موڈ آف نیشن : آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

انگریزی جریدے انڈیا ٹوڈے کا یہ معمول ہے کہ وہ ’ موڈ آف دی نیشن پول‘ کے نام سے ایک ششماہی جائزے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس مرتبہ 10؍ جولائی سے 20؍ جولائی کے درمیان ملک کی 19؍ ریاستوں کے 115 ؍پارلیمانی اور 230؍ اسمبلی حلقوں میں یہ سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت ایک سال میں 66 فیصد سے کم ہو کر 24 فیصد پر آ گئی ہے۔اگست 2020 میں 66 فیصد عوام نے مودی کو پی ایم کے لیے اپنی پہلی پسند کہا تھا مگر تقریباً 6؍ ماہ بعد جنوری 2021 میں مقبولیت کا گراف گھٹ کر 38 فیصد پر آگیا ۔ کورونا کی دوسری لہر اور مغربی بنگال کی شکست کے بعد مودی جی مقبولیت میں کمی کا احساس سنگھ پریوار کو ہوگیا۔وزیر اعظم کی شبیہ کوسدھارنے کی خاطر اس نے ٹیلی ویژن پر لامتناہی مثبتیت کے عنوان سے زبردست مہم چلائی گئی اور میڈیا کی مدد سے ملمع سازی کی انتھک کوشش کے باوجود وہ اگست 2021؍ میں اسے 24؍ فیصد تک آنے سے نہیں روک سکا۔ کسی وزیر اعظم کی مقبولیت کا اس قدر کم ہوجانا اس کے اپنے لیے، اس کی جماعت اور سنگھ پریوار تینوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ خاص طور ایسے میں جبکہ سب مل کر اسے بحال کرنے کی خاطر ہاتھ پیر مار رہے ہوں اور سارے داوں الٹے پڑ نے لگیں بقول میر تقی میر؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

حیرت کی بات یہ کہ مودی کے دست راست امیت شاہ کی بھی حالت پتلی ہے ان کا حریف اول یوگی ادیتیہ ناتھ انہیں پچھاڑ کر آگے نکل گیا ہے۔ اس سروے کے مطابق اگست 2021 میں سات فیصد لوگوں نے امیت شاہ کو وزیر اعظم کی گدی ّ کے قابل سمجھا تھا جبکہ جنوری 2020میں یہ تعداد آٹھ فیصد تھی یعنی وہاں بھی ایک فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ویسے اپنے دل کو بہلانے کی خاطر اگر اس کا اگست 2020 سے موازنہ کیا جائے اس میں تین فیصد کا اضافہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس وقت ان مقبولیت صرف چار فیصد پر تھی ۔ اس کے برعکس یوگی ادیتیہ ناتھ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ سروے کے مطابق ، یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کو اگست 2021 میں 11 فیصد شرکاء نے پی ایم کے عہدے کے لیے بہترین سمجھا جبکہ جنوری 2021 میں یہ تعداد 10 فیصد تھی اور اگست 2020 میں ، صرف تین فیصد لوگوں نے انہیں پی ایم عہدے کے قابل سمجھا تھا ۔ یہ مقبولیت راہل گاندھی کے دس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس دوران ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال بھی دویا تین فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک آگئے ۔

ریاستی سطح پر دیکھیں تو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پہلے دس وزرائے اعلیٰ میں صرف دو کا تعلق بی جے پی سے ہے اور پہلے پانچ میں تو بی جے پی کا ایک بھی نہیں ہے۔ اس بار علاقائی جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ سب سے زیادہ مقبول ہیں مثلاً تمل ناڈو کے اسٹالن نمبر ایک پر ہیں ۔ ان کے بعد اڈیشہ کے نوین پٹنایک اور پھر کیرالہ کے پنیارائے وجین کا نمبر آتا ہے۔ مہاراشٹر کے ادھو ٹھاکرے چوتھے اور بی جے پی کو دھول چٹانے والی ممتا بنرجی پانچویں نمبر پر ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس یوگی کو وزار ت عظمیٰ کے قابل سمجھا جارہا ہے وہ 11 وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے اور ان کے صوبے میں صرف 29؍ فیصد لوگ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ۔ ایسے میں آئندہ انتخاب جیتنا ان کے لیے کس قدر مشکل ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئے بلند بانگ دعویٰ کیے جارہے ہیں اور باربار دہلی کا چکر لگا رہے ہیں۔ ویسے اول تو ان کی انتخابی کامیابی مشکوک ہے مگر کسی طرح بی جے پی کامیاب بھی ہوگئی تویوپی میں بھی آسام کا تجربہ دوہرایا جائے گا ۔ سربانند سونوال کی طرح یو گی کو بھی دہلی منتقل کرکے کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا ۔ بعید نہیں امیت شاہ اپنے حریف کا نام اسٹار پرچارک کی فہرست سے بھی نکلوا دے کیونکہ سیاسی بساط پر خارجی مخالف سے زیادہ خطرناک داخلی حریف ہوتا ہے ۔ اس کا تجربہ لال کرشن ادوانی سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہے۔

