یدی یورپا: اپنی خوشی کے ساتھ میرا غم نباہ دو

کرناٹک میں یدی یورپاّ کو درمیان میں ہٹانے پر انہیں لوگوں کو تعجب ہوا جو ریاست میں عرصۂ دراز سے جاری اقتدار کی چھینا جھپٹی سے واقف نہیں ہیں ۔ گزشتہ 43برسوں میں صرف آنجہانی ڈی دیوراج ارس اور سدارامیا اپنی میعاد کے پانچ سال مکمل کرسکے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ سدارامیا کی طرح دیوراج ارس کا آبائی وطن بھی میسور ہے۔دیوراج ارس 1972سے 1977 تک اقتدار پر فائز رہے۔ آگے چل کر 1980 میں انہیں پارٹی سے معطل کردیا گیا اس لیے وہ اپنی دوسری میعاد مکمل نہیں کرسکے اور ان کی جگہ آر گنڈو راؤ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ۔ اس کے بعد 41سالوں میں 22 حکومتیں اقتدار پر آئیں اور 4مرتبہ صدر راج نافذ کرنا پڑا ۔کرناٹک کی غیر مستحکم سرکاروں میں ایس ایم کرشنا کو 1999سے 2004 کے درمیان 4سال 7 مہینے حکومت کرنے کا موقع ملا مگر اسمبلی کی میعاد مکمل ہونے کے سبب وہ بھی 5ماہ قبل رخصت ہوگئے۔

آرگنڈو راؤ کی قیادت والی حکومت صرف تین سال یعنی جنوری 1980تا جنوری 1983 تک چل سکی ۔ اس کے بعد جنتا پارٹی کی کرناٹک میں آمد ہوئی اور 1983-1988 تک کے مختصر عرصے میں آنجہانی رام کرشنا ہیگڈے مسلسل تین مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988سے 1989 تک موجودہ وزیر اعلیٰ کے والد ایس آر بومائی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے ۔ان کے بعد کانگریس کی واپسی ہوئی اور نومبر 1989 سے اکتوبر 1990تک ویر یندر پاٹل کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔ ان کے بعد اکتوبر 1990 سے نومبر 1992 تک ایس بنگارپا وزیر اعلیٰ رہے اور نومبر 1992 سے دسمبر 1994 تک ایم ویرپا موئیلی نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ۔دسمبر 1994 سے مئی 1996تک جنتا دل کے ایچ ڈی دیوے گوڈا ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے جو وزیر اعظم بن کر دہلی چلے گئے ۔ اس کے جانشین جے ایچ پٹیل کو مئی 1996 سے اکتوبر 1999 تک وزیر اعلیٰ کی کرسی اقتدار پر فائز رہنے کا موقع ملا لیکن پھر کانگریس لوٹ آئی اور 1999 سے 2004 تک کے لیے ایس ایم کرشنا وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے ۔

اس کے بعد ریاست میں مخلوط حکومتوں کے دور کا آغاز ہوا۔ اس میں سب سے پہلے کانگریس کے این دھرم سنگھ نے جنتا دل کے ساتھ مل کر مئی 2004 سے جنوری 2006 تک حکومت چلائی مگر فروری 2006 میں ایچ ڈی کمار سوامی کی حرص و ہوس نے انہیں بی جے پی کی مدد سے ریاست کے وزیر اعلیٰ بننے پر مجبور کیا ۔ اس طرح کسی جنوبی ہند کی ریاست میں پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو قدم جمانے کا موقع ملا ۔ بی جے پی نے اکتوبر 2007کمار سوامی کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور 12 نومبر 2007 کو پہلی بار یدی یورپاّ نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے لیا۔ یدی یورپاّ چونکہ اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہےاس لیے ایک ہفتہ بعد انہیں استعفیٰ دینا پڑا ۔ مئی 2008 تک ریاست میں صدر راج نافذ رہا مگر جب انتخاب ہوا تو بی جے پی اقتدار میں آگئی اور مئی 2008 میں یدی یورپا نے وزیر اعلیٰ کے طور پر پھر سے حلف لے لیا ۔ انہوں نے جولائی 2011تک وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمت انجام دی مگر بدعنوانیوں کے الزام میں پھنس کر جیل جانے کے سبب سنگھ کایہ سنسکاری رہنما اقتدار سے محروم ہوگیا۔ اگست 2014 میں سدانند گوڈا کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور وہ بھی جولائی 2012کو عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ان کے بعد جولائی 2012 میں جگدیش شٹار وزیر اعلیٰ بنے اور مئی 2013 تک اقتدار پر فائز رہے۔ اس طرح بی جے پی نے ایک مدت کار میں یکے بعد دیگرے تین وزیر اعلیٰ بدلےمگر انتخاب نہیں جیت سکی۔

