وفاق المدارس کا انتخابی اجلاس۔۔۔آنکھوں دیکھا حال

حالیہ تعلیمی سال کے دوران یکے بعد دیگرے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام تین ملک گیراجلاس ہوئے ……عید الفطر کے فورا بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں۔۔۔۔17 جون کو دارالعلوم زکریا اسلام آباد میں۔۔۔۔۔ اور 19 ستمبر کو پھر جامعہ اشرفیہ لاہور میں …… یہ تینوں محض اجلاس نہیں ریفرنڈم تھے۔۔۔۔۔اہل حق کی اجتماعیت کا اظہار تھا۔۔۔۔۔یکجہتی کا اعلان تھا۔۔۔۔۔۔وفاق المدارس سے وابستگی کا استعارہ تھا۔۔۔۔۔دینی مدارس کی حریت و آزادی اور خود مختاری کو باقی رکھنے اور ہر قیمت پر باقی رکھنے کے عہد کی تجدید تھی۔۔۔۔۔۔ممتاز علماء کرام۔۔۔۔منتخب ہستیاں۔۔۔۔۔نامی گرامی مشائخ۔۔۔۔وطن عزیز کے صف اول کے مدارس کے منتظمین۔۔۔۔۔لاکھوں لوگوں کی کایا پلٹ دینے والے مصلحین۔۔۔۔۔ہزاروں لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے پیغمبرانہ پیشے کے وابستگان۔۔۔۔۔اور ہزاروں بچوں کی کفالت اور پرورش کرنے والے محسنین۔۔۔۔۔۔ان تینوں مواقع پر جمع ہوئے اور پوری امت کو خیر کا۔۔۔۔امید کا۔۔۔۔اوراتحاد ویکجہتی کا پیغام دیا۔۔۔اب کی بار کا جو اجتماع تھا اس میں ایک انتخاب ہوا اور لاجواب ہوا۔۔۔ایک فیصلہ ہوا اور بہت صائب ہوا۔۔۔۔وہ کیا منظر تھا جب حضرت مولانا فضل الرحمن نے وفاق المدارس کے سابق صدر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب کی رحلت کے باعث خالی ہونے والی نشست کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا نام پیش کیا تو پورے ہال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔سب نے اپنی جگہوں پر کھڑے ہو کراس تجویز کی تائید کی۔۔۔۔۔ جامعہ اشرفیہ کی تاریخی مسجد کا ہال فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔۔حاضرین کے چہروں سے خوشی اور مسرت عیاں تھی …… سب کی آواز ایک تھی…… سب کا نعرہ ایک تھا…… سب کا انتخاب ایک تھا…… اتحاد و یکجہتی اور محبت واخوت کا عجیب منظر تھا…… رقت آمیز مناظر تھے۔۔۔اکاں ر کے باہمی احترام و محبت کے ایسے مناظر کہ دیکھ کر رشک آتا تھا۔۔۔۔کتنے لوگ آبدیدہ تھے۔۔۔۔اس وقت کی جو کیفیت تھی وہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور نہ اس وقت کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔۔۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا یہ محض ایک انتخاب نہ تھا بلکہ اسلام دشمنوں کو جواب تھا۔۔۔۔یہ مدارس اور وفاق المدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا توڑ تھا۔۔۔۔یہ دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملانے والا فیصلہ تھا۔۔۔۔یہ شیطان کے اپنے سرپر خاک ڈالنے کا مرحلہ تھا۔۔۔۔میرے جیسے بہت سے طالبعلموں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم ایڑیاں اٹھا کر اس تاریخی منظر کو اپنی یادوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ خوشی، مسرت، تشکر، حیرت، استعجاب، جذبوں، نیک تمناؤں کی باہم ایسی کشمکش تھی کہ کیا بتاؤں؟۔۔۔... اس مرحلے کا پورا پس منظر جن لوگوں کے سامنے نہیں انہیں کیا خبر کہ یہ کیا لمحہ تھا اور یہ حق اور اہل حق کی کیسی جیت تھی۔۔۔۔