حدیث بھی وحی الٰہی ہے: دوسری قسط

جیسا کہ مضمون ‘‘حدیث بھی وحی الٰہی ہے’’ کے پہلے حصے میں ثابت کیا گیا ہے کہ حدیث مبارکہ وحی کی ایک قسم ہے اور دین اسلام میں اسے حجت کی اہمیت حاصل۔ یہ وہ وحی ہے جس میں اللہ تعالٰی کے احکامات کا بیان نبی کریم ﷺ کے الفاظ کے چناؤ کے ساتھ ہے۔ لیکن ہم، اس کالم سے احادیث پر کیے جانے والے اعتراضات پرسلسلہ وار بحث شروع کریں گے۔ پوری دنیا میں سلاسل آئمہ اربع میں احادیث کو قرآن مجید فرقان حمید کے بعد سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔

پہلا اعتراض: اللہ تعالٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ وحی نہیں آتی تھی۔

میں یہاں دلائل کے طورپرقرآن مجید کی چند آیات پیش کررہا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی۔ یہ آیات حدیث کے وحی خفی ہونے کا ثبوت ہیں۔

پہلی دلیل) وانزل اللہ علیک الکتاب واحکمۃ وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیماً (سورۃ النساء،113)
ترجمہ: اور اللہ نے تم پر کتاب وحکمت اتاری اور تجھے وہ سکھایا جسے تونہیں جانتا تھا۔ اور اللہ کا تجھ پر بڑابھاری افضل ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے پہلا کتاب یعنی قرآن کریم، دوسرا حکمت یعنی وحی خفی، تیسرا علم غیب اور چوتھا بہت بڑے فضل کے عطاء کرنے کا ذکرکیا ہے۔ اب چونکہ علم غیب میرا موضوع نہیں ہے اس لیےاپنے اصل موضوع کو ہی مدنظر رکھ کر بات کو جاری رکھوں گا۔ یہاں کتاب کے ساتھ حکمت سے مراد آپﷺکے ارشادات ہیں جو وحی غیرمتلو ہیں۔ کیوں کہ یہ حکمت پر مبنی ارشادات دراصل وحی خفی ہیں جن کا اللہ تعالٰی نے اوپر دی گئی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔

دوسری دلیل) وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول۔ (البقرۃ)
ترجمہ: جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے۔

اس آیت کریمہ سے یہ بات صاف ظاہر ہے قبلہ اول بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم اللہ تعالٰی ہی نے دیا تھا اور یہ حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ حکم قرآن میں موجود نہیں تو یہ حکم کیسے اور کس وقت دیا گیا؟ لازمی ہے کہ یہ حکم وحی خفی کے ذریعے ہی دیا گیا ہوگا۔

تیسری دلیل) جب آپ(ﷺ)مومنوں کو تسلی دے رہے تھے، کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتارکراللہ تعالیٰ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا۔ (اٰلعمران، 124)

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے بطور تسلی صحابہ کو تین ہزار فرشتوں کے ذریعے اللہ کی امداد کی خبر دی تھی۔ پھراس جنگ کے بعد اللہ تعالٰی نے اس کا ذکر قرآن مجید میں کیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ اللہ تعالٰی ہزاروں فرشتوں کے ذریعےمدد فرمائے گا۔

چوتھی دلیل) حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قانتین0 فان خفتم فرجا لا اورکبا نًا فاذاامنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمون0 (البقرۃ 238-239)۔
ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نمازکی اوراللہ تعالی کے لیے باادب کھڑے رہا کرو0 اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوارہی سہی، ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکرکرو جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی، جسے تم نہیں جانتے تھے۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ نماز پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے جو جنگ کی حالت میں معاف ہے اور جب امن ہو تو پھر اسی طریقہ پر نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اسکے علاوہ آیت مذکور میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ‘‘جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات (نماز) کی تعلیم دی’’۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ کونسا ہے اور قرآن مجید میں تو یہ طریقہ کہیں نہیں۔ جب کہ یہ طریقہ اللہ تعالٰی کی طرف منسوب ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ طریقہ حدیث کے ذریعے سکھایا جو وحی غیرمتلو ہے۔

پانچویں دلیل) فالءن باشرو ھن (البقرۃ، 187)
ترجمہ: اب تمہیں ان (بیویوں) سے مباشرت کی اجازت ہے۔

اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے شوہروں کو اپنی بیویوں سے رمضان کی راتوں میں ملنا منع تھا اور اب اجازت ہے، لیکن اس منع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم بھی اللہ پاک نے وحی غیر متلو کے ذریعے سے دیا تھا۔

چھٹی دلیل) الم ترالی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الرسول (المجادلۃ، 8)
ترجمہ: کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی (سرگوشی) سے روک دیاگیا تھا پھربھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں اور آپس میں گناہ کی اور ظلم و زیادتی کی اور نافرمانی پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں۔

لازم ہے کہ پہلے کاناپھوسی یعنی سرگوشی سے منع کیا گیا تھا، اسی لیے تو اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور منع کرنے کا حکم قرآن میں کہاں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ مذمت کیوں۔ ہاں یہ منع کا حکم لازمی وحی خفی کے ذریعے کیا گیا ہوگا، ورنہ یہ اللہ تعالٰی پر بہتان ہوگا۔ اور اللہ تعالٰی پاک ہے، تمام اچھی تعریفیں اسی ذات پاک کیلیے ہیں۔

درج بالا دلائل سے ثابت ہے کہ حدیث بھی وحی الٰہی ہے۔ اور ہمیں اس کا انکار کرنے کی بجائے اس پر یقین کرنا چاہیے اور ان میں دیے گئے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ احادیث کے انکار کے بعد ہم بہت ساری قرآنی آیات پر عمل نہیں کرسکتے۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 57950 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.