درختوں پر سیاست

اس میں کیاشک ہے کہ درخت ہماری زندگی ہیں ہمیں صاف ستھری سانس دینے میں معاون ومددگار ہی نہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، موجودہ حکومت کا شاید واحد جو کام لائق صد تحسین ہے وہ شجرکاری کو خاص اہمیت دینا ہے وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کے محاذ پر جتنے بے بس نظر آتے ہیں اسکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی،’اپنی ’فرصت‘‘ کے باعث انہوں نے درختوں کا کام دل سے لگا لیاہے سو سرکاری سطح پر شجرکاری جاری وساری ہے ،وزیر اعظم نے جو اعلان کیا تھا اتنے نہ سہی لیکن ایک قابل لحاظ تعداد میں درخت لگائے بھی جاچکے ہیں گو کہ گوجرانوالہ کو پھولوں اورپودوں کاشہر بنانے کی بنیادشہباز شریف کے دور میں رکھی جاچکی تھی ،فرق یہ ہے کہ تب کروڑوں روپے خرچ کر کے صرف گرین بیلٹ گھاس اورجھاڑیاں اگائی جاتی تھیں یا پھولدار پودے لگائے جاتے تھے اب پھلدار درخت بھی لگ رہے ہیں لیکن ن لیگ کے دور میں گرین بیلٹ اور جھاڑیاں بھی غنیمت لگتی تھیں کہ دور آمریت کے بعدشہر کی محرومیا ں ہی بہت زیادہ تھیں شہر ویسے ہی کھنڈر بنا ہوا تھا سابق کمشنر عبدالجبار شاہین کے وقت میں خطیر رقم خرچ کر کے پودے لگائے گئے جن میں اکثریت پھلدار تھی نہ پھولدار مگر وہ دھڑا دھڑ بوٹے بوٹیاں اور جھاڑیاں لگاتے گئے ،بعد میں کسی سے سنا تھاکہ انکے بھائی کی ذاتی نرسری تھی جہاں بھاری بل ادا کر کے ’’کھٹے‘‘ اور نہ جانے کون کون سی جھاڑیاں لگائی جاتی رہیں ،اسی طرح کا الزام احسن اقبال کے بھائی پر بھی لگ رہا ہے اﷲ جانے اسکی کیا حقیقت ہے لیکن بوٹے جھاڑیاں لگانازیادہ پرانی بات نہیں چند سال پہلے ن لیگ کے دورحکومت میں قلعہ دیدار سنگھ مائنر کا منصوبہ مکمل کیا گیا جس کے اردگرد درختوں کے نام پر جو جھاڑیاں اگائی گئیں ان میں کوئی پھلدار تو کیا پھولوں والابھی پودا نہیں تھا،جھاڑیوں کولگانے کے بعد آدھی سے زیادہ تعدادسوکھی لکڑیوں میں بدل گئی تھیں جی ٹی روڈ پر قائم گرین بیلٹ روز اول سے ہی قبضہ گروپوں کے پاس رہی ہے مگر کبھی اسکو بچانے یا اس وقت قابل عمل منصوبے بنانے کی کوشش نہیں کی گئی پی ٹی آئی حکومت آئی توانکے نئے چیئرمین پی ایچ اے گرین بیلٹ کی حفاظت اور قبضے چھڑانے میں ناکام رہے آج بھی بھی آدھی سے زیادہ گرین بیلٹ پر قبضے کر کے مختلف کاروبار چلائے جارہے ہیں یہ لوگ منتھلیاں دیکر گرین بیلٹ پر ورکشاپس پارکنگ اور کئی قسم کی کھانے پینے کی اشیا ء کامستقل کاروبار جمائے ہوئے ہیں دوکانداروں نے کاروبار میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے ن لیگ دور کی لگائی گئی جھاڑیوں کو جب جی چاہا کاٹ دیا، گرین بیلٹ پر گدھا گاڑیاں چلتی اور گدھے چرتے نظر آنے لگے، کوئی پوچھنے والا نہ تھالوگوں نے گرین بیلٹ توڑ کر رستے بنا لئے مگر پی ایچ اے افسران کی ساری توجہ دس دس ہاتھوں سے مال بٹورنے پر مرکوز رہی ، افسوس کی بات یہ ہے کہ مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑے سیاستدان اپنی پارٹی کا اندھا دفاع کرتے ہیں اپنے اپنے دور میں غلطیوں کوتاہیوں اور خامیوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں بدقسمتی ہے کہ آج کے سیاسی کارکنان کی تاریخ پاکستان سے زیادہ واقفیت ہے نہ وہ موجودہ پاکستانی سیاست کے پس منظر جانتے ہیں زندہ باد مردہ باد کے کلچر سے آگے دیکھنے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اوران کا واحد مقصد اپنی پارٹی کی پروجیکشن ہے