کھول آنکھ، کراچی کو مری جان ذرا دیکھ

کراچی نے پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں کا سا مزاج پایا ہے، یعنی بڑھتا ہی جا رہا ہے اور کسی کے قابو میں آنے کے لیے رضامند نہیں! کراچی کی آبادی بجٹ خسارے کی طرح بڑھ رہی ہے اور اِس کا مزاج بہت حد تک اڑیل بھینسے جیسا ہوتا جارہا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ شہر بڑا ہوگیا ہے اور خوف کے مارے لوگ چھوٹے رہ گئے ہیں! شہر کا حال یہ ہے کہ ایک کونے سے دوسرے کونے میں جانے کو سیر سپاٹے سے تعبیر کیا جانے لگا ہے! بہت سے لوگ گھر والوں کے ساتھ آؤٹ ڈور کے لیے نکلتے ہیں اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر کرکے واپس آ جاتے ہیں اور اہل خانہ بھی خوش ہولیتے ہیں کہ کئی شہروں کی سیر کرلی! اور اگر حالات خراب ہوں تو یہی سفر مہم جوئی کے مرتبے پر بھی فائز ہو جاتا ہے! جب سے کراچی کے حالات کی خرابی مستقل ہوئی ہے، لوگ اپنے گھروں ہی کو دُنیا سمجھنے لگے ہیں اور کمرے سے نکل کر برآمدے میں کچھ دیر بیٹھنے کو بھی شجاعت گردانا جانے لگا ہے! مگر صاحب! یہ تو سراسر تنگ نظری ہے۔ جس نے یہ کائنات بنائی ہے اُس نے کراچی کی شکل میں ایک انوکھا گورکھ دھندا پیدا کیا ہے، ایک رونق میلہ سجایا ہے اور ہم اُسے دیکھنے سے بھی کترا رہے ہیں! اِسے سراسر بے ذوقی نہ سمجھا جائے تو کیا سمجھا جائے؟ علامہ اقبال نے کہا تھا
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ

اگر آپ اِس شعر میں دی گئی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کراچی کو دیکھیں تو آنکھ بس کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں! پھر کچھ اور دیکھنے کی تاب کم از کم آنکھوں میں تو باقی نہیں رہتی!

جس طرح بعض دکانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہمارا شربت نہ پیا تو کچھ نہ پیا، ہمارا حلیم نہ کھایا تو کچھ نہ کھایا بالکل اُسی طور آپ چاہے پوری دُنیا کی سیر کرلیں، لیکن اگر کراچی کے فٹ پاتھوں پر مٹر گشت کرنا نصیب نہیں ہوا تو سمجھ لیجیے کہ یہ جنم تو ”سَفَل“ نہ ہوسکے گا! کائنات کی کون سی چیز ہے جو کراچی میں نہیں اور کراچی میں کون اور کیا ہے جو فٹ پاتھوں پر جلوہ افروز نہیں۔ سارے جہاں کی نعمتیں کراچی میں اِس طرح فروخت ہو رہی ہیں جیسے کہیں اور اِن کے قدر دان ہیں ہی نہیں۔

بعض مقامات پر 80 سالہ سنیاسی بابا کچھ اِس طور لیٹے پائے جاتے ہیں گویا ہمالیہ کی تِرائی کے طویل اور جاں گسل سفر کے بعد تکان یہیں پہنچ کر اُتاری جارہی ہے۔ اِن بزرگوں کے آرام میں خلل نہ پڑے، اِس خیال سے لوگ اپنی گاڑیوں بھی گھماکر نکالتے ہیں! اِن سنیاسی باباؤں سے دو گھڑی بات کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر انوکھا تجربہ قدرت نے اِنہی کے لیے رکھ چھوڑا تھا! چند لمحوں کی گفتگو میں یہ آپ کو اپنا ایسا گرویدہ کرلیں گے کہ پھر چائے پراٹھے کے پیسے آپ ہی دیں گے اور بخوشی دیں گے! ثابت ہوا کہ ہمالیہ کی وادیوں اور گھاٹیوں سے ہوکر آنے والے کم از کم اِتنا ہنر تو جانتے ہی ہیں کہ ناشتے یا کھانے کا بل مد ِمقابل سے دِلوائیں! آج کی دنیا میں اگر تپسیا اِس حد تک بھی بار آور ثابت ہو تو سودا بُرا نہیں!

