اشرفیہ اور عوام

 از جناب سعید آسی

"اشرافیہ اور عوام "یہ منتخب کالموں پر مشتمل ایک کتاب کا نام ہے جس کے مصنف پاکستان کے ممتاز کالم نگار،اداریہ نویس اور دور حاضر کے بہترین شاعر جناب سعید آسی ہیں ۔کتابیں تو بیشمار چھپتی ہیں اور مارکیٹ میں بکتی بھی ہیں لیکن جناب سعید آسی کی جتنی کتابیں بھی میری نظر سے گزری ہیں ،وہ تاریخ کا اہم حوالہ بن کے ہمیشہ ذہنو ں میں محفوظ ہو جاتی ہیں ۔یہی عالم ان کی شاعری کا ہے ۔ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔رزق ہلال کماکر اپنی اولاد کی پرورش کرنے والے چودھری محمد اکرم کے ہاں 24 اگست 1954ء کو پیدا ہونے والے فرزند کا نام انہوں سعید احمد رکھا ،بعد میں ادبی اور صحافتی حلقوں میں یہ نام سعید آسی میں تبدیل ہوتا چلاگیا ۔آج سعید احمد کو شاید ہی کوئی جانتا ہو لیکن سعید آسی کوادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے ۔انہوں نے 1969ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول اور ایف اے کا امتحان گورنمنٹ فریدیہ کالج سے پاس کیا۔ گرایجویشن کی ڈگری گورنمنٹ کالج ساہیوال سے حاصل کی۔1977ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرکے صحافتی میدان میں قدم رکھا اور اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ وفاق لاہور سے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا۔کچھ عرصہ پاکپتن میں وکالت بھی کی ،لیکن طبیعت کے میلان نے انہیں ایک بار پھر صحافت کی جانب راغب کردیا اور وہ ایک بار پھر لاہور تشریف لے آئے ۔روزنامہ وفاق،آزاد ،صداقت اور روزنامہ جنگ کو بطور سب ایڈیٹرجوائن کیا لیکن چند ہفتوں بعد ہی آپ نوائے وقت چلے آئے۔نوائے وقت میں نیوز سیکشن ، میگزین میں مختلف ایڈیشنوں کے انچارج رہے۔پھر قسمت آپ کو شعبہ رپورٹنگ میں لے آئی، 2006ء سے آپ نوائے وقت ادارتی صفحے کا حصہ بن گئے ، اسسٹنٹ ایڈیٹر سے گروپ ڈپٹی ایڈیٹراور سینئرایڈیٹرتک کی ذمہ داریاں آپ نبھاتے چلے آرہے ہیں ۔

آپ کی تازہ ترین کتاب "اشرافیہ اور عوام "ہے -اس کتاب کے بارے میں پاکستان کے ممتاز صحافی اور دانشور مجیب الرحمان شامی لکھتے ہیں کہ سعید آسی سو فیصد دیانتدار صحافی ہیں جنہوں نے متانت او روقار کے ساتھ زندگی گزاری اور مجید نظامی کی مسند پر بیٹھنے کا حق ادا کردیا ۔مجھے فخر ہے کہ ہم اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سعید آسی بھی شامل ہیں ۔سعید آسی نے اپنے کالموں میں ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو۔حرف اول میں جناب سعید آسی لکھتے ہیں کہ مجھے اکثر یہ سوچ الجھائے رکھتی ہے کہ خالق کائنات ،رب کعبہ کی منشا اپنے بندوں میں کسی قسم کی تفریق یا امتیاز پیدا کرنے کی تو ہرگز نہیں ہو سکتی ۔مگر انسانوں میں امیری اور غریبی کا امتیاز پیدا کرنا انسانوں کی اپنی ذہنی اختراع یا فتور ہوسکتا ہے۔جس رب کعبہ نے ہوا، پانی اور دوسرے قدرتی وسائل پر ہر ذی روح کو مساوی دسترس دے رکھی ہو جس کا چھین لیا جانا کروفر میں پڑے اور کبریائی کی متعفن سوچ میں ڈوبے انسانوں سمیت ہر ذی روح کی ایک ہی لمحے میں یکایک موت کا باعث بنے گا اور وہی روز قیامت ہوگا۔ تو رب کعبہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو وسائل سے مالا مال کرنے اور کسی کے لیے وسائل سے محرومی کا کیونکر روادار ہوسکتا ہے ۔یہ سب انسانی ذہن کی شیطانیت ہے جو قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے انسانوں میں برتری کا خناس پیدا کرتی ہے ۔اس لیے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہوں تو انسانوں کے مابین روا رکھے جانے والے امتیاز کو میرا دل حکم خداوندی کے کھاتے میں ڈالنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا۔
......................
432صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جناب سعید آسی کے 128کالم شامل ہیں ۔ان کا ہر کالم ہی اس قدر تحقیق اور حقائق پر مشتمل ہے کہ میں سمجھ نہیں پارہا کہ کس کالم کو اپنے تبصرے کا حصہ بناؤں او رکس کو چھوڑوں ۔اس کتاب میں شامل ہر کالم اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ جو بلاشبہ قارئین کے لیے ایک انکشاف کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسی کتاب میں ایک جگہ جناب سعید آسی نے بہت خوبصورت بات لکھی ہے کہ دنیا بھر کی مستند سائنسی ، تحقیقاتی لیبارٹریوں میں کئی مہینوں کی ریسرچ کے نتیجہ میں مختلف ویکسینز منظر عام پر آئیں اور جھٹ پٹ ان کا استعمال بھی شروع ہوگیا ۔پھر موثر اور مضر صحت ویکسین کی مختلف تھیوریاں سامنے آئیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلیے بعض ویکسینزکے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔میں خود ایسٹرازینیکا ویکسین لگوانے کے بعد اس کے خلاف جاری پروپیگنڈے سے متاثر ہوا اور کچھ عرصے تک نڈھال رہا ۔تاہم آہستہ آہستہ تمام شکوک وشبہات زائل ہوتے گئے۔اس موذی مرض کا علاج ویکسین ہی ہے تو اس سے اجتناب کیوں؟ مگر ہمارے کئی ذمہ داران نے ویکسین لگوانے کے معاملے شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں ۔پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ( جو خود ڈاکٹر بھی ہیں) نے باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کرکے ویکسین کے ممکنہ مضمرات سے لوگوں کو خوفزدہ کیا اور اعلان کیا کہ میں ہرگز ویکسین نہیں لگواؤں گی ۔اسی طرح ڈائریکٹر جنرل صحت میجر جنرل عامر اکرام نے ایک سمینارسے خطاب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ
پاکستانی باشندوں کو کین سائنوویکسین اس کے مضمرات کا کھوج لگانے کے لیے بطور ٹرائل لگائی گئی جس سے پاکستان نے یہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنی سے ایک کروڑ ڈالر کمائے ہیں ۔ان کے بقول کئی اور ممالک بھی اپنی ویکسین کے فیز تھری کا کلینکل ٹرائل پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں۔جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہوگی ۔یقینا اس مقصد کے تحت ہی ہر فرد کے لیے ویکسین لگوانا لازمی قرار دیا گیا ہے چنانچہ پاکستان اور پاکستانیوں کو محض کمیشن کی خاطر ویکسین کے مضمرات جانچنے کی تجربہ گا بنا دیا گیا ہے۔

جناب سعید آسی " ستمبر65کا جذبہ اور آج کے حقائق "کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں -: ستمبر 1965ء کی جنگ کے وقت میری عمر محض گیارہ برس تھی اور پرائمری کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن میں چھٹی کلاس میں داخل ہوچکا تھا ۔پاکپتن کا ماحول اس وقت بالکل دیہات والا تھا ۔اس وقت تک ہمیں بجلی کی سہولت بھی دستیاب نہ تھی ،اس لیے گھروں میں قمقموں اور پنکھوں کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ ٹی وی ،فریج جیسی الیکٹرک اشیاء تو بہت دور کی بات تھی ۔ گھروں میں مٹی کے دیئے اور لالٹین سے روشنی کی جاتی تھی جبکہ گلیوں اور بازاروں میں کمیٹی والے کھمبوں پر مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی لالٹین شام کو روشن کردیا کرتے تھے ۔زیادہ تر گھر مٹی ،گارے کے بنے ہوئے تھے اور زیادہ باوسیلہ لوگ ہی پختہ اینٹوں کے گھر بنایا کرتے تھے۔