پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اردو زبان کا حال بھی عجیب ہے کہ پیدا تو دہلی میں ہوئی لیکن دہلی کے اجڑتے ہی یتیم سی ہو گئی ۔لڑکپن مشرق کی جانب کوچ کر کے لکھنؤ میں گزارا اور جوان ہوئی تو جنوب میں حیدرآ باد اور مغرب میں لاہور کا رخ کیا اس وقت کسے پتہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ زبان مہاراشٹر جیسی سنگلاخ زمین میں پھولے پھلے گی بہار میں اس پر پھر سےبہار کا موسم چھائے گااور بنگال کے مختلف ضلعوں میں اسے دوسری ریاستی زبان کا درجہ حاصل ہو جائیگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عالمِ غیب کا حال عالم الغیب کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا ۔مستقبل کے بارے میں انسانی قیاس آرائیاں ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوتی رہی ہیں ۔گردش زمانہ کی زنبیل میں وہ کچھ موجود ہوتا ہے جس کا اندازہ لگانا حضرتِ انسان کےتخیل پرواز سے پرے ہے ورنہ کس کے خواب و خیال میں یہ بات تھی کہ جن مدرسوں کو کبھی آئی ایس آئی کے اڈے اور دہشت گردی کی آماجگاہ قراردیا جارہا تھا ان کی اس طرح پذیرائی ہوگی کہ انہیں نہ صرف حکومت تسلیم کر یگی بلکہ ان کی سر پرستی بھی کریگی اور ایسا کرنے والی سرکاروں میں فسطائی جماعت بی جے پی کا بھی شمار ہوگا ۔ ان مدرسوں سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو طلباء و طالبات بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر نکلیں گے۔ ایک ایسے سنگین دور میں جبکہ خوشحال مسلمان خوداپنے بچوں کو کانونٹ اسکولوں میں روانہ کر کے اردو کا چراغ اپنے ہی گھروں میں گل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان مدرسوں سے نکلنے والے مسلم و غیر مسلم نوجوان اردوزبان کی ترویج و ترقی کیلئے آگے آئیں گے ۔ہم لوگ خالق کائنات کی اس یقین دہانی سے مایوس ہورہے تھے کہ ‘‘بے شک ہرمشکل کے ساتھ اک آسانی بھی ہے’’(سورۃ الانشراح اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاؕ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ۰۰۶)ایسے میں چرخ ِنیلی فام کا پھر رنگ بدلا اور ایسا لگنے لگاگویا ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

انتخابی سیاست میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے بعد رہنماؤں کو اپنے وعدے یاد رہتے ہوں لیکن کم از کم ممتا بنرجی کو ابھی تک اپنے وعدے یاد ہیں اور وہ انہیں نبھانےکی اپنی سی کو شش کر رہی ہیں ۔انہوں نے مدرسہ عالیہ کا اصلی نام بحال کر دیا ہے اس مدرسے کے نام سے لفظ عالیہ کویونیورسٹی کا درجہ عطا کرنے سے قبل ہذف کردیا گیا تھا اور یہ گھناؤنی کاروائی اپنے آپ کو سیکولرزم کا سرخیل قرار دینے والی کمیونسٹ پارٹی نے کیا تھا ۔اردو زبان میں ترقی پسندی کی تحریک جس نظریہ کے حامیوں نے چلائی تھی اسی اشتراکیت کی علمبردارحکومت کا مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک حیرت انگیز تھا۔ اس کے علاوہ ممتا بنرجی نے ۶ ضلعوں میں اعلیٰ تعلیم کے مدرسے قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ریاست بھر کے ۱۰۵۰۰ مدرسوں کو سرکاری منظوری دینے کے بعد ان کو مرکزی حکومت کی امداد کا مستحق بنانے کے قابل بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہےاور جن ضلعوں میں اردوداں افراد کی تعداد۱۰ فی صد یا اس سےزیادہ ہے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ یاد رہے مغربی بنگال میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۲۷ فی صد ہے اورفی الحال ریاستی حکومت کے تعاون سے چلنے والے مدرسوں کی تعداد ۵۲۸ ہے ۔

