ٹک ٹاکر خاتون اور بچہ

بچہ گلی میں کھیل رہا تھا ،محلے کے بچے بھی موجود تھے ،خوب اچھل کودہو رہی تھی کہ ایک بچہ موبائل لئے آن پہنچا ۔بچے نے سب کو اکٹھا کیا اور بولا ادھر آؤ یہ دیکھو! یہ بھولے کی ماں کی ’’ٹک ٹاک وڈیو ‘‘ہے ۔دیکھو! کیسے ناچ رہی ہے ۔اسے ذرا شرم نہیں ۔کتنی بے شرمی سے غیر مرد کے ساتھ ناچ رہی ہے ۔پہلے تو بھولے نے کوئی توجہ نہ دی لیکن آخربچوں نے بھولے کو بھی پاس بلا لیا ۔بچہ ماں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بچوں کو کیا کہے ۔وہ بچوں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا رہا اوراپنے اوپر جبر کرکے سب باتیں پی گیا ۔بچہ بولا یہ میری ماں نہیں ،اس کی کوئی ہم شکل ہوگی ۔لیکن سبھی بچے یک زبان ہو کر بولے کہ نہیں ۔یہ تمہاری ہی ماں ہے ۔بچہ رونے لگا ۔روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔اسی طرح بھولا سکول گیا تو وہاں بھی اس کی ٹیچرز اور ساتھی بچوں نے اسے وہی وڈیوز دکھانا شروع کر دیں ۔ماں کی وڈیوز کے حوالے سے نت نئے تبصرے کرنے لگے ۔بچہ دل ہی دل میں ماں کو کوسنے لگا ۔کہ یہ میری ماں کو کیا ہوگیا ہے ۔یہ کیوں سرعام غیر مرد کے ساتھ ناچ رہی ہے ۔بچے نے سکول کا وقت مشکل سے گذارا ۔اس کے دل و دماغ پر لوگوں کے جملے نشتربن کر چبھنے لگے ۔اسی پریشانی میں وہ گھر پہنچا ۔ماں نے بڑے ہی پیار سے اس کا کھانا ٹیبل پر لگایا اور میرا بچہ ۔۔میرا بچہ ۔۔۔میرا پیارا سا بھولا ۔۔کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگی ۔بچہ لوگوں کی باتوں سے پریشان تھا ۔وہ منہ بنا کر بیٹھا رہا ۔کھانے کو ہاتھ ہی نہ لگایا ۔ماں نے کھانا کھانے پر اصرار کیا تو بھولا بولا ۔مجھے بھوک نہیں ہے ۔ماں اُس کی خاموشی سے پریشان ہو گئی تو پوچھنے لگی کہ بیٹا کیا ہوا ۔؟کیوں طبیعت تو ٹھیک ہے ۔؟کیا سکول میں ٹیچر نے کچھ کہا ،کسی بچے سے جھگڑا ہوا ہے ۔؟۔ماں اوپر تلے سوال کئے جا رہی تھی اور بچہ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔ آخر ماں کے بار بار پوچھنے پر بچہ ماں سے گویا ہوا کہ امی امی یہ ’’ٹک ٹاکر گرل ‘‘کیا ہوتی ہے ۔؟ماں اس کے سوال پر گھبرا گئی۔بیٹا کیوں ،کیا ہوا ۔؟ ۔بچہ بولا :مماآج پہلے گلی میں بچوں نے پھر سکول میں ٹیچر ز اور ساتھی طلبہ نے مجھے باربار آپ کی ’’ٹک ٹاک وڈیوز‘‘دکھائیں ،آپ کسی غیر مرد کے ساتھ ناچ رہیں تھیں ۔ممّا!مجھ میں تو ویڈیوز دیکھنے کی ہمت ہی نہ تھی ۔میرا دل چاہتا تھا کہ ان سب کے منہ توڑ دوں ۔لیکن یہ میرے بس میں نہ تھا ۔ماں بولی :بیٹا یہ ٹیکنالوجی اور ترقی کا دور ہے ،پیسہ کمانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے ۔خواتین کے لیے روزگار کے بہت مسائل ہیں بیٹا ۔دفتری ماحول بھی خواتین کے لیے نامناسب ہے ،کہیں کوئی سیفٹی نہیں ،جس بھی آفس میں جاب کریں ،خواتین کو عجیب لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔لوگوں کی نظروں کا خناس عورت کی عزتِ نفس کو مجروح کرتاہے ۔وہ بولتی چلی گئی ۔ملازمت پیشہ خواتین کے لیے عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے ۔دفاتر میں بھی لوگ ’’وڈیوز‘‘ بنا کر خواتین کو بے راہروی پر مجبور کرتے ہیں۔کتنی ہی خواتین دفتر میں اپنے باس اور دیگر سٹاف کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنوا بیٹھتی ہیں ۔کہیں کوئی تحفظ نہیں ۔ادھر ٹک ٹاک وڈیوز میں کم از کم یہ سیفٹی تو ہے کہ کوئی دفتر کے بند کمروں میں یرغمال بناکر بلیک میل تو نہیں کرتا ۔کتنی ہی خواتین ’’یوٹیوب‘‘ اور’’ ٹک ٹاک ‘‘کے ذریعے مقبول بھی ہوئیں اور پیسے بھی کمائے ۔یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی قسمت میں دکھ ہو تو کوئی’’ اَن ہونا‘‘ واقعہ ہو جاتاہے ۔جس طرح لاہور میں عائشہ نامی ٹک ٹاکر کے ساتھ ہوا ۔بیٹا! ہر عورت عائشہ کی طرح بے وقوف نہیں ہوتی ۔ان وڈیوز سے کچھ نہیں ہوتا ۔تم پریشان نہ ہوا کرو ۔بچہ ماں کی سبھی باتیں سنتا رہا ۔پھر بولا : ممّا !آپ تو یہ کام نہ کیا کریں ،مجھے بچے تنگ کرتے ہیں ۔آپ کوئی اور کام کر لیں ۔ماں بولی ! بیٹا فی الحال تو کوئی اور کام نہیں ۔جونہی کوئی کام ملا تو میں وہ کر لوں گی تم پریشان نہ ہو ۔

