ڈاکٹر ہوں ڈاکٹر نہیں

تحریر۔۔۔ڈاکٹر فیاض احمد
ہمارے معاشرے کی ایک درد ناک حقیقت ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی پلاننگ شروع کر دیتے ہیں ہم معصوم بچوں کے ذہن کو شروع سے ہی اپنی خواہشات کا قیدی بنا لیتے ہیں حالانکہ ہمیں ان کی ذہنی صلاحیتوں کو جاننا چاہیے اگر بے سود ہم تو بس کاروبار کے حساب کتاب سے سوچنے لگ جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ننھی کالیوں کو بھی اس کاروبار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ڈاکٹر کتنا مقدس پیشہ ہے مگر دور جدید میں ایک زبردست کاروبار ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نسل پیدا نہیں کر تے بلکہ کاروبار کو بڑھانے کے ذرائع پیدا کرتے ہیں آجکل دنیا کی ترقی کی بنیاد ہی اس کی نسل کی ذہنی ہم آہنگی ہے وہ لوگ اپنے بچوں کو کاروباری ذرائع نہیں بلکہ ایک انسان پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے بچوں ان کے ذہنی توجہ کی طرف مرکوز کرتے ہیں جس کی بدولت وہ ایک اچھے اور سچے انسان کی شکل میں پروان چڑھتے ہیں ان میں لالچ نہیں انسانیت ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں تو اکثر وبیشتر کاروبار ہوتا ہے ہم ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں جو ہماری سوچ اور ضمیر سے بلا تر ہوتے ہیں کیونکہ ہم انسان نہیں ایک کاروبار پیدا کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں انسان کی عزت نہیں بلکہ اس کے رتبے کی حیثیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے کاروباری لوگ اپنے چراغوں کو ڈاکٹری کے شعبے سے منسلک کرکے فخر محسوس کرتے ہیں کچھ لوگ معلم کو قابل احترام سمجھتے ہیں آجکل کے ڈاکٹر تو بس نام کے ڈاکٹر ہیں ایک زمانہ تھا جب حکماء اتنے قابل ہوتے تھے کہ انسان کے چہرے کی کیفیت کا اندازہ لگا کر اس کی بیماری کی ابتدا ء اور انتہاء تک رسائی حاصل کر لیتے تھے مگر آجکل کے ڈاکٹر رپورٹوں اور ٹسٹوں کا سہارا لینے کے باوجود مریضوں سے کاروبار شروع کر لیتے ہیں

ہمارے معاشرے میں لوگ زیادہ کمانے والے کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اس کی مثال ایک ڈسپنسر اور ایک ڈاکٹر کی ہے ڈسپنسر ڈاکٹر کی نسبت زیادہ کماتے ہیں جس کی بدولت لوگ ڈسپنسر کو ڈاکٹر کی نسبت زیادہ پڑھا لکھا سمجھتے ہیں ناقص نظام تعلیم کی وجہ سے تعلقات کی بناء پر ڈگری اور پوزیشن ملتی ہے دنیا میں تعلیم کی قدر تو نہ ہونے کے برابر ہوتی جا رہی ہے ہم اپنی حیثیت اور لوگوں کو نیچا دیکھانے کے لئے زیادہ فیسوں والے سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اس کے معیار تعلیم کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کرام بھی اس میں برابر کے شریک ہیں نوکری تو سرکاری سکولوں میں کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کو نیم سرکاری ادارے میں پڑھاتے ہیں اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ہی پڑھائی پے یقین نہیں ہمارے معاشرے میں جہالت تو اس قدر ہے کہ لوگ کم پڑھے لکھے کو زیادہ پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ ہم میں اس معیار کا تعین کرنے کا معیار ہی نہیں ہے اسی طرح آجکل لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی جستجو میں ہر طریقہ اپناتے ہیں ڈاکٹر بننے کے بعد ڈاکٹر بھی خود کو خدا سمجھتا ہے اور انسانوں کے ساتھ ایک قصائی والا سلوک کرتا ہے جبکہ اسی معاشرے میں ایک PhD ڈاکٹر جو کم از کم بیس پچیس سال تعلیم حاصل کرتا ہے اور لوگوں کے لئے ایک نئی چیز ایجاد کرتا ہے مگر معاشرے میں اس کو MBBS ڈاکٹر سے کم سمجھا جاتا ہے یعنی وہ ڈاکٹر ہے اور معاشرے کے لحاظ سے وہ ڈاکٹر نہیں معیار تعلیم کا یہ شعور آپ خود دیکھ لیں دوائی والے ڈاکٹر کی عزت اور ایک سائنس دان والا ڈاکٹر صرف نام کا ڈاکٹر۔۔۔۔کیونکہ سائنس دان ایک کلینک تو دور کی بات ایک میڈیکل سٹور یا لیبارٹری بھی بنانے کا مجاز نہیں تعلیم کی یہ تقسیم تو بہت نرالی ہے ۔۔۔ایک آنکھوں دیکھا ماجرہ۔۔۔ایک PhD ڈاکٹر کو لوگ کہہ رہے تھے آپ ڈاکٹر نہیں تو نہیں ہیں کیونکہ آپ دوائی دینے کی اختیارات سے آزاد ہیں میں یہ سن کر بہت آبدیدہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کوئی قدروقیمت نہیں بلکہ حیثیت دیکھی جاتی ہے یعنی ہمارا معیار تعلیم اتنا کم ہے کہ ہم انسان کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں خدا کے بندوں سنو خدا کے لئے۔۔۔۔ڈاکٹری شعبہ کو کاروبار بنانے سے پرہیز کریں لوگوں کا نجات دہندہ بنیں انسانیت کا جذبہ ہو لوگوں کا خدا بننے کے بجائے لوگوں کا مددگار بنیں تب زندگی میں اصل زندگی نظر آئی گی میری معاشرے سے التجائے نگارش ہے کہ معیار تعلیم اور تقسیم تعلیم کی درجہ بندی کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کے حقوق کی پاسداری کی جائے اور۔۔میں ڈاکٹر ہوں میں ڈاکٹر نہیں ہوں جیسے ناسوروں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اگر یہی عمل جاری رہا تو معاشرے میں صرف دوائی والے ڈاکٹر ہی پیدا ہوں گے تب ہمیں ڈاکٹرعبدالسلام اورڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنس دان نہیں پیدا ہوں گے بلکہ کاروباری ڈاکٹر ہی منظر عام ہوں گے تب ملک کا دفاع دوائیوں سے کیا جائے گا کیونکہ ہم سائنسی ایجادات سے محروم ہوں گے آجکل کے دور میں دنیا کے نقشے پر نام رکھنے کے لئے سائنسی میدان میں بھی نام ہونا ضروری ہے ۔۔ذرا سوچئے

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 476087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.