گیارھویں جماعت کی نئی درسی کتاب ”گلزارِ اُردو“ چند گزارشات

اس مختصر تحریر کا مقصد متعلقہ حلقوں کو صرف یہ بات ذہن نشین کرانا ہے کہ درسی کتاب ترتیب دینا کوئی سرسری قسم کا کام نہیں ہوتا اور نہ اسے ہونا چاہیے۔اس میں تو پروف کی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہوتی (جو کہ کتاب میں کئی مقامات پر موجود ہے) کجا یہ کہ متن کی،حوالے کی اورعنوان کی متعدد غلطیاں ہوں۔تجویز ہے کہ کتاب میں اغلاط کی دُرستی کے بعد اس کتاب کو موجودہ تعلیمی سال کے بجائے آئندہ تعلیمی سال میں شامل کیا جائے۔

حال ہی میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے تیس سال کے بعد نئے نصاب پر مشتمل گیارھویں جماعت کی اردو کی نئی کتاب شائع کی ہے۔یہ کتاب پُرانے عنوان یعنی ”گلزارِ اردو“ ہی کے نام سے اگست ۲۰۲۱ء میں بازار میں پیش کی گئی ہے۔اشاعت اول کی تعداد۸۰۰۰ ہزارہے، جسے آزمائشی اشاعت کہا گیا ہے مگر اب ایک نوٹی فیکشن کے مطابق اسے گیارھویں جماعت کے نصاب میں شامل کرلیا گیا ہے۔
اس کتاب کو باریک بینی سے دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ کتاب میں پیش کیے گئے شعری اور نثری مواد کو دقت نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔اسی لیے کتاب میں متنوع اقسام کی متعدداغلاط راہ پا گئی ہیں۔چند تسامحات کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
٭”قومی اتفاق“ کے عنوان سے سرسید احمد خان کے اس سبق کے آخرمیں حوالے کے طور پرماخوذ مقالات سرسید درج ہے۔ کہیں بھی مقالات سرسید کی جلد کاحوالہ موجود نہیں۔ جب کہ یہ سبق مقالاتِ سرسید جلدپنجم میں ہے۔
٭”فاقے کا روزہ“۔خواجہ حسن نظامی کا مضمون ہے۔ مگر اصل میں مضمون کا عنوان ”فاقہ میں روزہ“ ہے۔ یہ سبق ”بیگمات کے آنسو“ سے ماخوذ ہے۔ اُس میں بھی ”فاقہ میں روزہ“ ہی لکھا گیاہے۔ ”نظام المشایخ“ جلد۳، نمبر۳، ستمبر۱۹۱۰ء میں بھی یہ مضمون ”فاقہ میں روزہ“ ہی کے نام سے شائع ہوا۔ نجانے کیوں اس کا عنوان تبدیل کردیا گیا ہے۔تعارف میں کتاب ”دہلی کی آخری شمع“مرزا فرحت اللہ بیگ کی ہے۔ جسے خواجہ حسن نظامی کا سمجھ کر اُن کی کتابوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔
٭”تخلیقِ کائنات“ از،آفتاب حسن۔ کتاب میں مضمون کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ مضمون دراصل ”زمین کے خزانے“ کے عنوان سے ہے جس کا ذیلی عنوان ’پٹرولیم کی کہانی‘ہے۔ یہ مضمون انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی کی کتاب ”جدید معلومات سائنس“سے لیا گیا ہے، جو ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئی تھی۔یہ سائنسی مضمون۷۶ سال بعد۰۲۱ ۲ء کے نصاب میں شامل کیا جارہا ہے۔ پُرانی معلومات پر مبنی اس طرح کا مضمون شامل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اگلے بیس پچیس برسوں میں دنیا میں کہیں بھی پٹرول یا ڈیزل کی گاڑیاں فروخت نہیں ہوں گی اور آئندہ نقل وحمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہوجائے گا۔یہ برقی گاڑیاں، پیٹرول سے چلنے والے گاڑیوں کے مقابلے میں شان دار کارکردگی کی حامل ہوں گی۔نصاب میں شامل یہ مضمون کیا آج کے بچے کے لیے جدیدسائنسی معلومات فراہم کررہا ہے۔کیوں کہ سائنسی ایجادات کا سلسلہ تو دنوں میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔پھر اتنے قدیم مضمون کو شامل کرنے کا مقصد کیا ہے۔ جب کہ روز ہی اس بات پرتمام حلقوں کی طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو جدید سائنسی معلومات سے روشناس کرانا چاہیے۔
٭”کچھ ذریعہ تعلیم کے باب میں“پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے اس سبق کے آخرمیں بھی حوالہ موجود نہیں ہے کہ یہ مضمون کہاں سے لیاگیا ہے۔