تنقید کے لئے صرف مخالف جماعتوں کو رکھ چھوڑا ہے اگر سیاسی لوگ اپنے دور میں ہونے والے غلط کاموں پر بروقت زباں کھولنے لگ جائیں تو حکومتیں بہت سے غلط کام کرنے سے بچ سکتی ہیں تحریک انصاف کے طرز سیاست سے اختلاف اپنی جگہ مگر گوجرانوالہ کو مزید سرسبز وشاداب اور خوبصورت بنانے اورزیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی مہم ہر لحاظ سے انسانیت دوست اور سراہے جانے کے قابل ہے،منصوبے کے خدوخال کچھ بھی ہوں درخت لگانے کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، یہ آنے والی نسلوں پر احسان کی طرح ہے ، ڈی ایچ کیو اسپتال کے فرشتہ صفت ایم ڈاکٹر فضل الرحمان جو دکھی انسانیت کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کا یوم آزادی پربڑا خوبصورت بیان تھا کہ ہر شہری نہ صرف پودا لگائے بلکہ اسے پروان چڑھانے کی ذمہ داری کاعزم بھی کرے ، بلاشبہ درختوں کا فائدہ تمام انسانوں کے لئے برابر ہے اور اس میں پارٹیوں کی کوئی تقسیم نہیں درخت ایسی نعمت ہیں کہ جتنے بھی زیادہ اُگائے جائیں اتنے ہی فائدہ مند ہیں ، گوجرانوالہ میں ایک منٹ سے بھی کم وقت میں52ہزار سے زائد پودے لگائے جانے کا عمل خوش آئند ہے کوئی ریکارڈ بنا ہے یا نہیں لیکن طلباء اور انتظامیہ کے جذبے کو سراہا جانا ضروری ہے گوجرانوالہ میں مگر اہل سیاست نے درخت لگانے جیسی عظیم عبادت کو بھی محاذ آرائی اور الزامات کی سیاست کے کیچڑ کی نذر کر دیا ہے ، درخت لگانے والے حکومتی لوگ اپوزیشن راہنماکو درخت دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے ایم پی اے ہمارے دوست توفیق بٹ کا مؤقف ہے کہ درختوں میں فاصلہ کم رکھنے کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل ہی نہیں ہے وہ پی ایچ اے کے چیئرمین رہ چکے ہیں مالیوں سے لے کر افسران تک کے ساتھ انکے اچھے مراسم ہیں انہیں کسی نے بتایا ہوگا کہ درخت لگانے میں ضروری تقاضے پورے نہیں کئے جارہے لیکن توفیق بٹ کی کسی نے نہیں سنی الٹا ان پت ایک نہیں دو احمقانہ پرچے کرادیئے گئے ہیں جن کا سیاسی فائدہ ن لیگی ایم پی اے کو ہوا ہے اور ڈی سی بھی شہر سے چلے گئے ہیں ،افسران کا انجام بھی یہی ہونا ہوتا ہے اس لء آنے والوں کو مشورہ بھی یہی ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر خود کو خدا سمجھنے کی غلطی نہ کیا کریں سدا بادشاہی اﷲ کی ہے،گوجرانوالہ کے ارکان اسمبلی کو گلہ ہے کہ انتظامیہ انہیں پوچھتی تک نہیں ان کایہ غم وغصہ اپنی جگہ کہ امن امان ، صحت عامہ اور دیگر اہم اور حساس معاملات پر ن لیگی منتخب قیادت سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی، ن لیگ بھی اپنے دور میں شہر کے باقی سٹیک ہولڈرز کو کہاں لفٹ کراتی تھی اپوزیشن راہنماؤں کو پوچھنے کی کوئی روایت ن لیگ کے دور میں بھی نہیں ملتی اسی کا تسلسل ہے کہ آج شہر میں ن لیگ کے ارکان اسمبلی تو موجود ہیں مگر نمائندگی کہیں نظر نہیں آتی بہت سے ارکان اسمبلی نے حالات کے پیش نظر ایک مدت تک زبان بندکئے رکھی گرفتاریوں کے دنوں میں ہمارے بعض دوست تو بیرون ملک سیر سپاٹے پر بھی گئے رہے ، ویسے اب تو پنجاب اسمبلی ایک نہیں کئی کئی تحاریک پیش کر رہے ہیں مگر عوام کی سطح پر ہر روز انتظامی افسران اور محکموں میں نمائندگی نظر نہیں آتی ، توفیق بٹ پر دوستانہ ، بچگانہ اوراحمقانہ ایف آئی آر کی تو مذمت کرتے ہوئے بھی شرم سی محسوس ہوتی ہے ، ہر دور کی پولیس ایسی ہی ہوتی ہے ۔۔۔