میرے تجزیے میں یہ لمحہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی ہی نہیں بلکہ ان کا نام پیش کرنے والے مولانا فضل الرحمن سے لے کر وفاق المدارس سے وابستہ ہر ہر طالبعلم کی جیت کا لمحہ تھا۔۔۔۔۔۔مولانا فضل الرحمن نے میرے جیسے بہت لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔۔۔۔۔اس لمحے مفتی تقی عثمانی ہی صدر نہیں بنے تھے بلکہ وفاق المدارس کے سینئر نائب صدر مولانا انوار الحق کا قد بھی بہت بڑھ گیا تھا۔۔اور رہ گئے مولانا محمد حنیف جالندھری تو ان کی بات ہی کیا سوچتا ہوں اکابرنے وفاق المدارس کی امانت کے لیے کیسے رجل رشید کا انتخاب کیا۔۔۔مولانا جالندھری نے اس لمحے کے لیے جتنی محنت کی،جس طرح ایک پل کا کردار ادا کیا،جس طرح جہد مسلسل جاری رکھی وہ اﷲ رب العزت ہی جانتے ہیں اور وہی اس کا اجر دیں گے۔۔ان شاء اﷲ۔۔۔مختار الامۃ حضرت مولانا مفتی مختار الدین شاہ صاحب نے بڑا ہونے کا حق ادا کیا۔۔۔۔مولانا فضل الرحیم اشرفی نے صرف اجلاس کی میزبانی ہی نہیں کی بلکہ اپنے حسن اخلاق اور حسن تدبیر سے بہت سی گتھیاں سلجھائیں۔۔۔
وفاق المدارس کے لیے اپنی زندگیاں لگانے والے حضرات بالخصوص مولانا قاضی عبدالرشید،مولاناسعیدیوسف،
مولاناامداﷲ،مولاناحسین احمد اور مولانا صلاح الدین بلکہ کس کس کا نام لوں۔۔۔۔اس لمحے ڈاکٹر عادل خان یاد آئے اور بے طرح یاد آئے۔۔۔وفاق المدارس کی بقاء اوراس لمحے کے لیے اس شخص نے کیا محنت کی تھی اور کتنی محنت کی تھی۔۔۔۔اس وقت مولانا فیض الرحمن نامی ایک بوڑھے کی ڈھیر ساری یادیں میرے پہلو میں آ کھڑی ہوء تھیں جو اس لمحے کی دید کے لیے لاٹھی کا سہارا لیے کہاں کہاں نہیں گیا تھا اور اس لمحہ کو دیکھنے کے لیے کتنا کڑھتا رہا تھا۔۔۔گزشتہ پونے دو برس کے دوران اتحاد ویکجہتی کے اس منظر کو دیکھنے کے لیے ہم نے اپنے مدرسہ میں کتنے اوراد ووظائف کروائے،کتنی دعاؤں کا اہتمام کیا،کتنی فکر مندی کے لمحات گزارے اور یہ صرف میری بات نہیں اس تحریر کو پڑھنے والے کتنے لوگ اس سے زیادہ فکرمندی اور دعاؤں کا اہتمام کرتے رہے۔۔۔۔بس اﷲ کریم نے کرم فرما دیا اور دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔۔۔الحمدﷲ علی ذالک

اس تاریخ ساز اجلاس کی نقابت حسب معمول مولانا قاضی عبدالرشید جیسی مرنجاں مرنج ہستی کے پاس تھی۔۔۔قاضی صاحب کی برجستہ گوء،ان کا حسن انتظام اور ان کی باغ وبہار شخصیت ایسے پروگراموں کو یادگار بنا دیتی ہے۔۔۔۔کتنا مشکل ہوتا ہے ناں سب کو موقع دینا،حفظ مراتب کو پیش نظر رکھنااور پروگرام میں حاضرین کی دلچسپی برقرار رکھنا،ماشائاﷲ ہمارے قاضی صاحب ان سب پہلوؤں کو خوب مدنظر رکھتے ہیں---اجلاس کے دوران مختلف حضرات نیاظہار خیال فرمایا۔۔۔ سب حضرات کی گفتگو کا خلاصہ اور لب لباب یہ تھا کہ برصغیر میں دینی مدارس،اسلام، اسلامی اقدار و روایات، ٹھیٹھ دینی ماحول کی بقاء کے لیے ضروری ہیں اوران مدارس کی بقا کے لیے ہمارے اکابر نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی صورت میں میں جو حصار کھینچا تھا۔۔۔۔