٭”ملکہ بلقیس کا محل“قمرعلی عباسی کایہ سفرنامہ ”عمان کے مہمان“ سے ماخوذ ہے، مگر اس سفرنامے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ صرف ملکہ سبا کا قصہ درج کیا گیا ہے۔ اس سفرنامے میں عمان کے معروف مقامات، وہاں کی تہذیب و ثقافت،وہاں کی گلیوں اور شاہراہوں، لوگوں اور ان کے رویوں اور دیگر لوازمات کا، جو سفرنامہ نگار بیان کرتے ہیں، کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف ایک قصہ ہے۔اسے کسی بھی طرح سفرنامے کے ذیل میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔یہ سبق پڑھ کر بچے کے دماغ میں کہیں بھی سیاحت سے دلچسپی کا تاثر نہیں اُبھرے گا۔
٭”خط مشفق خواجہ بہ نام صدیق جاوید“مشفق خواجہ کے تعارف میں ایک کتاب کا نام ”غالب اور صغیربلگرامی“ لکھا گیا ہے جب کہ اصل میں کتاب کا نام ”غالب اور صفیربلگرامی“ ہے۔ اسی طرح بہاول پور کے ایک دوست کا ذکر ہے جن کا نام سیداحمد درج ہے جب کہ اُن کانام سید سعید احمد تھا۔
٭معروضی سوالات میں ایک سوال ہے ”لائبریری میں مخطوطات موجود تھے“اس کے ممکنہ جواب میں (الف)پانچ لاکھ (ب)چھے لاکھ(ج) سات لاکھ(د)آٹھ لاکھ درج ہے۔ جب کہ سبق میں مخطوطات کی تعداد صرف پانچ ہزار سے زیادہ لکھی ہے۔
٭اقبال عظیم کے تعارف میں اُن کی تصنیف ”مشرقی بنگال میں اردو“ کو ”مشرقی پنجاب میں اردو“ کردیا گیا ہے۔
٭ کتاب میں رئیس امروہوی کے تعارف میں ایک کتاب کا نام ”حکایت“ درج کیا گیا ہے۔ جب کہ اس کتاب کا نام رئیس امروہوی نے مولانا روم کی مثنوی کے پہلے شعر سے متاثر ہوکر ”حکایتِ نے“ لکھا ہے۔
حوالے کے طور پر رئیس امروہوی(احوال و آثار)، ڈاکٹرسیدقاسم جلال، مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی،۸ ۲۰۰ ء ، ص۸۳ ملاحظہ فرمائیے۔
٭افتخار عارف کے تعارف میں ایک کتاب کا نام”جہانِ علوم“ درج ہے۔ جب کہ اس کتاب کا نام ”جہانِ معلوم“ ہے۔
٭پروین شاکر کی تاریخ پیدائش افتخار عارف صاحب والی یعنی۱۹۴۴، اورشہرلکھنودرج کردیا گیا ہے۔جب کہ پروین شاکر کی تاریخ پیدائش ۲۴نومبر۱۹۵۲ء اور شہرکراچی ہے۔ اسی طرح سے پروین شاکرکی نظم ”مشورہ“ (ماخوذ از: سخن سرا)درج ہے۔ پروین شاکر کی سخن سرا کے نام سے کوئی کتاب نہیں ہے۔ مرتبین نے اصل ماخذ کے بجائے ایک ویب سائٹ سخن سرا سے اس نظم کو لیا ہے۔پروین شاکر کی کلیات ”ماہِ تمام“ تو تقریباً ہر کتاب فروش کے پاس موجود ہے تو پھر اصل ماخذ سے کیوں استفادہ نہیں کیا گیا۔
٭خواجہ میر درد کی غزل ۲ کے دو مصرعے کتاب کے مطابق ملاحظہ ہوں: ”غافل! خدا کی یاد پہ مت پُھول زِینہار“ ہے جب کہ دیوان کے مصرعہ میں ”بھول“لکھا ہے۔ اسی طرح کتاب میں ”گوبحث کرکے بات بنائی تو کیا حصول“ درج ہے۔جب کہ دیوان کے مطابق ”گو بحث کرکے بات بٹھائی تو کیا حصول“ ہے۔
بحوالہ دیوان خواجہ میردرد، مرتبہ: ڈاکٹر ظہیراحمد صدیقی، مکتبہ شاہراہ، اردوبازار، دہلی، بارسوم، ۱۹۷۱ء
٭میرتقی میر۔ پیدائش آگرہ ۱۷۲۳ء درج ہے۔ وفات ستمبر۱۷۱۰ء لکھی ہے۔۱۸۱۰ء کو ۱۷۱۰ء لکھ دیا گیا ہے۔
اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ بالا سطور میں صرف چند اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تمام تسامحات کا احاطہ کرناایک طویل مضمون کا متقاضی ہے۔اس مختصر تحریر کا مقصد متعلقہ حلقوں کو صرف یہ بات ذہن نشین کرانا ہے کہ درسی کتاب ترتیب دینا کوئی سرسری قسم کا کام نہیں ہوتا اور نہ اسے ہونا چاہیے۔اس میں تو پروف کی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہوتی (جو کہ کتاب میں کئی مقامات پر موجود ہے) کجا یہ کہ متن کی،حوالے کی اورعنوان کی متعدد غلطیاں ہوں۔تجویز ہے کہ کتاب میں اغلاط کی دُرستی کے بعد اس کتاب کو موجودہ تعلیمی سال کے بجائے آئندہ تعلیمی سال میں شامل کیا جائے۔




 

Muhammad Sabir
About the Author: Muhammad Sabir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.