کراچی دہشت گردی کے حصار میں

آج ایک مر تبہ پھر شہر کر اچی کی گلیاں ، سڑکیں ، با زار اور گھر دو دیر ینہ دشمنوں کی خون آشام جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہیں جہا ں ہر طر ف خوف اور قانو نیت کا راج ہے گو شتہ پانچ روز سے شہر کر اچی اور بلخصو ص او رنگی ٹاون اور قصبہ کا لو نی شر پسندوں کے ہا تھو ں یر غما ل بنا ہو ا ہے ٹیلی وژن اسکر ین پر لو گ انصاف اور امن بھیک ما نگ رہے ہیں بچے چار روز سے بھو ک کی دھا ئی دے رہے ہیں بزرگ شہری رو رو کر اپنے لٹنے کی داستا نیں سنا رہے ہیں مگر ان کی فر یا د سننے والا کو ئی نہیں سا نحہ علی گڑھ دھر ایا جا رہا ہے ان دہشت گر دوں کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے مطلو بہ ٹا رگٹ پورا ہو نے پر ہی قا نو ن نا فذ کر نے وا لے اداروں کو اپنے اختیا رات کے استعما ل کی اجا زت دی جا ئے گی اس خو نریز ی نے تو گجرات ،بمبئی اور گو جرہ کے فسا دات کو بھی ہیچ کر دیا ہے وہا ں کے فسادات کی خبر سن کر یہ تو معلو م ہو تا تھا کہ ہندو مسلم فسادات ہیں لیکن یہاں کیاکر یں کہ لڑنے وا لے دونو ں جانب مسلما ن ہو نے کے دعوے دار ہیں مسلما نوں نے آزاد ی کے لیے ایک طو یل جنگ لڑی جب آزادی ملی تو ان کا اپنا جسم لہو لہو تھا تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکا نی اور اسکے دکھ ان لو گو ں نے سہے بر صغیر کی تقسیم کے وقت یہ مژد ہ سنا یا گیا کہ مسلما ن اپنے نئے ملک میں آرام اور چین کی زندگی بسر کریں گے ملک تقسیم ہو ا تو آرام خا ک ملتا تقسیم در تقسیم کا پیما نہ بڑھتا گیا زبا ن ، قومیت ، نسل ، فرقہ، مذ ہب ، امیر غریب ، جاگیر دار مز ارع ، سرما یہ دار مزدور اور زمیندار کمی کمین غرض ہر الفا ظ کی ضد حقیقت بن کر اس ملک کے عوام کا لہو چو سنے اس کی جڑو ں کو کھو کھلا کر نے کو حا ضر و نا ظر ہو گئی ۔ دہشت گر دی کے حوالے سے کر اچی میں گز شتہ کئی بر سوں سے وقفے وقفے سے چلنے وا لی اس افتاد نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن ! اور نگی ٹا ﺅ ن و قصبہ کا لو نی کے مکین جس عذاب میں مبتلا ہے ان کی جسما نی و اذہنی اذیت کا اندازہ ہم سب اپنے گھرو ں میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے پا نچ دنو ں سے پورا علا قہ قانون نا فذ کر نے والے ادار وں کی پہنچ سے دور ہے علا قہ مکین محصور ہیں بچے دودھ کے لیے بلک رہے ہیں تو بیما ر دوا کے لیے پر یشا ن ہیں چاروں جا نب سے اسٹیٹ فا ئر کی آوز یں ہیں جو کسی کو بھی ٹا رگٹ کر رہی ہیں لو گ اپنے پیا روں کی لا شیں اٹھا نے کے لیے گلی میں بھی نہیں جاسکتے بے گو رو کفن لا شیں پڑ ی ہیں زخمیو ں کو ہسپتال لے جانے کی کو ئی سبیل نہیں علا قہ مکین خوف ود ہشت سے کئی دن سے سوئے نہیں کہ
یہ شب شہر چکا ں جا گتے رہنا ۔۔۔ جینا ہے تو خدام جہا ں جا گتے رہنا
اک چا پ ہے تا ریک گزر گا ہ میں ہشیا ر ۔۔۔ اک سایہ ہے دیو ار پہ جا گتے رہنا
پھر محتسب شہر ہے آما دہ شب خون ۔۔۔ اقطا ب خرابا ت ٍ مغاں جا گتے رہنا