جو سائباں بنایا تھا۔۔۔۔ جو اجتماعیت کی شکل بنائی تھی۔۔۔۔وہ ایسی ڈھال ہے جو دشمن کے ہر تیر کو روک لیتی ہے…… وہ ایسی ''بنیان مرصوص'' ہے جس کے ساتھ اسلام مخالف اور دین دشمن قوتیں سر پٹخ پٹخ کر رہ جاتی ہیں لیکن مدارس تک،دین کی محنت تک، دین کے کام کرنے والوں تک، حالات کاسردو گرم نہیں پہنچ پاتا……اس اجلاس میں ہر مقرر نے جو گفتگو کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے خاص طور پر حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا خصوصی خطاب،مولانا فضل الرحمن کی کلیدی گفتگو اور مولانا محمد حنیف جالندھری کی چشم کشا تقریر خاصے کی چیز تھی۔۔۔یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں انعقاد پذیر ہوا جب پڑوس میں اﷲ رب العزت نے اسلام کو،جہاد کو، حق کو،اہل حق کواوردینی مدارس کے وابستگان کو غلبہ عطا فرمایاہے اس لیے اکثر خطباء کے بیانات میں پڑوس کی اس صورتحال پر خوشی و مسرت کا اظہار تھا اور ساتھ ساتھ یہ تجزیہ بھی کہ دشمن کو اندازہ ہے کہ دین کے تمام شعبوں کی نرسریاں اور ہر خیر کے کام کے اصل سرچشمے مدارس دینیہ ہیں …… اس لیے مدارس دینیہ کو ہدف بنایا گیا اور پڑوس میں جس طرح عسکری معرکہ برپا رہا اور بالآخر اﷲ رب العزت نے حق کو فتح دی اسی طرح اس عرصے میں ہمارے ہاں مدارس دینیہ اور مذہبی طبقات کے خلاف فکری، نظریاتی اور اعصابی جنگ جاری رہی اور بالآخر اﷲ کریم نے جیسے وہاں فتح عطا فرمائی ایسے ہی یہاں بھی مدارس اور اہل مدارس کا سواد اعظم ناقابل تسخیر رہا …… اس عرصے میں جس جس انداز سے مدارس کے خلاف مہم جوئی کی گئی اس کا مختلف حضرات نے تذکرہ کیا بالخصوص مدارس کی اجتماعیت کے خلاف ہونے والی حالیہ صورت حال کے بارے میں سب سے مفصل اور فکر انگیز گفتگو جانشنین امام المحدثین حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے فرمائی یاد رہے کہ مولانا عبیداﷲ خالد اس کمیٹی میں شامل تھے جس نے مدارس کی اجتماعیت کو انتشار وخلفشار میں بدلنے والوں کو ان کے طرز عمل سے باز رکھنے کے لیے گھنٹوں ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور انہیں ہر طرح سے قائل کرتے رہے کہ وہ صدیوں سے جاری اکابر کی محنت کو ضائع کرنے سے باز رہیں…… مولانا عبید اﷲ خالد نے اپنی گفتگو میں دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ مدارس کی اجتماعیت اور اکابر کی محنت پرخنجر کس کے اشارے پر گھونپا گیا اور اس کے مستقبل پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے…… مولانا فضل الرحمان صاحب کی مختصر اور جامع گفتگو اس اجلاس کا نچوڑ تھی آپ نے دین اسلام اور دینی محنت کے خلاف ہونے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کیا-