ممتا بنرجی کے ان فیصلوں کی مخالفت نہ تو کانگریس کے بس میں ہے اور نہ کمیونسٹ ایسا کر سکتے ہیں اس لئے بی جے پی حسبِ توقع خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑی ۔بھاجپ کے ریاستی صدر راہل سنہا نے ان فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی خفیہ ایجنسی کے مطابق بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ پائے جانے والے مدرسے ہند مخالف ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ممتا بنرجی قومی مفاد سے کھلواڑ کر رہی ہیں ۔

راہل سنہا کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ نے اپنے حالیہ بیان میں الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش سرحد سے متصل مدرسے حرکت المجاہدین کےذریعہ چلائے جارہے ہیں اور ان میں سے اکثر قوم دشمن ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کوایک طرف تو کانگریس کی ہر بات پر شک ہوتا ہے اور دوسری جانب وہ کانگریس ہی کی ہر ایسی بات پر یقین کر لیتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ایسا کیوں؟وزیر داخلہ نے اگر یہ بات کہی ہے تو ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ انہیں ان مدرسوں کے خلاف کاروائی کرنے میں کیا چیز مانع ہے ؟ ویسے اگر بی جے پی کو مدرسوں کی سیاست سے پریشانی لاحق ہوئی ہے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی اپنی پارٹی کے چشم و چراغ نریندر مودی نے دیوبند کے مہتمم مولانا وستانوی کو محض گجرات کے فسادات کو بھول جانے کا مشورہ دینے کے عوض یوم جمہوریہ کی سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت دے ڈالی تھی لیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی مولانا کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس لئے انہوں نے مودی کی دعوت کو قبول کرنے کی جرأت نہیں کی ۔

ہندوستان کی سب سے بڑی حزب ِ اختلاف بی جے پی کا حال فی الحال بہت خراب ہے ایک تو وہ لوگ کچھ بولتے نہیں اور اگر کچھ بولتے بھی ہیں تو اس قدر اوٹ پٹانگ کہ کوئی اس پر کان نہیں دھرتا۔میڈیا ان کی سن کر بھی ان سنی کر دیتا ہے اور نشرو اشاعت کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ ایسا ہی کچھ ہوا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے ممتا کواپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے مدرسوں سے متعلق فیصلے پر برس پڑے حالانکہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ مغربی بنگال سے زیادہ مدرسوں کی پذیرائی بہار میں کی جاتی ہے اور بہار کی ریاستی حکومت میں بی جے پی برابر کی شریک ہے۔بہار میں تسلیم شدہ مدرسوں کی تعداد ۴۰۰۰ ہزار ہے جن میں سے ۱۱۱۸ کو ریاستی حکومت چلاتی ہے گویا یہ تعداد مغربی بنگال کے سرکاری مدرسوں سے دوگنی ہے ۔اس معاملے میں ایک دلچسپ اعداد و شمار یہ بھی ہے کہ خواتین میں تعلیم کو عام کرنے کا دم بھرنے والی سرکار صرف ۳۲ طالبات کے مدرسوں کا تعاون کرتی ہے جبکہ ملت اپنے تئیں ۵۷۶ طالبات کے مدرسوں کا(سرکاری امداد کے بغیر)اہتمام کرتی ہے ۔ویسے ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہمدرد سمجھے جانے والے لالو یادو کو ان مدرسوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا خیال نہیں آیا بلکہ بی جے پی کی مدد سے لالو کو ہرانے والے نتیش کمار نے ؁۲۰۰۲ سے اس کارِخیر کا آغاز کیا ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے شدت پسند حامیوں کو تو مسلمانوں کے مخالف بیان سے خوش کر دیا مگر ان احمقوں کو کون بتلائے کہ جن مدرسوں کی ان کے رہنما مخالفت کررہے ہیں ان میں القائدہ کا تو کہیں نام و نشان نہیں ہے ہاںمسلمانوں کے ہمراہ ہندو بچے ضرورتعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ بنگال میں اوسطاًمدرسوں کے اندر ۲۰ فی صد طلباء غیر مسلم ہیں لیکن چند ایک ایسے مدارس بھی موجود ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلم ہےمثلاً اوروگرام گاؤں کا چاتوسپلی مدرسہ جہاں تعلیم حاصل کرنے والے ایک ہزار طلبہ میں سے ۶۴ فی صد غیر مسلم ہیں اور جملہ اساتذہ کی تعداد ۱۲ ہے جن میں سے ۴ ہندو ہیں ۔غیر مسلمین کے اندر مدرسے کی مقبولیت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر مدرس انور حسین فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو دوسرے اسکولوں میں ہوتے ہیں ۔عربی اور اسلامیات کے علاوہ سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہےاسی کے ساتھ ہم تمام مذاہب کے طلباء کا یکساں خیال رکھتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم ختم کرنے کے بعد طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا سرکاری و نجی ملازمت حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اس لحاظ سے دوسرے اسکولوں اور ہمارے مدرسے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔انور حسین کے دعویٰ کی تائید یہاں پڑھنے والی ۱۲ سالہ شنجنی خاتون نے بھی کی جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور اسے یقین ہے کہ مدرسے کا معیارِ تعلیم اسے داخلے کے امتحان میں کامیابی سے ہمکنار کر دے گا۔

