گنگا چوٹی(کشمیر) سے

یہ گنگا چوٹی ہے۔ میرے دائیں بائیں فطرت اور قدرت بکھری پڑی ہے۔قدرت کے لاکھ کرشمے ہیں اور فطرت کی ہزاروں جولانیاں۔ جدھر نظر اٹھائے ادھر حسن خدا وندی نظر نواز ہورہا ہے۔خدا کے ہزاروں رنگ ہے۔ہر رنگ میں کئی رنگ ہیں۔صبغۃ اللہ کی پہچان مشکل ہے مگر معرفت والے پہچان لیتے ہیں۔

سدھن گلی سے گنگا چوٹی تک تقریبا آدھا گھنٹہ کا سفر ہے۔روڈ بہت ہی اچھا ہے۔مہران گاڑی بھی آرام سے جاسکتی ہے اگرچہ بہت ہی چڑھائی ہے۔مظفر آباد سے تقریبا ساٹھ کلومیٹر کی مسافت ہے۔ڈھائی گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ گنگا چوٹی ضلع باغ میں ہے۔باغ سے ڈیڑھ گھنٹہ میں چوٹی کے دامن میں پہنچا جاسکتا ہے۔

گنگا چوٹی کے اک طرف سے ضلع باغ کا پورا نظارہ ہوتا تو دوسری طرف چکار اور مظفر آباد کا منظر دکھائی دیتا ہے۔چوٹی پر ہمہ وقت دھن ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ ابھی بارش ہوگی۔ بادل آرہے ہیں،بادل جارہے ہیں اور اک دم پوری چوٹی پر بادل چھا رہے ہیں۔قدرت منٹوں میں ہزار رنگ بدل دیتی ہے۔ہم اتنی اونچائی پر گئے تھے کہ بادل ہمارے قدموں تلے تھے بلکہ بہت نیچے تھے۔ گنگا چوٹی کے دائیں بائیں چکر لگاتے ہوئے کئی قسم کی جڑی بوٹیاں دیکھی اور سینکڑوں قسم کے پھول بوٹے بھی۔مقامی لوگوں نے ہر قسم کے جانور پال رکھے ہیں جن کی وجہ سے چوٹی کے دامن میں فطری حسن ماند پڑگیا ہے ورنا یہ پھول اور بوٹیاں سبزہ کا مزہ دوبالا کردیتی۔

گنگا چوٹی سے انڈیا کا پہاڑی سلسلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔
گنگا چوٹی میں ہزاروں لوگ تھے۔کہیں پر پنجابی جوڑے بیٹھے تھے تو کہیں پر پٹھان بھائی پشتو گانوں کی دھن میں ڈھانس کررہے تھے۔
خود کشمیریوں کی بڑی تعداد تھی جو فیملی کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ ان سب کے درمیان ایک گلگتی اپنی محبتوں سے سب کو متوجہ کررہا تھا ۔حظ اٹھا رہا تھا۔ہر ایک سے مل رہا تھا اور محبتیں بانٹ رہا تھا ۔اور کہہ رہا تھا۔پاکستان کی شہہ رگ کشمیر ہے اور کشمیر کی شہہ رگ گلگت بلتستان ہے۔اور میں خود "پورا پاکستان ہوں"۔ ہاں میں پاکستان ہوں۔پاکستان اور کشمیر کے پرچم کے درمیان کھڑے ہوکر تصویر کشی کا جو مزہ آیا وہ میں ہی جاتا ہوں۔گنگا چوٹی کے ٹاپ پر دو پرچم کے درمیان پاکستان زندہ کا نعرہ لگاکر حب الوطنی کا اعلان کررہا تھا تو دائیں بائیں بیٹھے سیاح ورطہ حیرت میں مبتلا مجھے دیکھ رہے تھے کہ گلگتی ٹوپی پہنے اس شخص میں کونسی فریفتگی آگئی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیر کی دور دراز چوٹیوں پر بھی باقاعدہ آبادی ہے۔لوگوں نے گھر بنا رکھے ہیں۔ مستقل رہتے ہیں روڈ اور بجلی کی سہولیات وافر ہیں۔گلگت بلستان کے مقابلے میں کشمیر بہت ڈیویلپڈ ہے۔تعلیم، تعمیرات اور بجلی و روڈ کی صورت حال معیاری ہے۔ہر ویلی پر روڈ ہے۔مظفر آباد سے سری نگر تک روڈ انتہائی شاندار ہے۔

گنگا چوٹی کے دامن میں ،چاروں طرف سینکڑوں گھر ہیں جہاں لوگ مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔مقامی لوگوں سے گپ شپ لگائی بہت مزہ ایا۔وہاں دیسی لسی پینے کو جی چاہا مگر میسر نہ ہوسکی۔