ترجمان مدارس دینیہ حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ اپنی چالیس سالہ وابستگی اور اس دوران آنے والے نشیب و فراز اور حالات و واقعات کا بڑی خوبصورتی سے تذکرہ کیا اور حاضرین کو بتایا کہ وفاق المدارس کی اجتماعیت کی برکت سے کیسے دین دشمن اور مدارس مخالف عناصر اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہوئے اور ہر دور میں کس طرح مدارس کے خلاف ہونے والی مہم جوء ناکامیوں کا شکار ہوتی رہی۔۔۔انہوں نے کہا کہ وفاق المدارس کی قیادت کو چومکھی لڑاء لڑنی پڑی۔۔۔۔ہم پر جبر کے دور میں ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا۔۔۔۔۔ترغیب و ترہیب سے کام لیا گیا۔۔۔۔۔۔کردار کشی کی گئی۔۔۔۔ مراعات کی پیشکش کی گئی۔۔۔۔لیکن الحمدﷲ کبھی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لایا اور مدارس کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھااور مدارس کے نصاب، نظام، نظام امتحان، نظام مالیات، مدارس کی آزادی و خود مختاری ہی نہیں بلکہ اہل مدارس کی خود داری کا بھی تحفظ کیااور کسی بیرونی دباؤ پر نہ نصاب کا کوئی لفظ تبدیل ہوا۔۔۔۔۔نہ نظام اور ڈھانچے میں کوئی تبدیلی آئی۔۔۔۔ نہ آزادی و خود مختاری پر کمپرومائز کیاگیا۔۔۔۔۔نہ حریت فکرو عمل کو گروی رکھاگیا۔۔۔۔الحمدﷲ ہمارے اکابر اور تمام اہل مدارس نے عشروں پہلے ہمیں جس مقام پر کھڑا کیا ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے جبر کے باوجود وہیں کھڑے رہے……اجلاس کے مختلف مقررین نیاتحادو یکجہتی کو سبوتاژ کرنے اور اہل حق کی صفوں میں انتشار و خلفشار کا باعث بننے والوں کے جھوٹے دعووں اور خلاف حقیقت پروپیگنڈیپر بھی کھل کر تنقید کی-
اجلاس کے آخر میں مولانا محمد حنیف جالندھری نے صدر اور ناظم اعلی کے علاوہ دیگر عہدیداروں کے ازسر نوتعین اور کء امور میں اکابر کے مشورے اور مدارس اور اہل مدارس کے مفاد اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا بھی عندیہ دیا۔۔۔لاہور اجلاس کے لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صوباء ناظمین،نائب ناظمین اور ضلعی مسوولین نے بھرپور محنت کی،دفتر وفاق المدارس کے عملے نے مولانا عبدالمجید ناظم دفتر کی قیادت میں جامعہ اشرفیہ میں کیمپ آفس قائم کیا اوررجسٹریشن اور ویریفکیشن سمیت دیگر امور حسن و خوبی کے ساتھ سرانجام دئیے۔۔۔ہمارے میڈیا سنٹرز کے رفقاء مولانا طلحہ رحمانی میڈیا کوآرڈینیٹر وفاق المدارس،مدیر ماہنامہ وفاق مولانا محمد احمد حافظ،سوشل میڈیا ایکسپرٹ عزیزم اسامہ صابر،برادرم سراج الحسن میڈیا سنٹر خیبرپختونخوا اور دیگر رفقاء نے اپنے حصے کا کام بڑی ذمہ داری اور مستعدی سے سرانجام دیا۔۔۔۔لاہور کے علماء کرام اور رابطہ کمیٹی بالخصوص مولانا مفتی خرم یوسف،مولانا عبداﷲ مدنی،مولانا عثمان آفاق اور دیگر ہمیشہ کی طرح سرگرم عمل رہے اور جامعہ اشرفیہ کے اساتذہ طلبہ،کارکنان اور انتظامیہ نیمولانا فضل الرحیم کی سرپرستی میں اپنی تابندہ روایات کو برقرار رکھا-

اجلاس کے آخر میں مولانا انوار الحق صاحب نے صدارتی خطاب فرمایا بعدازاں یہ یادگار اور تاریخ ساز اجلاس معروف روحانی شخصیت حضرت اقدس مولانا مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب کی دعا سے اختتام پزیر ہوا-
 

Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi: 120 Articles with 130089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.