عدم برداشت اور ہم

یہ دنیا فانی ہے, اس کی ابدی اصلاح کے لیے ابدی تعلیمات آخری بار دے کر خالق کائنات نے امام کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنا محبوب بنا کر نبوت کا تاج عطا فرمایا.......
اعلان نبوت کے بعد 23 سال تک انسانوں کی اصلاح ؤ فلاح میں اللہ کریم کی تعلیمات پر عمل کر کے دکھایا,
کفار عرب کی جانب سے ہونے والے ظلم پر صبر کا دامن پکڑ کر بتایا کہ عدم برداشت انسانیت کی معراج نہیں ہے بلکہ صبر انسانیت کی معراج ہے.

قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًاO
(سورة الاحزاب : 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے‘‘۔

عدم برداشت,میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی اور انصاف وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دورہ ہوتا ہے ,معاف کر دینا کیا ہوتا ہے؟ اس معنی سے شاید ہمارا معاشرہ واقف ہی نہیں ہے۔
انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذہب اور مختلف النسل کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے ، میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کا حسن اور سلوک قائم رہتا ہے,
عدم برداشت کو عام الفاظ یا زبان میں سمجھنے کے لیے اتنا کہہ سکتے ہیں کہ برداشت کی کمی ہے, صبر کی کمی ہے,
قوموں کے زوال میں ایک اہم حصہ عدم برداشت کا بھی ہے,
تاریخ شاہد ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں نہایت ہی معمولی باتوں پر قبائل کے مابین نہ ختم ہونے والی مخاصمت جو ایک بار شروع ہوجاتی تو پھر نسل در نسل جاری رہتی تھی۔
مسند کتب میں درج ہے کہ قبیلۂ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی چالیس سال تک جاری رہی ۔ ان قبائل کی یہ جنگ اقتدار کے حصول کیلئے یا کسی علاقے کو فتح کرنے کی غرض سے نہ تھی بلکہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں اس جنگ و جدل کی وجہ یہ تھی کہ بنی بکر کی ’بسوس‘ نامی خاتون کا اونٹ بنو تغلب کی چراگاہ میں جا گھسا اور اسے مار دیا گیا ........جس سے نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ گئی۔
اسی طرح ’داحس اور غبرا‘نامی جنگیں بھی نہایت معمولی بات پر شروع ہوئیں , کئی دہائیوں تک قتل وغارت گری کا بازار گرم رہا۔
جھوٹی انا اور بے جا غصے کو تسکین دینے کے لیے گاجر مولی کی طرح اپنے ہی جیسے انسانوں کو انسانوں نے کاٹا ..............تاوقتیکہ رحمت خداوندی کو جوش آیا اور انسانیت کی ابدی اصلاح آخری بار کرنے کیلئے نبی آخر الزماں امام کائنات ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا ۔
امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور انسانوں کو انکے ناصرف اشرف ہونے کا یقین دلایا اور احترام آدمیت سے روشناس کیا ۔
طلوع اسلام سے قبل جنگ و جدل، قتل و خون اور عدم برداشت کی کئی مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ بقول زین العابدین میرٹھی ’’ایام العرب کا ایک سلسلہ ہے جو خون کی موجوں کی طرح سارے جزیرہ میں پھیلا ہوا تھا‘‘۔(پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام امن و سلام، نقوش، جلد سوم، صفحہ نمبر 460)
عرب میں عدم برداشت کی یہ حالت تھی کہ معمولی باتوں پر قبائل کے درمیان جھگڑا ہو جاتا۔ قبل از اسلام کی دو خونیں جنگیں ’’البسوس‘‘ اور ’’داحس والغبراء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ الدکتور حسن ابراہیم حسن تاریخ الاسلام السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی، جلد اول کے صفحہ نمبر 53 پر رقمطراز ہیں کہ ’’بسوس کی جنگ چالیس سال تک رہی‘‘۔
تاریخِ عالم عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثلاً بقول اسد سلیم ’’شیخ ذونواس نے یمن میں خندق کھدوائی اور تیس ہزار کے قریب ان عیسائیوں کو زندہ جلوادیا جنہوں نے یہودیت اختیار نہ کی‘‘۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خارجی پالیسی صفحہ نمبر 205)
سید ابوالحسن ندوی اپنے مقالہ ’’بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے‘‘ میں تحریر کرتے ہیں : ’’اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے‘‘۔
(رسول نمبر، جلد سوم، صفحہ نمبر 109 )
ہندومت میں عدم برداشت کا! اسی طرح رومی سلطنت کی تاریخ عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں درج شدہ مضمون ’’سپین‘‘ کے مطابق 1492ء میں سپین میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 28,540 کو سزائے موت ملی اور 12,000 کو زندہ جلا دیا گیا۔ بقول رابرٹ ہریقو ’’ڈیڑھ لاکھ کے قافلے میں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو سپین میں قتل کردیا گیا‘‘۔ (دی میکنگ آف ہیومینٹی صفحہ نمبر 253)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی تصنیف ’’یورپ پر اسلام کے احسان‘‘ کے صفحہ 87 پر لکھتے ہیں کہ 1610ء میں تمام مسلمانوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 1630ء میں ایک مسلمان بھی سپین میں باقی نہ رہا حالانکہ مسلمانوں نے قریباً پونے آٹھ سو سال حکومت کی۔
عدم برداشت کی کا اندازہ لگائیں کہ
*710 قبل از مسیح (یروشلم) 40 ہزار اشخاص ذبح ہوئے۔
*711 قبل از مسیح (یروشلم) ایک لاکھ 20 ہزار اشخاص مارے گئے۔
*957 قبل از مسیح (یروشلم) 5 لاکھ یہودی مارے گئے۔
*70 قبل از مسیح (یروشلم) 11 لاکھ یہودی مارے گئے۔
*135-36 ق۔ م (یروشلم) 5 لاکھ 80 ہزار یہودی ذبح ہوے,
*جنگ عظیم اول : 73 لاکھ 38 ہزار افراد مارے گئے۔
*جنگ عظیم دوم : 4 کروڑ اشخاص لقمہ اجل بنے۔
(بحوالہ نقوش، رسول نمبر، جلد نمبر 4، صفحہ 313)