گنگا چوٹی کے دامن میں کیمپنگ کی بہترین جگہ ہے۔بڑے بڑے سبزے ہیں اور پھیلی ہوئی جگہیں ہیں۔۔ٹینٹ مناسب کرایہ پر مل جاتے ہیں۔جہاں لوگ بے خوف رات گزارتے ہیں۔بڑی بڑی فیلمز کے ساتھ گروپس موجود تھے۔درجہ حرارت نارمل ہے۔سردی کا احساس نہیں ہوتا ہے اور گرمی بھی نہیں لگتی۔
درجنوں پریمی جوڑے گنگا چوٹی میں چڑھ رہے تھے اور ساتھ گنگنا رہے تھے۔ تصاویر کشی ہورہی تھے۔ پریمی جوڑوں کی اٹھکیلیوں میں محبت کے ہزار زوایے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کیفیات دیکھ کر دل دھڑک دھڑک بیٹھتے جارہا رہا تھا۔یہ دل بھی بڑا کمبخت ہے۔دھڑکے بغیر رہ نہیں سکتا۔اس نے ایسے مواقعوں پر بہرحال دھڑکنا ہوتا ہے۔

گنگا چوٹی کی بلندیوں میں اپنے دوست ذیشان پنجوانی کے ساتھ راز و نیاز کی بہت سی باتیں کی وہ بھی باذوق آدمی ہے۔چوٹی کے سبزوں اور ڈھلوانوں چڑھتے ہوئے گنگنا رہے ہوتے تھے ۔نجم العارفین اپنی اہلیہ کیساتھ لائیو کال میں مصروف تھے سینکڑوں میل دور اپنی زوجہ محترمہ اور بچوں کو بھی حسین وادیوں کی لطافتوں میں شامل کررہے تھے ۔ہمارے میزبان فیصل لطیف بھائی اپنے معصوم بچے کو پیار کررہے تھے اور گہری سوچوں میں مگن تھے شاید کسی کی کمی محسوس کررہے تھے۔طالب علم بلال ہماری کیفیات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کررہے تھے۔ہمارے دیگر احباب ظہیر،جواد اور آصف ادھر ادھر اٹھکیلیاں کرنے کے لئے چوٹی پر سے ،ہم سے کھسک گئے تھے۔معلوم نہیں وہ کہاں تھے ۔
بہرحال گنگا چوٹی کے حسن کو محسوس کیا جاسکتا ہے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔کچھ جگہیں ، لمحات اور نظارے صرف اور صرف محسوس کیے جاسکتے ہیں۔محسوسات کی بھی اپنی دنیا ہوتی ہے۔اور میں اسی محسوسات کی دنیا میں زندگی گزار رہا ہوتا ہوں۔

بہر صورت میں اپنی تمام تر جسارتوں اور بصارتوں کے ساتھ گنگا چوٹی کی لطافتوں میں کھو چکا تھا ۔دل میں خیال آرہا تھا 'تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم" مگر کوئی ہوتا تو چلے آتا نا۔

شام 7بجے ہم گنگا چوٹی سے واپس ہٹیاں گوہراباد کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ادھا راستہ کاٹا ہے۔ہم رواں دواں ہے۔تیز ترین بارش ہورہی ہے۔روڈ میں پانی کے نالے چل رہے ہیں اور گاڑی جب سپیڈ لگاتی تو پانی کے فوارے بن رہے ہوتے اور اسی مخموری کیفت میں گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر آپ کے لئے یہ چند خاطرات لکھ کر شیئر کررہا ہوں۔بارش اتنی تیز ہے کہ شیشے سے چھینٹیں مجھ پر پڑ رہی ہے۔استاد کو گاڑی چلانے میں دشواری ہورہی ہے۔روڈ پر بہت سارا سیلاب بنا پھر رہا ہے۔ مگر وہ اللہ کے آسرا پر بھاگم بھاگ گاڑی بھگا رہے ہیں۔یقینا اترائی پر سخت بارش میں گاڑی چلانا بہت مشکل ہے مگر اس کا جو لطف ہم محسوس کررہے وہ بہت شاندار ہے۔

ڈائیور لوگ بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔وہ اسی کے بادشاہ ہوتے ہیں اور اسی دنیا کے خادم بھی۔اتنا زبردست Song لگایاہوا ہے کہ کیا کہوں ؟ چلتی گاڑی میں ہاتھ کی انگلیوں سے لکھ رہا ہوں ،کانوں سے Song سن رہا ہوں اور آنکھوں سے بارش کا نظارہ کررہا ہوں ۔دوستو! مزید مفصل نہیں لکھ سکتا۔مجھے بارش اور گانے کے مزے لینے دیں۔اور استاد کے سوالوں کے جوابات بھی۔

احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 385641 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More