کولکتا(جو شہرۂ آفاق کلکتہ کا نیا نام ہے ) میں زیر ِملازمت ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ انہوں ابتدائی تعلیم مدرسے حاصل کی پھر ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا اور اب بچوں کے امراض کے ماہر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اوروگرام مدرسے کے ایک استاد نظام الدین احمد فنی و مادی فائدوں کے علاوہ سماجی و معاشرتی افادیت کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مدرسوں میں ہندو مسلم طلبا کا ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا فرقہ وارانہ امن و خیر سگالی کیلئے بھی معاون ثابت ہوتا ہے اور آپسی غلط فہمیوں اور عدم اعتماد کے ازالہ کا سبب بنتا ہے ۔۱۶ سالہ تانو شری بسواس اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کے خیالات میں مدرسے کی تعلیم کے دوران زبردست فرق واقع ہوا ۔ مغربی بنگال کے اندر ابھی حال میں انگریزی میڈیم کے مدرسوں کا رحجان بھی پرو ان چڑھ رہا ہے ۔

بہار کے مدرسے نہ صرف دسویں جسے فوقانیہ کہا جاتا ہے بلکہ بارہویں یعنی مولوی کے درجے تک کی تعلیم فراہم کرتے ہیں اس سال بغیر کسی نقل کے مدرسوں کے نتائج ۹۰ فی صد رہے ۔ وہاں امتحان کے نتائج کااعلان ہندووں اور مسلمانوں کیلئے جدا جدا زمروں میں ہوتا ہے۔ اس سال فوقانیہ کے امتحان میں انجلی ۸۰۵ نمبر حاصل کر کے ہندوطالب علموں میں اول نمبر پر آئی جبکہ اسکے مقابلے ناصرہ خاتون کو اول آنے کیلئے ۸۹۶ نمبرحاصل کرنے پڑے ۔ اسی طرح مولوی کے امتحان میں جہاں محمد ملک ۹۶۳نمبر حاصل کرکے اول آیا وہیں سنجے نے ۸۹۳ اور بالاکرشنن نے ۸۸۴ نمبرات حاصل کئے ۔سنجے کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے غیر مسلمین کو مدرسے میں آنے کی ترغیب دے گا اسلئے کہ یہاں تعلیم نہ صرف مفت ہے بلکہ معیار ی ہے ۔غیر مسلمین اپنے بچوں کو عربی ،فارسی اور اسلامی تہذیب سے اس لئے مانوس کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خلیج کے ممالک میں موجود مواقع سے استفادہ کر سکیں اور مسلم ممالک کے سفارتخانوں میں ملازمت حاصل کر سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ مدرسوں کی جانب نہ صرف پسماندہ بلکہ خوشحال ہندوؤں کا بھی رحجان بڑھ رہا ہے ۔تیس غیر مسلم طلبا نے فوقانیہ میں ٹاپ کیا ہے جبکہ ۱۶ مولوی کے کورس میں اول پوزیشن پر آئے ہیں اور ان سب نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی ہے۔یہ حقیقت بھی چونکانے والی ہے کہ سب سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے ۱۲ غیر مسلم طالب علموں میں سے ۱۰ طالبات ہیں۔

