تم نے آخر ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟

جواں سال صحتمند خوبرو و خوشحال بندہ اپنی بائیک پر سوار جا رہا تھا اچانک اس نے بائیک روکی اور اس کے سمیت نیچے زمین پر گر گیا ۔ لوگ باگ دوڑے اور اسے اٹھا کر اسپتال پہنچایا مگر وہ اس سے پہلے ہی دم توڑ چکا تھا ۔ جسے کبھی چھینک بھی نہ آئی ہو گی اسے ہارٹ اٹیک آ گیا جو اس کی جان ہی لے گیا ۔ شادی کو بارہ سال ہو چکے تھے اور چار اسکول جانے والے بچے تھے ۔ سوئم والے روز جبکہ پورا خاندان موجود تھا اس کے باپ نے وکیل کو بلوا لیا اور سب سے مخاطب ہؤا ، میرا ایسا جوان ہٹا کٹا بھلا چنگا بیٹا لمحوں میں چٹ پٹ ہو گیا پھر میرے تو ویسے ہی پیر قبر میں لٹکے ہوئے ہیں تو میرا کیا بھروسہ؟ کسی وقت اچانک ہی مجھے کچھ ہو گیا تو یہ میری بہو اور اس کے بچوں کا کیا ہو گا؟ اور وکیل سے کارروائی شروع کروائی ، زمینوں میں سے مرحوم بیٹے کے زندہ ہوتے اس کا جو بھی حصہ بنتا تھا وہ چاروں بچوں کے نام لکھوایا ۔ بیٹا گھر کے جس پورشن میں مقیم تھا وہ بہو کے نام کیا ، بازار میں دس دکانیں تھیں جن میں سے دو بہو کے نام کیں ۔ بیوی تھی نہیں وہ اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہتا تھا اب بیوہ بہو کے ساتھ رہنے چلا گیا اور شادی شدہ بیٹیوں سے کہا اب تم وہاں پر ہی آیا جایا کرنا ۔ یہ ساری تدبیر و تفکر اندرون سندھ کے ایک چھوٹے سے مقام پر مقیم ایک ان پڑھ بزرگ کی طرف سے کیا گیا ۔

دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہونے والے کئی واقعات ذاتی طور سے ہمارے علم میں ہیں کہ بیس بیس تیس تیس سال پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے قربانی کے بکروں کی خالصتاً اپنی کمائی سے خریدے گئے یا از سر نو بنوائے ہوئے مکان کے کاغذات والد کے نام پر ہونے کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد تمام اولادیں اس میں برابر کی حصہ دار بن بیٹھیں ۔ باپ کی آنکھ بند ہوتے ہی اسے بکوانے پر کمر بستہ ہو گئیں ۔ اپنی پوری جوانی دیار غیر میں گنوانے والے عقل کے اندھے بڑھاپے میں کرائے کے مکان میں گئے ، کچھ کو تو موت بھی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں آئی ۔ جاننے والوں میں سے بھی ایسے واقعات پتہ چلے کہ پردیس کی کمائی سے جائیداد بھائی کے نام سے خریدی جس پر اس نے قبضہ کر لیا اور پردیسی بکرے کو اس میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ دی ۔ جوان بیوی کے ہوتے گھر اپنی بوڑھی بیوہ ماں کے نام سے خریدا اب چاہے ماں مر جائے یا یہ خود ، باقی کے سارے بہن بھائی اس میں سے اپنے اپنے حصے کے دعویدار ۔

نصف صدی بیت چکی ہے ایسے واقعات کے تسلسل کو ۔ نا تو پردیس جانے والوں کو عقل آتی ہے نا ہی ان کے اپنوں خون کے رشتوں میں خدا کا خوف باقی رہتا ہے ۔ کوئی ایک سادہ لوح قربان ہو جاتا ہے اپنے بیوی بچوں تک کو اپنے نام نہاد فرائض کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے باقی سب عیش کرتے ہیں اپنی زندگی جیتے ہیں اور سگے ماں باپ تک کہتے ہیں کہ تم نے آخر ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟ ویسے اپنی منکوحہ کے مجرموں کی سزا ہونی بھی یہی چاہیئے کہ وہ عمر اور صحت کی پونجی گنوا دینے کے بعد انعام میں اس مقبول عام اور سدا بہار طعنے سے نوازے جائیں ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 226 Articles with 1704790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.