کیا ہم اسی نبیﷺ ؑ کے ما ننے وا لے ہیں جنھوں نے فر ما یا تھا کہ ” مسلما ن وہ ہے جس کے ہا تھ اور زبا ن سے دوسرے مسلما ن محفو ظ ہو ں “پیا رے نبی ﷺ نے یہ بھی فر ما یا ”تم میں ایک زما نہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتو ل کو خبر نہ ہو گی کہ اسے کیو ں قتل کیا گیا “آج ایسے ہی زما نے سے ہم گز ر ر ہے ہیں‘یہ ہمارے لیے کسی عذا ب سے کم نہیں جب انسان کے دلو ں سے انسا ن کا حترام اٹھ جا ئے تو سمجھ لیجیے کہ عذا ب کامو سم آن پہنچا ایک ہی ملک کے ایک ہی مذ ہب کے پیرو کا ر ایک ہی ملت کے امین ایک دوسرے کو خو فزدہ کر یں یا ان سے خو ف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب کاموسم اور کیا ہو سکتا ہے ایک ہی وطن کے لو گ دوسر ے کو بر ی نگا ہو ں سے دیکھیں کو ئی کسی کا پر سان حا ل نہ ہو تو با قی کیا رہ جا تا ہے انسان اپنے ہی دیس میں خو دکو پر دیسی محسو س کر نے لگے تو عذا ب ہے کسی سیا نے نے کہا ہے کہ ”جب زمانہ امن کا ہو اور حا لا ت جنگ جیسے ہو ں تو سمجھو عذاب ہے “آنکھیں نم ہو ں ارد گرد جشن منا نے وا لے در ند ے ہو ں، دلو ں سے مروت نکل جا ئے ایک دوسرے کا احساس ختم ہو جا ئے ؟کیا ہم ظا لم قو م ہیں ؟کیا ہم پرکو ئی عذا ب نہیں آئے گا یو م حسا ب نہیں آئے گا مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم واقعی ظالم پا کستا نی بے حس قوم ہیں ہما ری آنکھو ں پر نفرت کی پٹی بند ھی ہو ئی ہے کیا ہم نے کبھی یہ سو چا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پا کستا ن بنا رہے ہیں؟ ہم انھیں کیا جواب دیں گے ؟ہم نسل، ز با ں علا قے کی بنیا دپر کب تک خون بہا تے رہیں گے ہم یہ کیو ں بھو ل جا تے ہیں کہ جب تعصب کی ہوا چلتی ہے تو پھر انسانیت کو چ کر جا تی ہے کراچی کے با رے میں اب یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسے مختلف لسا نی اور قومیت کے در میا ن تقسیم کر دیا گیا ہے قبضے کی اس جنگ میں ایک قو میت کے فرد کو دوسرے علا قے میں جا نے کی اجا زت نہیں یا اسکے لیے خطرنا ک ہے کر اچی ایک آتش فشا ں کاروپ دھا ر چکا ہے جس میں وقفے وقفے سے لا وا ابل کر با ہر آتا ہے تبا ہی مچا تا ہے جا نو ں کا نظرانہ و صو ل کر تا ہے اور خا موش ہو جا تا ہے ۔

گز شتہ پا نچ دنو ں نوے سے زائد شہری جا نوں سے ہا تھ دھو بیٹھے کیا یہ المیہ نہیں ؟کچھ دن امن رہتا ہے پھر وہی بگڑتی صو رتحا ل ، روز انہ گھرو ں سے کا م پر نکلنے والوں کو کو ئی امید نہیں ہوتی کہ واپس صحیح سلا مت آئیں گے یا خدا نخوستہ کسی ان جا نی گو لی کا شکا ر ہو جا ئیں گے کہیں سے کو ئی انسا ن نما حیوا ن وارد ہو کئی گھرو ں کے چشم وچرا غ گل کر کے غا ئب ہو جا تے ہیں، پھر لا کھ کو شش کر یں قا تلو ں کے با رے میں کچھ پتہ نہیں لگتا ۔خانہ پر ی کے لیے بے گنا ہ لو گ پکڑے جا تے ہیں قا نو ن نا فذ کر نے والے الگ بے بس ہیں گو یا ا پنے ہی ملک میں اپنے ہی لو گو ں کے ہا تھو ں ایک دوسر ے کے خو ن سے ہا تھ رنگے جا رہے ہیں ۔درجنو ں لو گو ں کی ہلا کتو ں کے بعد سرکا ری مشنری حرکت میں آتی ہے تصفیہ کے لیے پا رٹیو ں کو ایک جگہ جمع کیاجاتا ہے امن مار چ کیا جا تا ہے وعدے وعید دعوے کیے جا تے ہیں سیا ست دا ن اپنی پا رٹی کی مظلو میت میں نعر ہ لگاتے ہیں کہ یہ سیا سی نعرے ان کی سیا سی اقتدار کو مستحکم کر تے ہیں ان کے وسائل کا رو بار چلتا ہے ان کی فتح کا پر چم بلندہو تا ہے اور ہماری معصوم عوا م نہیں جا نتے کہ جس جگہ اور جہا ں ان کے مفا دات وا بستہ ہوں وہ اپنی قوم کو قر بانی کے لیے آگے کر دیتے ہیں یہ معصو م عوام اپنی قومیت کے زعم میں ما ری جا تی ہے ۔ ہم سب ایک پا کستا نی شہری ہیں جو صدیو ں سے مختلف تہذ یبو ں کا گہوا راہ ہے،جہا ں تما م قو میت اپنا ایک ا علٰی مقام رکھتی ہے اس لسا نی فسادات میں ہم اپنے ہی مسلما ن بھا ئی خو ن بہا رہے ہیں ایسی خطر نا ک صو رتحا ل سے نبٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اصل و جو ہا ت کو تلا ش کیا جا ئے جب تک اصل مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا یہ سلسلہ جا ری رہے گا ۔

کر اچی میں دہشت گر دی کے واقعات دن بد ن کہیں زیا دہ خو فنا ک کہیں زیا دہ خطر ناک صور تحا ل اختیا ر کر تے جارہے ہیں کر اچی جو کبھی رو شنیو ں کا شہر کہلا تا تھا ٓجس کی راتیں بھی دن کے اجا لو ں کی ما نند خو بصورت اور رو شن تھیں آج اند ھیر نگری میں تبد یل ہو چکا ہے ر وزانہ درجنو ں شہری اس و حشیا نہ دہشت گر دی کا شکا ر ہو رہے ہیں اس کھیل میں اسبا ب چو نکہ غیر وا ضح اورمبہم ہیں اس لیے کو ئی سرا غ نہیں مل سکا ہے کہ اسکے پیچھے کیا عو ا مل کا ر فرما ہیں یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے قا نو ن نا فذ کرنے وا لے ادارے اس قتل و غا ر ت گری کے عوا مل سے آگا ہ ہیں مگر زبا ن بند رکھنے پر مجبور ہیں ۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.