جہدِ مسلسل کی حسین داستان

میں آپ کے سامنے اُس باغبان کا ذکر کرنے جارہا ہوں جو آج سے 46 سال پہلے بنجر زمین میں بیٹھ کر لکیریں کھینچا کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ میری اِس زمین میں اگنے والا پھل تروتازہ ہوگا اس میں کھلنے والے پھول سرسبزو شاداب ہوں گے لیکن لوگ اس بنجر زمین کو دیکھ کر اُس کو کہتے ارے پاگل ہو! یہ زمین کیسے پھل دے گی یہاں تو گھاس بھی اُگنے سے رہا اور تم یہاں ایک گلستان آباد کرنے کا سوچ رہے ہو اور تو اور وہ گلستان جو سرسبز و شاداب بھی ہو لوگ اِس کے پھل سے مستفید بھی ہوں یہ ایک ایسا گمان ہے جس کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا اِس خواب کی تعبیرنا ممکن ہے لیکن اُس شخص کی نظریں اپنے روشن مستقبل کو دیکھ رہی تھیں اُس کو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پھولوں (بیٹوں) اور کلیوں (بیٹیوں) کا روشن مستقبل نظر آ رہا تھا وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے اتنا محو تھا، عزمِ مصمم اس قدر بامِ عروج پہ تھا تھا کہ اپنی منزل کے راستے میں آنے والی دشواریوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تدبیر کرنے پر بھی وقت کا ضیا نہیں کیا بلکہ ہر مشکل و پریشانی کو اللّٰہ کے سپرد کیا اور بس اس بنجر زمین کو آباد کرنے کی جستجواور آس لیے چل پڑا کہ ایک ایسا گلستان آباد کرنا ہے جس کا پھل پوری دنیا کھا سکے جس میں کھلنے والے پھولوں کی مہک پوری دنیا کو معطر کر سکے۔ بس اسی خیال میں اس نے تنِ تنہا اس سفر کا آغاز کیا اسکی شب و روز کی محنت اور نالہ ہائے نیم شبی کا ثمر ظاہر ہونے لگا پھر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ آہستہ آہستہ کارواں بننے لگا لوگ اس کارواں میں شامل ہونے لگے کیونکہ اس نے محنت اور جہد ِمسلسل سے یہ ثابت کیا کہ جو لکیریں میں زمین پر کھینچتا ہوں اور جو خواب میں نے دیکھے ہیں ان کی تعبیر نا ممکن نہیں میں اپنے خوابوں کے گلستاں کو آباد کر کے اس میں اتنی وسعت پیدا کر دوں گا کہ زمین کے ذرے ذرے سے فیض حاصل ہو گا۔
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ چلتے گئے کارواں بنتا گیا

اس باغبان نے یہ سوچ رکھا تھا کہ لوگوں کو اس خواب کی ایسی تعبیر پیش کرنی ہے جس میں علم و آگہی کے چشمے جاری ہوں، حکمت کے موتیوں سے اس کے ستون کھڑے ہوں، صبر و تحمل کی مٹی میں نیم شبی کے اشکوں کا عرق ملا کر خلوص و محبت کا وہ گارا تیار کیا گیا ہو جس سے تیار ہونے والی ہر دیوار، ہر بنیاد محبت، اخوت، اور ایمان کی خوشبو فراہم کر سکے۔ اس باغبان نے اپنی بنجر زمین کو ہرابھرا کرنے کی ٹھان لی تھی اسکی آنکھیں اس خوف سے سونا نہیں چاہتی کہ ایسا نہ ہو نیند کا دورانیہ بڑھ جائے اور میرے خوابوں کا گلستاں مسمار ہوجائے بس ایک یہی تڑپ تھی جو اس کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیتی تھی۔

ایسا ہرگز نہیں کہ اس شخص کو اس سفر کے آغاز میں مشکلات در پیش نہیں تھیں، بالکل تھیں۔ مالی حوالے سے حالات بہت کمزور تھے مخلص احباب کی بھی کمی تھی لیکن اس نے صرف ان کے سہارے ہی نہیں خود کو بٹھا دیا کہ کوئی آئے اور میرا ہاتھ پکڑے اور پھر میں اپنے اس سفرکا آغاز کروں بلکہ اس باغبان نے علامہ اقبال ؒکا یہ شعراپنے پلو کیساتھ باندھ رکھا تھا۔
یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