مخالفین کو پولیس کے ذریعے رگڑنا اور ایف آئی آرز کا مضمون منشی بادشاہوں سے لکھوایا جاتارہا تو انجام یہی ہو گا ، شہباز شریف غیر معمولی صلاحیتوں والے اور سخت گیر وزیر اعلیٰ تھے ان سے ذاتی طور پر گلہ ہے کہ ان سمیت کسی بھی حکمران نے پولیس کا نظام ٹھیک نہیں کیا ،ن لیگ کے منشی مافیا نے من پسند اور تابعدار قسم کے ایس ایچ اوزلگوا کر ایف آئی آرز کا جو دھندہ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،بعض ارکان اسمبلی کے منشی مافیا نے تو رجسٹری برانچ پاسپورٹ آفس اور میونسپل کارپوریشن کامستقل گھیراؤ کر رکھا تھا اور عوامی نمائندگی کے نام پر جو دھماچوکڑی مچارکھی تھی وہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی پنجاب اسمبلی میں بار بار تحریک استحقاق پیش کرنے والے توفیق بٹ کویاد نہیں کہ انکے دور میں بعض ارکان اسمبلی کے منشیوں نے کس طرح رات رات اثاثے بنائے اور ٹھیکیداروں کے ساتھ ملی بھگت سے لوٹ مار کا کیسا کھیل کھیلا جاتا رہا ،کارپوریشن کے مافیا نے کمرشل املاک سیل کر کے بلیک میلنگ کا دھندہ کیا اور کروڑوں روپے جیبوں میں بھرے، ن لیگ میں کوئی ہمت نہیں رکھتا تھا نہ کسی کواس وقت ’’توفیق ‘‘ ہوئی کہ حق بات کرتاکیونکہ اس حمام میں تو ن لیگ کے دو تین بزرگ راہنماؤں کو چھوڑ کرتقریباََ سبھی ننگے ہیں اس وقت ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن اتنی عام تھی کہ اگر کوئی رکن اسمبلی کمیشن نہ لیتا تو اسکا منشی یا کوئی رشتے دار ٹھیکیدار سے رابطہ کر کے پیسے اٹھا لیتا تھا اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ارکان اسمبلی نے مستقل بنیادوں پر اپنے اپنے ٹھیکدار رکھے ہوئے تھے اور پر ستم یہ کہ وہ ایمانداری کے دعوے داربھی تھے ، یہ مافیا اتنا مضبوط تھا کہ چند شریف النفس ارکان اسمبلی بھی اسکے ہاتھوں زیر عتاب رہے اور انکی اولاد تک کو انتقام کا سامنا رہااور ٹکٹ کے لئے انکی مخالفت کی گئی انکے لئے پارٹی کے کسی’’ ٹارزن ‘‘ نے آواز نہیں اٹھائی ن لیگ کے بعض یوسی چیئرمینوں پر جوئے کرانے ،منشیات کے دھندوں اور بھتہ خوری کے سنگین الزامات تھے مگر کوئی انکی ہوا کی جانب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا نہ ہی کوئی اس پربات کرتا تھا ، ن لیگ کاسول اپستال میں مفت ادویات بڑا کارنامہ تھا لیکن وہ اپنے دور میں سول اسپتال کا توسیعی منصوبہ مکمل کر سکی نہ گوجرانوالہ کوسرکاری یونیورسٹی اور چلڈرن دے سکی ، گوجرانوالہ میں کوئی جل جائے اور چاہے جل کے مرجائے ۔۔۔۔یہاں ڈی ایچ کیو اسپتال میں برن یونٹ ہی نہیں ہے ،ابتدائی طبی امداد تک کا کوئی انتظام نہیں ہے ، اسپتال میں سرجیکل ٹاور کی کی تعمیر کی کہانیاں سن سن کر کان پک گئے لیکن نہ بننا تھا نہ بنا ، گوجرانوالہ کے لوگ موٹر وے لنک کے لئے ترستے رہے لیکن انکی درست نمائندگی نہیں کی گئی، جناح انٹرچینج انقلابی منصوبہ لیکن شہر میں بنائے گئے فلائی اوور سے ٹریفک کا نظام مزید خراب ہوا ، ہر پھاٹک پر ٹریفک پھنسا ہوتا ہے جی ٹی روڈ مزید تنگ ہوچکی ہے ، نہ اس وقت شہر میں کوئی ٹریفک پلان تھا نہ آج ہے ، ہوٹرن بند کر کے لوگوں کو مزید تکلیف دی جارہی ہے ، جبکہ سروس روڈز بند ہیں یاٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں انہیں چالو کئے بغیر ہی جی ٹی روڈ پر سارے یوٹرن بند کرنا پتا نہیں کس ’’سائنسدان‘‘ کی تجویز ہے ، ن لیگ کے دور میں شہر نے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی جو ایک وقت میں بہت اچھا کام کر ر ہی تھی