مئی 2013 میں کانگریس کے سدارامیا نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی اور پورے پانچ سال تک ایک مستحکم حکومت فراہم کی مگر انتخاب ہار گئے ۔ 2018کے انتخاب میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر تو ابھری مگر وہ اکثریت سے محروم تھی اس کے باوجود یدی یورپاّ نے پہلے کی طرح حلف اٹھا لیا ۔ ان کو امید تھی کہ وہ مخالف ارکان اسمبلی کو خرید کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر عدالت عظمیٰ نے مدت کو مختصر کرکے ان کا کھیل بگاڑ دیا اور وہ ڈھائی دن کے بعد ایک جذباتی تقریر کرکے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد کانگریس نے ایچ ڈی کمار سوامی کی حمایت کا اعلان کیا اور وہ دوسری بار وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ یہ سرکار زیادہ دن نہیں چل سکی اور29 جولائی 2019 کو بی جے پی نے کانگریسی اور جنتا دل ایس کے ارکان کو توڑ کر دوبارہ یدی یورپاّ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز کردیا ۔ یدی یورپاّ کو چوتھی بار وزیر اعلیٰ بننے میں دورکاوٹوں کا سامنا تھا۔ اول تو ان پر بدعنوانی کا داغ تھا دوسرے ان کی عمر 76 سال تھی اس لیے ہائی کمان کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتا تھا مگر اس کی نہیں چلی اور وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔

فی الحال یدی یورپاّ کو ہٹانے میں آر ایس ایس کے رہنما بی ایل سنتوش کا سب سے بڑا ہاتھ ہے اس لیے امید کی جارہی تھی کہ کسی خاکی نیکر دھاری برہمن کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپی جائے گی لیکن بی جے پی لنگایت سماج کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکی اور ایک ایسے فرد کو وزیر اعلیٰ بنانے پر مجبور ہوگئی جس نے کبھی سنگھ کی شاکھا میں قدم نہیں رکھا ۔ یہ ہے سنگھ کے بلند بانگ دعووں کی حقیقت کہ جب عمل کا وقت آتا ہے تو اس کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بسوراج بومئی کا جنم سوشلزم پر یقین رکھنے والے ایس آر بومئی کے گھر میں ہوا۔ ان کے والد جنتا پارٹی کے ٹکٹ پررکن اسمبلی اور وزیر اعلیٰ بنے۔ بسوراج کی تربیت رام کرشن ہیگڈے اور دیوے گوڑا جیسے سنگھ مخالف رہنماوں کے زیر سایہ ہوئی ۔ وہ چونکہ پیشے سے انجنیر ہیں اس لیے انہوں نے ابتداء میں ٹاٹا گروپ کے اندر ملازمت اختیارکی۔

