بھابھی نہیں تو میری ماں ہے.......

وہ بھابھی جس نے مجھے اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار دیا
وہ بھابھی جس کے آنے سے گھر میں رونقوں کا سیلاب آگیا وہ بھابھی جس نے ہر مقدس رشتے کو اس کے مرتبے کے مطابق عزت و احترام دیا


میرے والد ایک فلم کا اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے ،جس کی تمام ترکہانی دیور بھابھی کی پاکیزہ اور بے لوث محبت کے گرد گھومتی تھی ۔ اس کہانی میں دیور کی ہر غلطی کوبھابھی اپنی غلطی قرار دے کر اسے بڑے بھائی کی مارپیٹ سے بچا لیتی تھی ۔ دیور پھر غلطی کربیٹھتا تو بڑا بھائی اسے سزا ضرور دیتا ۔والدین فوت ہونے کے بعد دیور کا سب سے بڑا سہارا اس کی بھابھی تھی جو ماں کاروپ دھارے اپنے دیور کے روشن مستقبل کے لیے ہمیشہ سے پرامید تھی ۔ایک دن اس بھابھی کا دیور،اپنے بڑے بھائی کی مارپیٹ سے تنگ آکر گھر سے نکل آتا ہے اور ریل کے پٹڑ ی پر کسی انجانی منزل کی طرف گامزن ہوجاتا ہے ۔ حسن اتفاق سے اسے ایک جگہ سے ریل کی پٹڑی کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ اس خیال سے اپنی قمیص اتار کر لہراتا ہوا مخالف سمت پٹڑی کے درمیان دوڑنے لگتا ہے جس طرف سے اسے مسافروں سے بھری ریل گاڑی آتی دکھائی دیتی ہے۔جب وہ گاڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچتا ہے تو ڈرائیور خطرے کو بھانپ کر گاڑی روک لیتا ہے ، بھابھی کا وہ دیور ڈرائیور کو بتاتا ہے کہ آگے ریلوے ٹریک ٹوٹا ہواہے، اگر ٹرین اسی طرح دوڑتی ہوئی وہاں سے گزری تو اسے کسی بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔حسن اتفاق سے اسی ٹرین پرریلوے کا ایک اعلی افسر بھی سفر کررہا ہوتا ہے جب وہ ٹرین ڈرائیور کے ساتھ اس مقام پر پہنچتا ہے تو ٹوٹے ہوئے ٹریک کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور اعلان کرتاہے کہ اگر یہ نوجوان گاڑی کو نہ روکتا تو نہ جانے کتنے انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ چنانچہ ریلوے کا وہ اعلی افسر اس نوجوان کے لیے حکومت کی جانب سے بڑے انعام کا اعلان کرتاہے۔ جب اس واقعے کی خبر ریڈیو اور دیگر نشریاتی رابطوں پر نشر ہوتی ہے ،تو اس نوجوان کی بھابی بھی اپنے دیور کی تلاش میں بھاگتی ہوئی اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں سب لوگ اس کے دیور کی تعریف کررہے ہوتے ہیں ۔ایک طرف دیور اور دوسری جانب ماں جیسی بھابھی اسے پیار سے اپنی آغوش میں اپنے بچوں کی طرح لے کر پیار کرتی ہے تو اس لمحے اس فلم میں ایک گانا دیور بھابھی پر فلمایا گیا ہے ۔ جس کے بول تھے ۔پیاری بھابھی ...... بھابھی نہیں تو میری ماں ہے ۔