اگر آپ بیمار ہیں تو کسی معالج کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے، فٹ پاتھ پر آپ کی خدمت کے لیے لوگ بیٹھے ہیں جو ہمالیہ کی بلندیوں پر پائی جانے والی جڑی بوٹیاں آپ ہی کے لیے تو لائے ہیں! بہت سے لوگ عجلت پسند مزاج کے باعث غلط نتائج اخذ کر بیٹھتے ہیں۔ اگر کسی فٹ پاتھی سنیاسی بابا کی کوئی دوا فوری اثر نہ دکھائے تو اس کے بارے میں طرح طرح کے گمان دلوں میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ کراچی میں سڑک کے کنارے فروخت ہونے والی ہر دوا کم از کم دس بارہ بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے ہوتی ہے۔ ایک آدھ بیماری کو رفع کرنا ان ادویہ کی شان کے خلاف ہوتا ہے! بہر کیف، بات کچھ یوں ہے صاحب کہ کراچی کے فٹ پاتھوں پر لوگ زندگی بھر کی تپسیا کا ثمر بخوشی آپ کے حوالے کرتے ہیں اور وہ بھی آپ کی بس ایک دن کی کمائی کے عوض! اور دعوؤں پر تو آپ نے شاید کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ایک ڈبیہ پر ”روحانی منجن“ کا لیبل بھی چسپاں دیکھا گیا ہے! ہم اب تک نہیں سمجھ پائے کہ دانتوں کی صفائی کا روحانی تسکین سے کیا تعلق ہے؟ ایک دکان میں شہد کی بوتل پر ”اسلامی شہد“ کا لیبل دیکھ کر ہم اب تک سوچ رہے ہیں کہ غیر اسلامی شہد کیسا ہوتا ہوگا! سیاسی نظام سے شہد تک سبھی کچھ اسلام کے نام پر آسانی سے فروخت جاتا ہے!

اگر فٹ پاتھوں سے دل بھر جائے تو کراچی کے قلب میں ایک ایسا قابل دید مقام بھی ہے جس کے بارے میں سوچیے تو ذہن کام کرنے سے انکار کرنے لگتا ہے۔ گوروں نے اپنی ملکہ کے نام پر یہ مارکیٹ کراچی کے سینے میں گاڑی تھی مگر خیر، اب یہ قائد کے شہر کے دل کی دھڑکن میں تبدیل ہوچکی ہے! ایمپریس مارکیٹ ایک ایسی دُنیا کا نام ہے جسے کوئی اب تک سمجھ نہیں پایا۔ گورے بھی اِسے سمجھے بغیر رخصت ہوگئے۔ جس طرح پورے پاکستان میں ہر کام بے وقت ہو رہا ہے بالکل اُسی طرح ایمپریس مارکیٹ میں مختلف ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والی بے موسم کی سبزیاں اور پھل ملتے ہیں! اگر فلپائن کی سبزی کھانی ہے، سری لنکا کے پھل خریدنے ہیں، بنگلہ دیش کے کچے کیلے اور کٹھل درکار ہیں، برما کا ناریل چکھنا ہے، شدید گرمی میں پشاوری چکن یخنی سوپ پینا ہے، خون تک سرد کردینے والی سردی میں آم کھانے کا شوق ہے اور جن کے دام سُن کر خون خشک ہو جائے وہ خشک میوہ جات کھانے ہیں تو ایمسپریس مارکیٹ میں قدم رکھیے۔ پرندے، پنجرے، پتنگ، مفلر، سوئیٹر، سلے سلائے کپڑے.... غرض یہ کہ کیا ہے جو اس مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ اور کراچی کی شناختی علامت کا درجہ رکھنے والی اِس مارکیٹ میں صرف اشیاءہی نہیں، دکاندار اور خوانچہ فروش بھی عجیب قسم کے ہیں۔ اِن کی فنکاری پر فِدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔ خیر گزری کہ گوروں کا دھیان اب تک اِس طرح گیا نہیں ورنہ اپنی ملکہ کے نام پر قائم اس عجیب الخلقت مارکیٹ کو اٹھاکر لے جائیں اور ٹکٹ لگاکر دُنیا کے سامنے پیش کریں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486075 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More