انسان کو کوئی چیز اس وقت تک نہیں ہرا سکتی جب تک وہ خود ہار نہ مان لے منزل مقصود صرف ان لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہے جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر نہیں بیٹھتے اور جدوجہد ترک نہیں کرتے مسلسل سیدھے چلنے والے اور در پیش مشکلات کو نظر انداز کرنے والے با لآخر منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں رفتار چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ بالآخر اس باغبان نے 1976ء میں ناقابل کاشت زمین پر علم و حکمت (گلستان)کے چشمے کی بنیاد رکھی یہ باغبان بے سرو سامانی کی حالت میں اتنا بڑا قدم یہ سوچ کر نہیں اٹھاتا کہ کسی کا حق مارنا پڑا تو مار لونگا، کوئی بھی راہ اختیار کرنا پڑی کر لوں گااور منزل پر پہنچ جاؤں گا۔نہیں، بالکل نہیں! بلکہ اس باغبان نے اپنے خالق حقیقی کے فضل واحسان اور شیخِ کامل کی نظر سے اس کام کا آغاز کیا۔خدا کی ذات نے شیخ کے مشن سے اس کی محبت اور وارفتگی دیکھ کر اس کو وہ ہمت اور حوصلہ عطا کیا جو اس کے لئے مددگار ثابت ہوا۔جب خدا اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺکے دین کیساتھ انسان مخلص ہو جائے تو ان کا کرم اور فضل شاملِ حال ہوجاتا ہے اور انسان کامیابی و کامرانی کیساتھ اپنی تمام ترمنازل بآسانی عبور کر لیتا ہے۔

معزز قارئین!
اس علم و آگہی کے سر چشمے پہ آکر دیکھیے تو سہی، پانچ وقت بلند ہونے والی آذان کی آواز، ہر لمحہ قرآن و حدیث پڑھنے کی آواز تمام طلباء و طالبات کے سروں پر عزت کی نشانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس گلستان کی بنیاد رکھنے والے نے رات کے پچھلے پہر اٹھ کر ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر، دامن طلب پھیلا کر، اشکوں کے نہ تھمنے والے سیلاب میں آنکھوں کو ڈبو کر پوری رقت سے اس کارسازِ حقیقی کی منت کی ہے، اسکی بارگاہ سے ایک ایک اینٹ مانگ کر، ایک ایک ذرے کے مستحکم ہونے کی دعا مانگ کر اس چمن کو سینچا ہے،سیراب کیاہے۔ علم و حکمت کا یہ شیدائی خود سے یہ وعدہ کرچکا ہے کہ ایک ایسا سر چشمہ قیام عمل میں لاؤں گا جس سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ سیراب ہونگے، لاکھوں علم کی طلب رکھنے والے اکتسابِ فیض کریں گے۔ تشنہ لبوں کو علم و حکمت کے جام ملیں گے۔وقت اپنی رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے اللہ کے حکم اور اذن سے یہ سارا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے اور ایک ایسا گلستاں وجود میں آتا ہے جس میں شب و روز کبھی قرآن پڑھا جا رہا ہے یا مصطفی کریمﷺ کے فرمان پڑھے جا رہے ہیں۔ذرا سوچیں! جس گلستان کو آباد کرنے والا خود کتنا پاکیزہ سوچ ہو اسکی پاکیزگی و طہارت کا زمانہ گواہ ہو اس کے ہاتھوں سے سینچے گئے گلستان کی کیا اہمیت ہوگی۔یہ وہ گلستان ہے جس کو دنیا ”دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف“کے نام سے جانتی ہے اس باغبان نے اس گلستان کی آبیاری اپنے خون پسینے سے کی جس سے آج تک ہزاروں بیٹے اور بیٹیاں اکتسابِ فیض حاصل کر کے جاچکے ہیں اور اس چمنستان کی خوشبو کو پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔
پوری دنیا میں جو خوشبوئے کرم پھیلی ہے
میرے مرشد کا یہ فیضان سلامت رکھ