اس ماحول میں میں رات کو دیر تک جاگنے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ محلہ پیرکریاں میں ہمارا گھر بھی چار پانچ مرلے پر مٹی گارے کابنا ہوا تھا جس میں پانی کی سہولت ہینڈ پمپ (نلکے) سے حاصل کی جاتی تھی۔گھر کے صحن میں بھینس باندھی جاتی اور گرمیوں میں چار پائیاں بھی اسی صحن میں بھینس کے اردگرد ڈالی جاتیں ۔والد صاحب چودھری محمد اکرم ۔ (گولڈمیڈلسٹ کارکن تحریک پاکستان) مسلم لیگی کارکن ہونے کے ناطے محلے اور شہر کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی شریک رہتے ، اس طرح ہمارے گھر کی بیٹھک ایک دوسرے کے ساتھ ملکی حالات کو شیئر کرنے کا ذریعہ بنتی ،جہاں ریوالونگ حقے کی لے باری باری ہر شریک محفل کے منہ کا رخ کرتی اور پھر منہ سے دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے ایک دوسرے کے سیاسی نظریات ملکی حالات کی مناسبت سے سامنے آتے۔ اس وقت پاک بھارت سرحدی کشیدگی عروج پر تھی چنانچہ ہماری بیٹھک میں ہونے والی نشستوں کا موضوع بھی پاکستان بھارت کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کاتھا ۔پورے محلے میں صرف ہمارے گھر میں سیلوں سے چلنے والا ایک ٹرانسسٹرریڈیو تھا جس پر تازہ ترین خبروں کا بلیٹن سننے کے لیے محلے لوگ جمع رہتے ۔انہی خبروں کے ذریعے 6ستمبر کو اطلاع ملی کہ دشمن کی فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے۔کمیٹی والوں نے خطرے کے وقت بلیک آوٹ کرنے اور سائرن بجانے کا اہتمام کیا اور لوگوں کو اپنے گھروں میں خندقیں کھودنے کی ہدایت کی ،چنانچہ والد صاحب نے ہمیں ساتھ لے کر گھر کے صحن میں چھ فٹ گہری اور اتنی ہی لمبی خندق کھوددی ،جیسے ہی سائرن بجتا ہم سب گھر والے اس خندق میں چلے جاتے اور خطرہ ٹلنے پر باہر نکل آتے مگر یہ پریکٹس چند گھنٹوں تک ہی برقرار رہ سکی ۔ستمبر ہی کی رات جب سائرن بجنا شروع ہوئے تو بلیک آؤٹ ہونے کے باوجودمحلے کے سب بچے ، بوڑھے ،جوان ، خندقوں میں جانے کے بجائے گھروں کی چھتوں پر یا کھلے میدان میں آجاتے تاکہ حملہ کے لیے آنے والے بھارتی جہازوں کا مشاہد ہ کرسکیں ۔ہمارے علاقے میں یہ جہاز ہیڈ سلیمانکی کی طرف سے آیا کرتے تھے اور اکثر جہاز ہماری فضائیہ کے ہتھے چڑھ کر زمین بوس ہو جاتے ۔اسی طرح اپنے علاقے میں دوچار بھارتی طیارے گرنے کا نظارہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ان تباہ شدہ جہازوں کا ملبہ ریلوے سٹیشن کے باہر گراؤنڈمیں چبوترہ بناکر سجا دیا گیا ۔جنگ کے دوران ہی لوگ جوق در جوق یہ ملبہ دیکھنے کے لیے آتے رہے۔اس وقت ریڈیو پاکستان اور یڈیو آزاد کشمیر پر قومی ترانوں کے ذریعے عوام کے دل گرمائے جاتے تھے اور ان میں پاکستان کے ساتھ محبت اور اس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کا جذبہ اجاگر کیا جاتا۔ جنرل محمد ایوب خاں نے "ٹیڈی پیسہ دو ٹینک"کے نام سے فنڈ قائم کیا تو اس فنڈ کے لیے مختلف مقامات پر رکھے گئے گلے پلک چھبکتے میں بھرنے لگے ۔قوم کا بچہ بچہ اپنی جری و بہادر سپاہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ،پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا نظر آتا۔یہ جذبہ ایسا تھا کہ لوگ غلیلوں سے پرندوں کی طرح بھارتی جہازوں کا شکار کرنے کی لگن سے سرشار نظر آنے لگے۔ایسے جذبے والی قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے۔
........................