یہ ان دنوں کی کہانی ہے جب میں ابھی بہت چھوٹا تھا لیکن بھابھی کے بارے میں میرے دل میں اس وقت ایک ایسا تصوراتی خاکہ ابھر رہا تھا اور میں تصور ہی تصور میں بھی سوچا کرتا تھا کہ اگر اﷲ نے مجھے بھابھی دی تو میں اس کو اپنی ماں کی طرح ہی پیار کروں گا۔اس کا دل نہیں دکھاؤں گا۔ ہر بھابھی کے دل میں اپنے دیور کے بارے میں کتنا پیار ہوسکتا ہے اس کی مثال دیور بھابھی کی وہ فلم تھی جس کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں ۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب 1967ء میں میری والدہ ( ہدایت بیگم ) ہم سب بھائیوں کے ساتھ اپنے میکے "عارف والا" جا پہنچی۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں خاندان کے بزرگ ہی اپنے پوتے اور پوتیوں کے رشتے طے کردیا کرتے تھے ،مجال ہے کوئی ان طے شدہ رشتوں سے انکار کرے۔ میرے نانا سردار خاں ، غلہ منڈی عارف والا میں منشی کی حیثیت سے ملازم تھے ،دور دراز سے جو پھل اور سبزیاں بیل گاڑیوں پر لدی ہوئی ہر صبح غلہ منڈ ی پہنچتیں تو میرے نانا وزن کے مطابق ان کا منٹوں میں حساب کتاب کردیا کرتے تھے اس کے باوجود کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن ریاست فرید کوٹ کے مہاراجہ کی جیل کے وہ جیلر رہ چکے تھے ۔بس اسی تجربے سے فائدہ اٹھاکر وہ ہزاروں کا حساب سیکنڈوں میں کردیتے ۔ جبکہ میرے بڑے ماموں محمد ہدایت خاں عارف والا شہر کے ڈاکخانے میں بطور پوسٹ مین ملازم تھے ۔چھوٹے ماموں محمد طفیل خاں ، نیلی بار کاٹن ملز عارفوالا میں بطور منیجر ملازم تھے ۔جبکہ اسی شہر میں میری دو خالائیں ( خالہ اقبال بیگم اور خالہ خورشید بیگم)بھی اپنے اپنے خاندان سمیت رہائش پذیر تھے۔شام ڈھلتے ہی غریب محلے کی گلی نمبر 2مکان نمبر 2 میری نانی کے گھر سارا خاندان اکٹھا ہوجاتا تھا اور رات گئے تک خوب گپ شپ ہوتی تھی ،ہم تو سرے شام ہی سو جاتے تھے لیکن ہمارے بڑے رات گئے تک باتوں میں مصروف رہتے ۔

ایک دن نانی نے میری والدہ کو حکم دیا کہ تمہارے بیٹے محمد اکرم کے لیے رشتہ دیکھنے جانا ہے ۔جب یہ خبر مجھ تک پہنچی تو میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا ۔ بھابھی کے حوالے سے میرے ذہن میں جو تصورتھا ۔اﷲ کی مہربانی سے وہ تصور اب حقیقت کا روپ دھارنے جا رہا تھا ۔بہرکیف اگلے دن ہم سب نانی کی قیادت میں بھائی اکرم کے لیے رشتہ دیکھنے تایا کمال دین کے گھر گلی نمبر 4میں جا پہنچے ۔میں چونکہ زیادہ بڑا نہیں تھا ۔اس وقت میری عمر بارہ سال ہوگی ۔میں اپنی ہونے والی بھابھی کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا ۔خاطر تواضع کے بعد بالا خر روقیہ بیگم میری بھابھی کے روپ میں ہمارے درمیان آبیٹھیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسی وقت اپنی ماں کو کہہ دیا تھا کہ دیور بھابھی فلم میں جس بھابھی کا تصور میرے ذہن میں محفوظ تھا وہ روقیہ بھابھی ہی ہوسکتی ہیں ۔اس لیے فورا ہاں کردی گئی اور بڑوں نے وہیں بیٹھابیٹھائے رشتہ پکا کردیا ۔پھروالدہ نے اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھے ہوئے پیسے نکالے اور میرے نانا ان پیسوں سے مٹھائی لینے بازار کو چل پڑے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ رشتہ طے ہونے کی خوشی میں مٹھائی لے کر ہم واپس آرہے تھے ۔ ایک درخت کے سائے میں نانا جی سانس لینے کے بہانے بیٹھ گئے ۔مٹھائی کا ڈبہ کھول کر دو لڈو انہوں نے خود کھائے اور ایک لڈو مجھے بھی یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ تم بھی کھاؤ۔مٹھائی کھانے کا شوقین تو میں بھی تھا لیکن جتنے بھی چکر ہم نے مٹھائی لینے کے لیے لگائے ہر مرتبہ نانا جی خود زیادہ مٹھائی کھاتے اور مجھے ایک آدھ دے کر خاموش کرا دیتے۔جب میں انہیں کہتا میں گھر جا کر نانی کوبتاؤ ں گا تو نانا جی اپنی لاٹھی لے کر مجھے مارنے کو بھاگتے۔مار کے ڈر سے میں خاموش ہوجاتا ۔