اس سب کے مقابل رحمۃ اللعالمین ,امام کائنات,پیکر انسانیت ,شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہداء اور کفار مقتولین کی تعداد سیرت نگاروں کے مطابق 2 ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ ہے برداشت و حلم کی سنہری مثال!
لیکن اب ہم اپنے ماضی کو دیکھیں تو ہمارا حال تباہی کے کنارے پر ہے... اسکی بہت ساری وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں لیکن میری نظر میں آس کی ایک اہم وجہ اہل علم ہیں اور اہل علم میں سے زیادہ وجہ اہل قلم ہیں, جو نا صرف اس کے شکار ہیں بلکہ ذمہدار بھی ہیں...
اہل علم و قلم قوم کا سرمایہ ہیں کیونکہ قلم ایک ایسا ہتھیار ہے جو دل کا پیغام دماغ تک اور پھر دماغ کا پیغام دل تک پہنچاتا ہے جس سے عمل وجود میں آتا ہے
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہمیں صبر صرف تکلیف کے وقت ہی کرنا چاہیے ,لیکن سچ تو یہ ہےکہ ہمیں ہروقت صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے۔ہر وقت برداشت کا علم اٹھاۓ رکھنا ہے ,
نقصان کے وقت اپنے آپ کو مایوسی سے بچانا صبر ہے۔
فاٸدے کا موقع ہوتو اپنے آپ کو احساس برتری سے بچانا صبر ہے،تاکہ ہم اپنے اندر تکبر کو جگہ نہ دیں۔
بیماری کے وقت آہ و پکار نہ کرنا صبر ہے۔
تندرستی میں اپنے آپ میں فخر و غرور کے جذبات کو کنٹرول رکھنا صبر ہے ۔
اپنی تعریف کے وقت اپنی اوقات و حیثیت کو پہچانتے ہوۓ اپنے آپ پہ ناز نہ کرنا صبر ہے۔
تنقید کے وقت اپنے آپ کو غیر ضروری دفاع سے بچانا صبر ہے.....یہ ہی وہ درس انسانیت ہے جو ہمارے لکھاری اپنے نسل تک پہنچانے سے قاصر ہیں کیونکہ میرے یہ لکھاری اپنے لکھے پر عمل کرنے سے قاصر ہیں...
وطن عزیز کے اہل قلم کے قول و فعل کے تضاد نے بکھرے ہوۓ انسانوں کو ابدی تعلیمات کی طرف لانے وہ کوشش نہیں کہ جو وقت کی ضرورت تھی.
لہذا مذہبی تقسیم نے معاشرے کو ناصرف دین سے دور کیا بلکہ ان کے اندر عدم برداشت کی فصل کو پانی بھی دیا کہ میں ہی درست ہوں باقی سب غلط ہیں اور معاشرہ عدم برداشت کی دلدل میں غرق ہوتا گیا...
اب اگر اہل قلم کوشش کر سکتے ہیں تو کر لیں اور اپنی اصلاح کو مدنظر رکھتے ہوۓ حرف کو لفظ, لفظ کو الفاظ, الفاظ کو جملوں میں ایسے قید کریں کہ معاشرہ ایک مثالی معاشرہ کہلاۓ ،اور نسل نو بتائیں کہ صبر کے بغیر انسان آگے نہیں بڑھ سکتا۔
”قرآن مجید میں صبر کا زکر نماز کے ساتھ آیا ہے اور نماز کا حکم مرتے دم تک ہے اسی طرح صبر کا حکم بھی مرتے دم تک ہے۔
اور صبر کی سب سے بڑی قسم ہے لوگوں کی باتوں پر صبر کرنا جوکہ آج کی نوجوان نسل میں بس نام کو باقی ہے۔ میری اللہ رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں صبر کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔۔۔۔۔آمین“
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 469406 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More