حسن اتفاق سے میری( محمد اسلم لودھی ) عمر بھی اس وقت جناب سعید آسی جتنی ہی تھی ،جبکہ میرے والدین لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں رہائش پذیر تھے ، جو منظر کشی جناب سعید آسی نے پاکپتن کے حوالے سے کی ہے وہی جذبہ لاہور کے زندہ دلان میں بھی پایا جاتا تھا ۔جب پاک بھارت سرحد پر توپیں گولہ باری کرتیں تو ہمارے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے دھمک سے ہلنے لگتے ، بھارتی فضائیہ اور پاک فضائیہ کے درمیان جتنے معرکے لاہور کی فضا میں دیکھے گئے ،شاید ہی کہیں اور دیکھنے میں آئے ہوں ۔ چند دن تو ہم لاہور میں ہی قیام پذیررہے ،جنگ کو طول پکڑتے دیکھ کر والد صاحب نے ہمیں عارف والہ جانے والی ٹرین پر بٹھا دیا جہاں میری نانی نانا اور ماموں رہتے تھے چونکہ عارف والہ لاہور کی نسبت محفوظ مقام تصور کیا جاتا تھا ۔ جبکہ والد صاحب خود لاہور کینٹ میں ہی ٹھہرے رہے۔جہاں سے فوجیوں اور اسلحے سے بھری ٹرینیں قصور اور گنڈا سنگھ بارڈر کی طرف مسلسل جا رہی تھیں ۔ہماری ٹرین جب کنگن پور پہنچی تو مشرق کی جانب سے دو سیاہ رنگ کے بھارتی جہاز نمودار ہوئے اور وہ انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹرین کے اوپر سے گزر ے ۔ جنگی جہازوں کی خوفناک آواز نے ٹرین کے مسافروں کو خوفزدہ کردیا ،والدہ نے موقع کی مناسبت سے ہمیں بینچوں کے نیچے لیٹا دیا اور خود کھڑکی میں بیٹھ کر بلند آواز میں آیت الکرسی کی تلاوت کرکے بھارتی جہازوں کی طرف پھونکیں مارنے لگیں ۔ابھی بھارتی جنگی جہاز دوسرا چکرلگا نے کے لیے ٹرین کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ سرگودھا سے پاک فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ بھارتی طیاروں کے تعاقب میں آپہنچا جسے دیکھ کر مسافروں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔اب مقابلہ ہمارے ایک طیارے اور دو بھارتی طیاروں کے مابین تھا، جب بھی پاک فضائیہ کا طیارہ بھارتی طیاروں پر فائر کرنے لگتا تو وہ ٹرین پر نچلی پرواز کرنے لگتے ۔فضا میں اڑنے والے طیاروں کی یہ دوبدو جنگ کنگن پور سے شروع ہوکر پاکپتن سے ہوتی ہوئی عارف والا تک جا پہنچی ۔ ہم تو عارف والا میں ٹرین سے اتر گئے لیکن اس کے اگلے اسٹیشن محمد نگر پاک فضائیہ کے طیارے نے ایک بھارتی طیارے کو مارگرایا اور دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے سرحد سے پہلے اسے بھی تباہ کردیا ۔ان تباہ شدہ بھارتی طیاروں کے سکھ پائلٹوں کو گرفتا ر کرکے عارف والا لایا گیا ۔بہرحال یہ کہانی خاصی طویل ہے لیکن اختصار کی خاطر اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔بتانے کا یہ مقصد تھا کہ پاکپتن میں جناب سعید آسی بھارتی طیاروں کے خلاف نبردآزما تھے اور عارف والا میں ،میں نے مکمل ہوش و حواس کے ساتھ جنگی طیاروں کی دو بدو لڑائیاں دیکھیں ۔اس وقت میری عمر بھی گیارہ سال ہوگی ۔

بہرکیف قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ کے زیرانتظام شائع ہونے والی یہ کتاب،( جس کی قیمت 1500/-روپے ہے) حقیقی معنوں میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ جس دور کے کالم اس کتاب میں موجود ہیں ،وہ بھی تاریخ کا اہم حوالہ بنتے ہیں کیونکہ جناب سعید آسی کا شمار معاشرے کے ایسے معتبر افراد میں ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی بلکہ لاکھوں کروڑوں افراد کی ترجمانی کا حق اپنی تحریروں سے ادا کررہے ہیں ۔اﷲ انہیں صحت و ایمان والی لمبی عمر عطا فرمائے۔آمین

کتاب منگوانے کے لیے موبائل نمبر 0300-0515101/0323-4393422 اور ای میل ایڈریس [email protected] پر ربطہ کیا سکتا ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کتاب میں شامل کالم تاریخ کا بہت بڑا حوالہ بنتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے سرمایہ حیات کا درجہ رکھتے ہیں ۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 671620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.