وزیر اعظم کی مقبولیت کو تہس نہس کرنے میں سب سے اہم کردار کورونا سے نمٹنے میں ان کی نااہلی نے ادا کیا۔ اس معاملے میں جنوری 2021 میں 73 فیصد لوگ پہلی لہر کو سنبھالنے میں ان کارکردگی سے مطمئن تھے لیکن دوسری لہر کے دوران وہ صرف 49؍ فیصد لوگوں کا اعتماد حاصل کرسکے۔ اس طرح گویا مزید 24 ؍ فیصد لوگوں نے ان کے تئیں عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ دوسری لہر کے لیے 27؍ فیصد لوگوں نے بڑے بڑے اجتماعات، بشمول انتخابی جلسوں کو ذمہ دار مانا۔تقریباً 26 فیصد نے کہا کہ یہ کووڈ سے متعلق رہنما خطوط کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تھا ۔ حکومت پر عدم اعتماد کی ایک اور علامت یہ ہے کہ جواب دہندگان میں سے 71 فیصد نے کہا کہ کووڈ 19 سے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 44؍ فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جو صحت کے اس عظیم بحران کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کوتاہی سے منسوب کرتے ہیں ۔

قومی سیاست کے اندر جذباتیت کے غلبہ بھی اس سروے میں سامنے آگیا۔ لوگوں سے جب پوچھا گیا کہ اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے تو سب سے زیادہ 29 فیصد نے بتایا کہ عدالت سے رام مندر کے حق میں فیصلہ کو سب سے بڑی کامیابی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد میں عوام نے مہنگائی اور افراط زر پر قابو پانے میں ناکامی کو حکومت کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا۔ اس کے علاوہ 22 فیصد لوگوں کے نزدیک کشمیر سے دفع 370کا خاتمہ اس حکومت کی دوسری سب سے بڑی کامیابی ہے حالانکہ ان دونوں کا عوام کے بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ عام لوگ ان کے ذریعہ بیوقوف بن جاتے ہیں اس لیے انہیں اچھالا جاتا ہے۔ اس سال تقسیم ہند کے دن کا اہتمام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب عوام سے سوال کیا جاتا ہے ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو ان میں سب سے زیادہ 23 فیصد کورونا کی وباء کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ 19 فیصد کے نزدیک مہنگائی اور افراط زر اہم ترین مسئلہ ہے جبکہ 17 فیصد بیروزگاری کو سب سے بڑی مصیبت سمجھتے ہیں۔ ان سارے محاذ پر حکومت بری طرح ناکام ہوچکی اس کے باوجود وہ جذبا تی مسائل سے بہل جاتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے اس سال کے شروع میں 55 فیصد لوگ اس غلط فہمی کا شکار تھے این ڈی اے سرکار کی حکومت کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بہتری آئی ہےوہ تعداد بھی گھٹ کر اب 34 فیصد پر آگئی ہے یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ فی الحال 34 فیصد یہ اعتراف کرتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حالت خراب ہوئی جبکہ اس طرح سے سوچنے والےکی تعداد سال کے شروع میں صرف 22 فیصد تھی۔ کسانوں کی تحریک جلد ہی ایک سال مکمل کرلے گی مگر اپنے خلاف تمام تر میڈیا ٹرائل کے باوجود وہ رائے عامہ کو متاثر کرنےمیں کامیاب رہی ہے۔ 57؍ فیصد لوگ کسانوں سے متعلق قوانین میں ترمیم چاہتے ہیں لیکن بہری اور اندھی سرکار نہ سنتی اور نہ دیکھتی ہے۔ اس کو انتخاب اور کرسی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

یہ حسن اتفاق ہے جس انتخابی جنون نے بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز پر پہنچایا اب وہی اس کے پیروں کی زنجیر بن چکا ہے۔ وہ خود اپنے دام میں گرفتار ہوچکی ہے ۔ اس کو الیکشن کےسوا کچھ سجھائی نہیں دیتا اس لیے عوامی فلاح و بہبود کی جانب توجہ پوری طرح ہٹ گئی ہے اور یہی وزیر اعظم کی عدم مقبولیت کی سب سے اہم وجہ ہے۔ انحطاط و زوال کا یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو 2024 تک یہ کہاں پہنچے گا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن اس صورتحال میں بی جے پی کے انتخاب جیتنا ناممکن ہوجائے گا یہ بات یقینی ہے۔ خیر ابھی تو سیاسی کھیل کا ہاف ٹائم ہونے والاہے۔ ٹسٹ میچ کی پہلی اننگز میں تو بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے دوسری میں کیا ہوگا یہ وقت بتائے گا۔ ویسے جاتے جاتے اس کی نذر میر کا یہ شعر ہے؎
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
(۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238720 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.