کفر بالطاغوت

 اللہ تعالٰی تم پر رحم کرے یہ بھی جان لو کہ وہ فرض اولین جو اللہ تعالٰی نے ہر آدمی پر عائد کیا ہے وہ ہے کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ۔۔۔۔یعنی انسان طاغوت سے کفر کرے اور اللہ سے ایمان کا ناطہ جوڑدے۔۔۔۔ اسکی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے: " اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہینں اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے-" (البقرہ:256) پھر جہان تک اس بات کا تعلق ہے کہ طاغوت سے کفر کرنے کی واقعی کیا صورت ہو تو وہ یہ ہے کہ تم غیر اللہ کی عبادت اور بندگی کو قطعی باطل سمجھو، غیر اللہ کی بندگی سے دستکش ہوجاؤ، اس سے بغض رکھنے لگو اور جو غیر اللہ کی بندگی کرتے ہوں ان کو کافر سمجھو، اور ان سے دشمنی اور بیر رکھنے لگو- اب اس کے بعد جو ایمان باللہ ہے تو اس کی واقعی صورت یہ ہے کہ تم یہ عقیدہ رکھو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالٰی اور صرف اللہ تعالٰی ہی الہ اور معبود ہے کسی اور کو یہ بات سزاوار نہیں، پھر ہر قسم کی بندگی اور عبادت ایک اللہ کے لیے خالص کردو اور اس کے ماسوا ہر معبود سے ہر قسم کی بندگی او رعبادت کی صاف نفی کرنے لگو، اہل توحید سے محبت اور تعلق اور موالات کا رشتہ قائم کرلو اور اہل شرک سے بغض و نفرت اور دشمنی اپنالو- یہ وہ ملت ابراہیم ہے جس سے دل پھیرنے والا انسان اپنے آپ ہی کو بیوقوف بناتا ہے – یہ وہ اسوہ اور نمونہ ہے جسکو اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں قابل اتباع ٹھرایا ہے- " تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیوار ہیں- ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ-" (الممتحنۃ:4) طاغوت کا مفھوم: طاغوت کا لفظ عام ہے سو ہر وہ ہستی جو اللہ کے سوا پوجی جاتی ہے اور وہ اپنی اس عبادت اور بندگی پر راضی ہے، چاہے وہ ہستی معبود ہو چاہے پیشوا (متبوع) اور چاہے مطاع یعنی اطاعت سے بے نیاز اسکو لائق عبادت سمجھا جاتا ہو طاغوت کہلاتی ہے- طاغوت تو یوں بہت ہیں مگر ان کے سرغنے پانچ ہیں- طاغوت کا پہلا سرغنہ: شیطان ہے جو کہ غیراللہ کی عبادت اور بندگی کا اصل داعی ہے اسکی دلیل قرآن مجید کی کہ آیت ہے: " اے بنی آدم کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے" ( یسین:60) طاغوت کا دوسرا سرغنہ: ظالم اور جابر حکمران ہے جو اللہ تعالٰی کے احکام کی جگہ کوئی اور حکم یا قانون چلاتا اور لاگو کرتا ہے- اس کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے: " اے نبی ۖ تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لاتف ہین اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پو جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور لے جانا چاہتا ہے-" (النساء:60) طاغوت کا تیسرا سرغنہ: وہ شخص ہے ہے جو اللہ تعالٰی کے نازل کردہ دین ( ما انزل اللہ) کے بغیر فیصلہ کرتا ہے اس کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے: " جو لوگ اللہ تعالٰی کے اتارے ہوئے (دین) کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہ ہی کافر ہیں-" (المائدہ:44) طاغوت کا چوتھا سرغنہ: وہ شخص ہے جو اللہ کے علاوہ علم غیب کا دعویٰ کرتا ہو اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے: " وہ عالم غیب ہے اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے ان سے (غیب کی خبر دینے کیلئے) پسند کرلیا ہو تو اس کے آگے پیچھے وہ محافظ لگادیتا ہے-" (الجن:26-27) " اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا- بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے واقف ہے- درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جسے اس کا علم نہ ہو- خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے-" (الانعام: 59) طاغوت کا پانچواں سرغنہ: وہ شخص ہے جس کی پوجا پاٹ ہوتی ہو اور وہ اس پوجا پاٹ پر رضامند ہو-

اس کی دلیل قرآن کی یہ دلیل ہے: " اور جو ان میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک الہ ہوں تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں گے ہمارے ہاں ظالموں کا یہ ہی بدلا ہے-" (الانبیاء:29) اور یہ بات تو خوب اچھی طرح جان لو کہ انسان جب تک طاغوت کے ساتھ کفر نہ کرے تب تک وہ اللہ کے ساتھ مومن نہیں ہوسکتا اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے: " اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے-" (البقرہ:256) اقتیاس: طاغوت کا مفھوم اور اس کے سرغنے از: امام محمد بن عبدالوہاب رح نوٹ: طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو جائز حق سے تجاوز کرگیا ہو- قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے آقائی اور خداوندی کا دم بھرے اور اللہ کے بندوں سے اپنی بندگی کروائے- اللہ کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے 3 مرتبے ہیں- 1/ بندہ اصولن اسکی فرمانبرداری ہی ک وحق مانے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے- 2/ بندہ اس کی فرمانبرداری سے اصولن منحرف ہوکر یا تو خودمختیار بن جائے یا اس کے سوا اور بندگی کرنے لگے یا کفر ہے- 3/ بندہ مالک (اللہ) سے باغی ہو اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے- اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اس کا نام طاغوت ہے او کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو- تفہیم القرآن: ج 1- 196 از مولانا مودودی رح)
Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 47989 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.