وقت گزرتا گیا ۔خاتون کے فالورز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ۔ادھر’’ ویوورز ‘‘بڑھتے گئے ساتھ ڈالروں کی برسات ہونے لگی ۔ماں جی اس دولت کی ریل پیل میں ایسی گم ہوئیں کہ وہ بھول گئیں کہ اُن کا کوئی بیٹا بھی تھا ۔’’ٹک ٹاکر وڈیوز ‘‘سے بدنامی خاتون کی دہلیز تک آن پہنچی ۔شوہرنے صورتحال سے دل برداشتہ ہو کر خاتون کو طلاق دے دی لیکن خاتون کو اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا ، دولت مند ٹک ٹاکرہونے کی وجہ سے ایک تماش بین نے اس سے شادی کر لی ،باوجود کوشش کے خاتون اپنے بچے پر توجہ نہ دے سکی ۔دوسرے شوہر نے بھی اسے نوٹ بنانے والی مشین سے زیادہ کوئی عزت نہ دی ۔بچے کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے لیے مدرسے میں ڈال دیا ۔مدرسے میں مولوی صاحب بچے کی ماں کی وڈیوز دیکھتے اور بچے کو بھی دکھاتے ۔بچہ مدرسے جاتا تو قاری صاحب بچے سے فرمائش کرتے کہ تم اپنی مما کو بھی کسی دن ملواؤ ،یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ماں جی قاری کی نیت کو بھانپ گئیں ،اس لئے اُس نے قاری صاحب نے نہ ملنے میں ہی عافیت سمجھی ۔دن گذرتے گئے ۔ ایک دن قاری صاحب نے جنون میں آ کر بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ماں کو پتہ چلا تو وہ تھانے جا پہنچی ۔تھانیدار نے خاتون کی بات سنی اَن سنی کر دی ۔تھانیدار نے خاتون کو ہی طعنے مارنے شروع کر دئیے ۔بی بی! تمہاری اپنی غلطی ہے ۔تم خود ’’ٹک ٹاک ‘‘میں لگی رہی اور بچہ قاری کے ظلم کا نشانہ بن گیا ۔انصاف نہ ملنے پر بچے نے فائر مار کر قاری کو قتل کر دیا ۔بچے کو پولیس پکڑ کر لے گئی ۔خاتون !جس کے ٹک ٹک فالورز کی تعداد 18لاکھ تھی ۔انصاف کے لیے ہر دروازے پر گئی لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی ،اُسے احساس ہوا کہ دنیا خود غرض اور مطلبی ہے ،ٹک ٹاک وڈیوز پر واہ واہ کرنے والے اور اس کا حوصلہ بڑھانے والوں نے بیٹے کے قاتل بننے پر اس کی مدد کی بجائے ،اُسے طعنے دے دے کر ہلکان کر ڈالا ۔خاتون ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی ۔ٹینشن بڑھی تو اُس نے سوشل میڈیا پر اپنی آخری وڈیو وائرل کرنے کا فیصلہ کیا ۔بیٹا قتل کے جرم میں جیل چلا گیا ماں نے اپنے بیٹے کے نام اس آخری پیغام کے ساتھ خودکشی کر لی کہ ’’بیٹا ! مجھے معاف کردینا ،میں تمہاری گنہگار ہوں ،میں تمہاری بات مان لیتی تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔’’ٹک ٹاک‘‘ کے شوق اور مشہور ہونے کے جنون نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا ۔سب کچھ فنا ہوگیا ،کوئی فالوور کام آیا ،نہ ہی کوئی عزیز رشتہ دار ،’’سرکا تاج ‘‘بھی چھوڑ کر چلا گیا ۔دوسرے شوہر نے بھی بے اعتنائی برتی ۔سب کچھ برباد ہو گیا ۔اﷲ مجھے معاف دے ۔

ٹک ٹاکر کی خودکشی کے بعد ہر ایک ہی زبان پر فقط ایک ہی جملہ تھا ’’غلط کاموں کاانجام اچھا نہیں ہوتا ،یہ توتھی ہی اس قابل ۔اسکے ساتھ یہی ہونا تھا ۔‘‘کاش! کہ خواتین ہوش کے ناخن لیں ،خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی محافظ نہیں ہوتا ۔اور دنیا والے محض ذہنی عیاشی کے لیے قوم کی بہو بیٹیوں کو غلط راہوں کا مسافر بنا دیتے ہیں ۔خوبصورتی تو اﷲ کا انعام ہے ، عورت کو اپنے حسن اورجوانی کی قدر کرنا چاہئے ،جوانی سدا نہیں رہتی ۔ایک دن یہ سب کچھ ڈھل جاتا ہے ۔ایسی خواتین کا بڑھاپا اذیت ناک ہوتا ہے ۔اگر عورت کا حسن ہی ماند پڑجائے تو بڑے بڑے فالوور اُسے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔یہی دنیا اور انسانی روئیے کی حقیقت ہے جس کا جوانی میں ہی ادراک ہو جانا چاہئے ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115940 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.