بعض فیصلوں کی وجہ سے تباہ ہوتے دیکھی اور شہر کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوا ، پی ٹی آئی حکومت میں سی ای او عتیق الرحمان نے اس چیلنج کو قبول کیا اور جس طرح معاملات بہتر بنائے قابل تعریف ہے، گوجرانوالہ میں چڑیا گھر اراضی پر سیاسی لوگوں اور محکمہ مال کے افسران کی ملی بھگت سے کرپشن کی دھماچوکڑی مچائی گئی لیکن نمائندگی غائب رہی ، کاش آج نمائندگی کا شوق رکھنے اور انتظامیہ سے گلہ کرنے والے اراکین اسمبلی شہر کی ان محرومیوں اور گوجرانوالہ کے ساتھ ہونے والی زیادتوں پر اپنے دور میں عوام کی درست نمائندگی کرتے تو آج یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا، بعض ارکان کی تومیاں شہباز شریف سے بارہا ملاقات رہتی تھی لیکن وہ اس وقت شہریوں کی محرومیوں کا ماتم کرنے اور انکی نمائندگی کرنے کی بجائے صرف تصویر پر قناعت کرتے رہے ، آج کوئی ن لیگ کی سننے ولا نہیں لیکن تب توخادم اعلیٰ کا دور تھا ، اس وقت عوامی نمائندگی میں کیا رکاوٹ تھی ، گوجرانوالہ شہر میں بچوں کے کھیلنے کے لئے کوئی میدان نہیں بچا جسکی وجہ سے سنوکر کلبوں پان شاپس پر رش لگا رہتا ہے نشہ آور چیزوں کی طرف مائل ہورہے ہیں مگر ارکان اسمبلی بے بسی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں جہاں تک پی ٹی آئی کے انتظامیہ پر قابض غیر منتخب ٹولے کا تعلق ہے اس نے ن لیگ کے دور کے مقابلے میں اول تو کام ہی نہیں کرائے اور اگر کرائے بھی ہیں تو مال بنانے میں ن لیگ کے غنڈہ منشی مافیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اب ٹرانسفر پوسٹنگ اور تھانوں میں پرچے کرانے کا نیا نرخ نامہ آچکا ہے ، ن لیگ کے بعض خاموش ارکان اسمبلی ان اہم معاملات پر اپنے دور میں بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے اور 3سال خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں کہ کہیں انہیں کوئی پکڑ ہی نہ لے ، اراکین اسمبلی یاد رکھیں عوامی نمائندگی کسی کی اجازت کی محتاج نہیں ہوتی ، انتظامیہ آپکو نہیں بلاتی تو کیا آپ عوام کے مسائل حل کرانے خود بن بلائے انکے پاس نہیں جا سکتے ، کیا آپکی ضد اور انا کی ساری دیواریں عوامی مسائل کے لئے انتظامیہ اور آپ کے درمیان کھڑی رہیں گی ، میرے دوست رکن اسمبلی کو ایک دم تحاریک جمع کرانیکا جنون ہو گیا ہے جو پھر بھی غنیمت ہے لیکن جہاں اتنا عرصہ بہت سی محرومیوں اورمسائل پر خاموشی طاری رہی ہے وہاں شہر میں درختوں کا جنگل بننے پر خاموشی کوئی مہنگا سودا نہیں درخت جہاں اور جیسا بھی ہوگا آکسیجن تو دے گا ۔۔۔جنگل کا خوف کیسا۔۔۔ یوں بھی پورا معاشرہ تو پہلے ہی جنگل بن چکا ہے۔۔۔۔ اس جنگل میں منگل بھی ہو ہی لینے دیں ۔۔۔۔ توفیق بٹ آپکو مبارک ہو کہ آپکی خاموش سیاست کو نئی زندگی ملی ہے اور آپ موضوع سخن بنے ہیں ۔۔۔اور ہر کوئی آپکو اس رس گلے جیسے میٹھے پرچے میں بے گناہ قرارد ے رہا ہے ، آپ سابق ڈی سی اور انکے مشیروں اورخاص طور پر پولیس کا شکریہ ادا کریں جس نے آپکے خلاف صرف پودے چوری کا پرچہ کرایا ہے حالانکہ ملک میں پرچے تو اور طرح کے کرانے کا موسم ہے، تھانے جائیں اور پھول پیش کریں ۔۔۔۔۔بلکہ ا یس ایچ او اور انکے ماتحتوں کا نذرانہ بھی بنتا ہے جنہوں نے’’ فل ٹاس ‘‘قسم کا پرچہ کرا کے آپ کو حکومت میں نہ ہونے کے باوجود چھکا مارنے کا موقع دیا ہے۔
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67658 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.