بہرکیف وہ دن بھی آگیا جب بھائی اکرم گلابی رنگ کی پگڑی باندھے ،دولہا بن کر پیدل ہی غریب محلے کی گلی نمبر 2 سے گلی نمبر 4میں تمام رشتے داروں کے ہمراہ جا پہنچے ۔مجھے نہیں علم کہ بھائی اکرم کو اس شادی کی کتنی خوشی ہوئی ہوگی لیکن میں اس لیے خوشی سے نہال تھا کہ ہمارے گھر میں بھابھی آ رہی ہے، جس کے آنے سے ہر جانب خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی ۔حقیقت میں ہوا بھی یہی۔ پہلے بات بات پر والد مجھے تھپڑ مار دیا کرتے تھے اور ڈانٹ ڈپٹ کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا لیکن جب بھابھی روقیہ نے ہمارے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو نہ صرف ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا بلکہ اس دن کے بعد والد صاحب نے مجھے کبھی نہیں مارا ۔ یہ سب میری جان سے بھی پیاری بھابھی کی آمد کا ثمر تھا۔ میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں اس دور میں نئی نویلی دولہنوں کے لیے سا س سسر کا گھر ہر لمحے امتحان گاہ بنا رہتا تھا ۔میری والدہ (ہدایت بیگم) چونکہ سخت مزاج کی حامل خاتون تھیں اس لیے بہو کے ہر کام میں نقص نکالنا اور بات بات پردولہن کو مارنا پیٹنا ایک عام سی بات تصور کی جاتی تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ بھابھی روقیہ نے ہمارے گھر آنے کے بعد جتنا پیار مجھے دیا تھا اس سے زیادہ محبت میں ا سے کرتا تھا ۔ جب بھی گھر میں کوئی جھگڑا ہوتا تو میرا ووٹ ہمیشہ بھابھی روقیہ کی طرف ہی ہوتا۔

بھابھی ارشاد بیگم کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی اس لیے گھر کے کام کا تمام تر بوجھ بھابھی روقیہ پر آن پڑا۔یہ وہ دن تھے جب ہم ایک کمرے کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھے، صحن کو لوھے کی چادروں سے ڈھانپ رکھا تھا ۔اس کے آگے مٹی کی کچی اور چھوٹی سی دیوار کے اندر خود ساختہ صحن بنالیاگیا تھا جہاں روٹی پکانے والا چولہا اور بمشکل ایک چارپائی بچھ سکتی تھی۔وہیں زمین پر بیٹھ کر ہم صبح کا ناشتہ،دوپہراورشام کا کھانا کھایا کرتے تھے۔ گرمیوں میں خواتین کے لیے پردے کا خاص اہتمام کیاجاتاجبکہ مرد حضرات کھلی فضا میں سویا کرتے۔ گھر میں نہ تو کوئی ڈھنگ کا کوئی غسل خانہ تھا اور نہ ہی بیت الخلا۔ صبح سے لے کر رات کا اندھیرا چھانے تک خواتین اپنے اپنے گھروں میں ہی نظربند رہتیں ۔جب رات ہو جاتی تو دو دو چارچار خواتین کوارٹروں کے پیچھے خالی جگہ پر جا کر اس انداز سے حاجت روائی کرتیں کہ ان کو کوئی مرد دیکھنے نہ پائے۔دن کے وقت تو خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنا بھی محال تھا ۔مجھے نہیں علم کہ ہمارے گھر کی خواتین نے یہ اذیت ناک وقت کیسے گزارا ۔مردوں کو اس لیے سہولت تھی کہ ان کے لیے کوارٹروں سے کچھ فاصلے پر اجتماعی لیٹرینیں موجود تھیں جہاں وہ حاجت روائی کے لیے دن میں کسی بھی وقت جایا کرتے تھے۔