ایک دلت طالبہ صنم کماری جس نے مولوی کے امتحان میں تیسرا نمبر حاصل کیا اردو ٹیچر بننا چاہتی ہے۔ حکومت کی تعلیم کے فروغ کی خاطر چلائی جانے والی مہم میں ہر ۴۰ طلبا پر ایک استاد اور ہر دس طالب علم پر ایک اردو ٹیچر کا اہتمام ہے جس کے باعث بہت ساری اسامیاں اساتذہ کی خاطر معرضِ وجود میں آئی ہیں ان میں سے۱۰ فی صد اردو والوں کیلئے مختص ہے۔گذشتہ دوسالوں کے اندر نتیش سرکار نے دو لاکھ اساتذہ کا تقرر کیا جس میں سے اچھی خاصی تعداد اردو اساتذہ کی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بی جے پی کی شریک کار حکومت کی جانب سے کیا جارہا ہے جس کے بنیادی عقائد میں سے ایک مسلمانوں کو دہشت گرد اور غدار وطن سمجھنا ہے اورجن کا واحد ہدف اسلام اور مسلمانوں کی ایذا رسانی ہے ۔

دہشت گردی کی بابت تو یوں ہوا کہ اس کو امریکہ اور اس کے حواریوں نےجن میں ہندوستان بھی پیش پیش ہے اس قدر پھُلایا کہ وہ اپنے دباو ٔسے آپ ہی پھٹ گیا اور اسکی ساری ہوا نکل گئی اب سرکار کی سرپرستی میں آئے دن برپا ہونے والی دہشت گردی عوام کے معمولات زندگی میں شامل ہوگئی ہے اور اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی بلکہ جو حیرت کا اظہار کرتا ہے اسے لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں ۔ ہندوستان میں مدرسوں کے خلاف بڑے پیمانے پر محاذ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔اتفاق سے وہ ۱۱ ستمبر کے بعد کا زمانہ تھا اور عالمی سطح پر امریکہ کی سربراہی میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز ہو چکا تھالیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ معاملہ محض بی جے پی تک محدود رہا بلکہ اس حمام میں کانگریس ،کمیونسٹ اور ملائم سنگھ یادو تک بھی برہنہ پائے گئےاور ان سب کے زیر نگرانی میں چلنے والی ریاستی حکومتوں کی پولس نے مدرسوں پر چھاپہ بلکہ شب خون مارنے کی گھناؤنی کارروائی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔

ممبئی میں مدرسہ دارالعلوم امدادیہ پر تیاگی کی قیادت میں پولس نے ۱۹۹۳ کے فسادات کے دوران ہلہ ّ بول کر۸ معصوم طلبا کو شہید کر دیا ۔اس وقت مرکز اور ریاست دونوں مقامات پر کانگریس کی حکومتیں تھیں اس کے باوجودآرڈی تیاگی کی ترقی ہوتی رہی اوربالآخر اسے پولس کمشنر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ حکومت اس کی اور دیگر مجرم پولس اہلکاروں کی پشت پناہی کرتی رہی ان کے کے خلاف مقدمات کو ہر عدالت میں کمزور کیا جاتا رہا یہاں تک کہ ۱۸ سال بعد وہ لوگ سپریم کورٹ سے بھی بری ہوگئے اور یہ سب کانگریس کے آشیرواد سے ہوا ۔آندھرا پردیش میں مولانا عاقل حسامی کے زیر اہتمام چلائے جانے والے دارالعلوم پر حیدرآباد میں پولیس نےآدھی رات میں چھاپہ مارا ۔مسلمانوں کے زبردست احتجاج کے باوجود پولس نے اگلے ہی دن نہ صرف کشن باغ میں واقع دارالعلوم انوارلہدیٰ کو نشانہ بنایا بلکہ مصری گنج کے جامعہ عائشہ صدیقہ برائے طالبات پر بھی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا اور یہ ساری کاروائی مسلم دوست سمجھے جانے والے کانگریسی وزیر اعلیٰ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دورِ اقتدار میں ہوئی ۔

مغربی بنگال جہاں مدرسوں کی تاریخ بہت قدیم ہے اور ان کا جال پھیلا ہوا ہے امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد خود وزیر اعلیٰ بدھو دیو بھٹا چاریہ نے نہ صرف کلکتہ کے مدرسے پر چھاپہ مروایا بلکہ سنگھ پریوار کے لہجے میں مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا۔اس سلسلے کا سب سے حیرت انگیز چھاپہ پھلت ضلع مظفر نگر میں واقع جامعہ رحمانیہ پر اس وقت پڑا جب ملا ّملائم کہلانے والے ملائم سنگھ اتر پر دیش کے وزیر اعلیٰ تھے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مقام پیدائش پر ان کے نام سے چلایا جانے والا یہ مدرسہ ہمیشہ ہی حکومت کا وفادار رہا اس کے باوجود اپنے آپ کو سرکاری عتاب سے نہیں بچا سکا ۔ اس طرح کے مظالم کا آغاز اترپردیش میں ویسے تو بی جے پی کی زیر سر پرستی ہوا جب ندوۃ العلوم کے چند طلبا ۱۹۹۴ میں رات گئے گرفتار کئے گئے ۔ اس کے بعد دارالعلوم دیو بند کے ساتھ قائم ہونے والے سہارنپور کے مظاہرالعلوم کے ایک استاذ مولانا اسرار کو دہلی میں گرفتارکرنے کے بعد مدرسے پر چھاپہ مارا گیا ۔

سرزمین ِ ہند کے مسلمانوں نے ایک ایسا پر آشوب دور بھی دیکھا کہ جب سنگھ پریوار والے چندرا چندرا کر یہ کہتے پھرتے تھے کہ "ہر مسلمان دہشت گرد تو نہیں مگر ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے"لیکن آج حالت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے بارے میں یار دوست کہنے لگے ہیں کہ "ہر ہندو سنگھی تو نہیں مگر ہر سنگھی[کسی نہ کسی درجے میں] دہشت گرد ضرور ہے"اس زمانے میں مندروں اور بازاروں میں تو کجا مسجدوں ،درگاہوں اور قبرستانوں میں ہونے والےدھماکوں کی بھی ذمہ داری بھی بلاچوں چرا مسلمان معصوم نوجوانوں کے سر منڈھ دی جاتی تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب ممبئی دھماکے میں گرفتار کئے جانے والےسبھی مسلمان ملزم باعزت بری کر دئیے گئے سوائےاجمل قصاب کے جس کا تعلق پاکستان سے بتلایا جاتا ہے ویسے اس کا حقیقی تعلق کس سے ہے یہ پتہ لگانا ایک ایسی تحقیق کا موضوع ہے جس کی فرصت یا ضرورت کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی کسی میں اس کی جسارت ہے کہ وہ امریکی ایجنٹ ریچرڈ ہیڈلی کے دست راست کی تفصیل میں جائے ۔اس لئے کہ بقول غالب
داورِ حشر ! میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.