2008 میں جب جنتا پارٹی ٹوٹ گئی اور اس وقت تک رام کرشن ہیگڈے، ایس آر بومئی اور جے ایچ پٹیل جیسے قد آور رہنما فوت ہوچکے تھے۔ بسوراج کی سیاسی کشتی ہچکولے کھارہی تھی ایسے ڈوبتے کو یدی یورپاّ کے تنکے کا سہارا ملا اور وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ بسوراج بومئی کو وزیر اعلیٰ بناکر بی جے پی اعلیٰ کمان نے نہ صرف یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سنگھ کی شاکھا سے باصلاحیت سیاستداں پیدا نہیں ہوتے بلکہ باہر سے برآمد کرنے پڑتے ہیں ۔ بی جے پی والے بڑی شان سے کانگریس اور جنتا دل (ایس) پر موروثی سیاست چلانے کا الزام لگاتے تھے لیکن بسوراج بومئی جیسے سابق وزیر اعلیٰ کے بیٹے کو جو بی جے پی کا کٹر مخالف تھا انہوں نے بدترین موروثیت کا مظاہرہ کردیا ۔ بسوراج بومئی کا وزیر اعلیٰ بنا یا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب بھی ہندوتوا کے نظریہ ذات پات کی سیاست غالب ہےاور سنگھ پریوار سو سال کی محنت کے باوجود اس پر قابو پانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ سنگھ نے جب دیکھا کہ وہ ذات پات کی دیوار گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو اس نے ہندوتوا کو کنارے رکھ اسی کے سہارے سیاست بازی شروع کردی ۔ زمانے کو بدلنے کا نعرہ لگاکر تحریک چلانے والوں کا خود بدل جانا ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔

2019 میں یدی یورپاّ کے آگے بی جے پی ہائی کمان کے جھکنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ لنگایت سماج کے قدآور رہنما تھے جن کی آبادی 17 فیصد ہے اور وہ تقریباً100 نشستوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ان کے باغیانہ تیور تھے ۔ ان کو جب پہلی مرتبہ بی جے پی نے 31 جولائی 2011 کو ہٹایا گیا تھا تو انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے کر 30 نومبر 2012 کو کرناٹک جنتا پارٹی بنا ڈالی ۔ یہ بھی بی جے پی روایت ہے جس کا ارتکاب کیشو بھائی پٹیل ، اوما بھارتی اورکلیان سنگھ کرچکے تھے ۔ یہ حسن اتفاق کو ان سب کو پارٹی نے واپس لے لیا اور وہ بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوٹ آئے۔ یدورپاّ کی پارٹی نے بی جے پی کو ناکوں چنے چبوا دیئے اور جہاں اس کے 110 ارکان اسمبلی ہوا کرتے تھے وہ گھٹ کر 40 پر آگئے۔ ووٹ کا تناسب دیکھیں تو وہ 33.86 فیصد سے گھٹ کر 19.95 فیصد پر آگیا جبکہ کرناٹک جنتا پارٹی کو 10 فیصد ووٹ ملے ۔ اس طرح بی جے پی صوبائی اقتدار سے محروم ہوگئی۔
2014 کے قومی انتخاب سے قبل بی جے پی نے یدی یورپاّ کو پھر سے پارٹی میں شامل کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمانی الیکشن میں اس نے 28 میں سے 17 نشستوں پر کامیابی درج کرائی ۔ یہ یدی یورپاّ کا کرشمہ تھا اس لیے عارضی طور پر ان کو برداشت کرلیا گیا لیکن اب موقع دیکھ کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کے انہیں چلتا کردیا گیا ۔ اب یہ حالت ہے کہ یدی یورپاّ کو بادلِ نخواستہ اپنے جانشین بسو راج بومئی کا نام پیش کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نےبومئی کی خوب تعریف و توصیف بھی کی مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب وہ بی جے پی سے بغاوت کرکے الگ ہوگئے تھےتو بومئی نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت یدی یورپاّ نے کہا تھا کہ وہ(بومئی) شش و پنچ میں رہے اور بالآخر نہ صرف خود ساتھ نہیں آئے بلکہ دوسروں کو بھی روکا۔ انہوں نے مجھے ایک طرح کا دھوکہ دیا اور پہلے نمبر کے غدار ہیں ۔ وقت وقت کی بات ہے یدی یورپاّ نے اپنی پارٹی سے غداری کرتے ہوئے ساتھ نہ آنے والے کو کبھی غدار کہا تھا مگر اب ان کو اپنا جانشین بناپڑا ۔ اس وقت بسوراج بومئی اور بی جے پی ہائی کمان تو بہت خوش ہے مگر مگر یدی یورپاّ دل سے غمگین ہونے کے باوجود مسکرانے پر مجبور ہیں۔ ان کی اس حالت زار پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎
اپنی خوشی کے ساتھ میرا غم نباہ دو
اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑیں

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1235504 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.