اس باغبان کیساتھ اس مشن میں وہ لوگ شامل ہوئے جن کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول تھا اس باغبان کی ہمت،حوصلہ اور عزم دیکھ کر بہت سے لوگ ہمیشہ کے لئے اس کے ہمسفر بن گئے۔
منظر تو دیکھئے!رات کا وقت ہوتا ہے یہ باغبان اٹھتا ہے اپنے بچوں کے زیرِ استعمال واش رومز کی صفائی پوری لگن سے کرتا ہے، جوتے ترتیب سے رکھتا ہے، پھر وضو کرتا ہے اور اللہ سے اگلے دن کے لیے خیر مانگنے میں مشغول ہوجاتا ہے، المختصر وہ اپنے سارے سفر کا ہر لمحہ اس رب کائنات سے مدد لیکر طے کرتا ہے، جذبے، محبت اور علم سے عشق کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کی خدمت کرتا ہے چھوٹے بچوں کے بستر تک صاف کرتا ہے، کبھی ماں کا روپ دھار لیتا ہے کبھی باپ کی شکل میں ان بچوں کو اپنی آغوش میں لیے پھرتا ہے۔
ہم نے کی ہے چمن کی آبیاری کچھ اسطرح
کبھی خون بن گئے،کبھی آب، کبھی سائباں

خونی اولاد تو اپنی جگہ کبھی اپنی روحانی اولاد کو بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ تم گھر بار سے دور ہو تم کو ماں باپ کی محبت میسر نہیں بلکہ میں ہی تمہاری ماں ہوں اور تمہارا باپ ہوں یہ تو اس باغبان کے الفاظ ہیں کبھی اس باغ کے پھولوں سے بھی جا کر پوچھیئے کہ تم سے زیادہ محبت تمہارے خونی ماں باپ کرتے ہیں یا یہ شخص کرتا ہے تو ہر ایک بیک زباں کہہ اٹھتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے میرے خونی ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ابھی تومیں اس باغبان کی زندگی کا صرف ایک پہلو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جس کو میں ”جہدِ مسلسل“ کیساتھ موسوم کر رہا ہوں لیکن اگر میں اس شخصیت کی زندگی کا ہر ایک پہلو سمیٹنے کی کوشش کروں توشاید میرے الفاظ تو ختم ہو جائیں لیکن اس شخصیت کے بہت سے پہلو ادھورے رہ جائیں گے میرے قلم میں اتنی ہمت کہاں کہ اس ہستی کی زندگی کے ہر پہلو کو سپردِ قرطاس کر سکوں۔

سفر پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے اس مردِ مومن کے پائے استقلال میں رتی بھر بھی لغزش نہیں آتی بلکہ جذبہ، ہمت اور حوصلہ ہر روز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ایک وقت آتا ہے کچھ لوگ اس علم و حکمت کے گلستان پر تشریف لاتے ہیں اور اس مردِ مومن سے سوال کرتے ہیں کہ آپ اپنے ادارے کے یتیم بچوں اور بچیوں کا نام لکھوائیے؟ہم عطیات دینا چاہتے ہیں وہ عزم و وفا کا پیکر بڑی جرأت سے جواب دیتا ہے کہ میرے ادارے میں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال پھر کیا جاتا ہے وہ اسی حوصلے اور ہیبت سے کہتا ہے کہ میں نے کہا نا کہ یہاں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال کرنے والا حیران و ششدراور پھر پوچھتے ہیں کیسے ممکن ہے کہ جہاں اتنے طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہوں وہاں کوئی بچہ یتیم نہ ہو؟ اس مرد مومن کا جرأت مندانہ جواب جو کہ تاریخ کے صفحات پہ یکتارہے گا کہ۔
”جب تک اس گلستان کا رکھوالا،چوکیددار موجود ہے اس ادارے میں پڑھنے والا کوئی بچہ یتیم نہیں ہو سکتا“۔
جی ہاں اُس دور کے باغبان کو دنیا اب ”سید زاہد صدیق بخاری“کے نام سے جانتی ہے اور اہل عشق و محبت کی زباں میں سفیر ضیاء الامت کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اللہ کریم آپ کو عمر خضر عطا فرما ئے،صحتِ کاملہ عطا فرمائے،اس عظیم مشن میں ہمیں آپ کا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔جو گلستان آپ نے آج سے 46 سال پہلے آباد کیا تھاہمیں بھی اس کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔
سدا بہار دیویں اس باغِ اندر کدی خزاں نہ آوے
ہوون فیض ہزاراں تائیں ہر پکھا پھل کھاوے

Hafiz Abdul Sattar
About the Author: Hafiz Abdul Sattar Read More Articles by Hafiz Abdul Sattar: 2 Articles with 1892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.