اس زمانے میں گھر گھر پانی کے نلکے نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ہمارے گھراور مسجد کے درمیان میں ایک بھاری بھرکم نلکا ہوا کرتا تھا، جہاں سے صبح و شام بالٹیوں میں بھر کر پانی لایا جاتا تھا ۔ایک دن والدہ نے میرے والد سے کہا سب لوگ خالی جگہ پر مکان بنا کرقبضہ کررہے ہیں آپ بھی کسی جگہ پر ایک چھوٹا سا گھر بنا لو جہاں کم ازکم ہمارے شادی شدہ بیٹے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے رہ سکیں ۔چنانچہ کوارٹروں کے پیچھے خالی جگہ پر ایک کمرہ اورچھوٹا سا صحن تعمیر کرلیے گئے ۔جہاں بھائی اکرم اپنی بیگم کے ہمراہ شام ڈھلے سونے جایا کرتے تھے ،صبح ہوتے ہی وہ دونوں واپس اپنے آبائی کوارٹر میں لوٹ آتے۔بھائی اکرم اس وقت یونیورسل آپٹیکل انڈسٹری میں ملازم تھے ، پھر وہ ٹی آئی پی میں عارضی ملازم کی حیثیت سے نوکر ہوگئے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی ملازمت مستقل نہ ہوسکی ۔یہی غم انہیں موت کی دہلیز پر لے جانے کا باعث بنا۔5 مئی 2004ء کا وہ منحوس لمحہ بھی آ پہنچا جب میرا بھائی محمداکرم لودھی اچانک دنیا سے رخصت ہوگیا۔بطورخاص یہ صدمہ میری بھابھی روقیہ کے لیے ناقابل برداشت تھا کیونکہ سوائے بڑے بیٹے ندیم کے باقی سب بیٹے (وسیم،نعیم اور کلیم ) ابھی چھوٹے تھے۔بھائی اکرم کی زندگی میں ہی پہلے بھٹہ چوک پھر اسی گھر کی بیٹھک (جہاں آجکل نعیم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔)ایک دوکان بنالی گئی ۔بعد ازاں اس گھر کے سامنے جہاں پہلے شمسو اوران کے بھائی موٹے کی دوکان تھی ،وہ خرید لی گئی ۔ پہلے بھائی اکرم اور بعد میں اس دوکان کو چلانے کی ذمہ داری سب سے بڑے بیٹے ندیم اکرم نے سنبھال لی ۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ چاروں بیٹوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنی والدہ کو اس طرح سنبھال کر رکھا ہے اور ان کی ہر طرح سے دیکھ بھال کرتے ہیں ، جن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھابھی روقیہ اپنے شوہر کے ہر فیصلے پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے ان کی پشت پر اس طرح کھڑی رہیں کہ میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے بھائی اکرم سے اختلاف کیا ہے ۔ ماشا ﷲ بھابھی روقیہ کے چاروں بیٹوں کی شادیاں ہوچکی ہیں ،سب سے بڑا بیٹا ندیم اکرم ، اپنے ماموں سرورخاں کے گھر، وسیم اکرم سیالکوٹ میں ،نعیم اکرم راولپنڈی میں اور سب سے چھوٹا بیٹا کلیم اکرم ،سیالکوٹ شہر کے داماد بن چکے ہیں ۔مٹی کا وہ گھروندہ جس کی بنیاد میرے والد اور والدہ نے اپنے خون جگر سے رکھی تھی ، جسے مکان سے گھر بنانے کے لیے ہم سب نے اپنااپنا حصہ ڈالا تھا آج وہی گھر اپنوں کی محبت میں جنت نظیر کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں نہ صرف میری جان سے بھی پیاری بھابھی روقیہ بیگم ،اپنے بیٹوں اور پوتے پوتیوں کے ہمراہ خوشحال زندگی گزار رہی ہیں ۔

بھابھی روقیہ کو اگر اﷲ تعالی نے بے پناہ خوشیاں عطا کر رکھی ہیں وہاں انہیں بیشمار صدمات نے بھی گھیرے رکھا ہے۔پہلے باپ جیسا بڑا بھائی سرور خاں اس دنیا سے رخصت ہوا، پھر ان کی بھابھی فریدہ بھی فوت ہوگئی، اس کے بعد دوسرے بھائی غلام علی بھی دنیا چھوڑ گیا ۔ ان کی والدہ ،ماموں عباس ، بڑی بہن حفیظہ ،چھوٹے بھائی شبیر کی پہلے بیوی اب وہ خود بھی اس دنیا میں جا بسے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔اس قدر پے درپے صدموں کو برداشت کرنے والی میری یہ بھابھی ہم سب کے لیے حوصلہ کے پہاڑ نظر آتی ہیں ۔میں اور میری اہلیہ جب بھی ان کے گھر جاتے ہیں تو وہ اپنے دکھ بھول کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہمارا استقبال کرتی ہیں ۔

میں لڑکپن ہی سے اپنی اس بھابھی کو ماں کے روپ میں دیکھتا رہا ہوں بلکہ اب جبکہ میری حقیقی ماں اس دنیا میں نہیں رہی ، میں انہی کو اپنی حقیقی ماں سمجھتا ہوں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ماں باپ کے بعد اگر میں کسی کودل سے چاہتا ہوں تو یہ میری بھابھی ہے ،میں جب ان سے ملنے جاتا ہوں تو اپنا سراس طرح ان کے سامنے جھکا دیتا ہوں جیسا میں اپنی سگی ماں کے سامنے اپنا سرجھکایا کرتا تھا ۔وہ بھی حقیقی ماں کی طرح میرے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتی ہیں جیسے ایک ماں اپنے لخت جگر پر اپنی محبتیں نچھاور کرتی ہیں۔اس لمحے میرے دل اور میری زبان پر یہی الفاظ ہوتے ہیں ۔ پیاری بھابھی ...... بھابھی نہیں تو میری ماں ہے ۔دل سے دعا نکلتی ہے کہ اﷲ میری جان سے پیاری بھابھی کو صحت ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے ۔آمین

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 671576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.