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمالیا اور مدینے میں حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے مبارک ہی میں آپ ﷺ کا روضہ مبارک بنایا گیا۔

 

Muhammad Shoaib Ikram
About the Author: Muhammad Shoaib Ikram Read More Articles by Muhammad Shoaib Ikram: 25 Articles with 55107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.