بچوں کو کام دینا نہیں، لینا ہے

تدرس و تدریس کے حوالے سے ہمیں اب روایات سے انحراف کرنا ہوگا۔ موجودہ دور اب اس کا متحمل نہیں۔ روایات تو یہی ہیں کہ استاد بچوں کو ایک موضوع پر لیکچر دیتاہے،موضوع کی وضاحت کرتاہے اور اس کے سمجھانے کی کوشش کرتاہے۔ پوری کلاس میں چند ایک طلباجن کی کارکردگی معیاری ہوتی ہے وہ استاد سے ایک آدھ سوال پوچھ لیتے ہیں۔ اور لیکچر کے اختتام پر استاد اپنی محنت پرکھنے کے لیے انہیں ذہین طلباء سے اپنے پڑھائے گئے موضوع کے بارے میں چند ایک سوالات پوچھ لیتا ہے۔ درست جوابات پاکر بے حد خوش اور مطمئن ہوجاتا ہے، اور کلاس کی اختتام پر طلباء کو بہت سارا ہوم ورک دے دیتا ہے۔
اس طریقہ تدریس کے فوائد اور نقصانات کی تفصیل قارئین پر لیکن اس کے دو اہم پہلو توجہ طلب ہیں۔
ایک یہ کہ کلاس میں پڑھائی کے حوالے سے تین طرح کے طلباء ہوتے ہیں: کمزور ، اوسط اور قابل۔ اس طریقہ تدریس میں صرف ذہین اور قابل طلباء نے سیکھا اور ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ باقی دو طرح کے طلباءکو توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کو جھنجھوڑا گیا جس سے وہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے، اور بات صرف سر ہلانے تک محدود رہی۔

دوسرا یہ کہ اس طریقہ تدریس میں بچوں کو کام دیا گیا ، ان سے کام لیا نہیں گیا۔اور آج کے منتشر زمانے میں بچوں سے وقت پر کام نہ لینا بلکہ ان کو پہاڑ جیسے ہوم ورک دے کر اچھے نتائج کی امید رکھنا کار عبث ہے۔

اب اس مرض کی دوا کیا ہے؟
پہلے پہلو کا حل یہ ہے کہ استاد دوران لیکچر تمام طلباء کو لیکچر میں انگیج رکھے۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیۓ کہ استاد بار بار کمزور اور اوسط طلباء کو جھنجھوڑے یعنی تھوڑا سا پڑھانے کے بعد اس کے متعلق سوالات پوچھے اور اگر وہ درست جواب دینے میں کامیاب نہ ہوں تو وہی ٹاپکدہرائے۔ اس طرح باربار جھنجھوڑنے سے دبے ہوئے طلباء لیکچر میں حصہ لینا شروع کردیں گے۔ اور ظاہری بات ہے کہ اگر وہ کلاس میں حصہ لے رہے ہیں تو کچھ سیکھیں گے بھی۔

استاد کو کلاس میں ایکولیٹی پر نہیں ایکویٹی پر عمل کرنا ہوگا۔ یعنی سب کو ایک جیسی توجہ نہیں بلکہ جس کو جتنی چاہیے اس کو اتنی ہی دینی چاہیے۔ قابل اور ذہین طلباء کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اصل مسلئہ تو اوسط اور خاص طور پر کمزور طلباء کا ہوتا ہے۔قابل اور ذہین کو مزید ترقی دینا کمال نہیں بلکہ کمزورں اور اوسط کو کھڑا کرنا کمال ہے ۔

فارن میں استاد پروفشنل ڈگری ہولڈر، ٹیچنگ کا ماہر اور ساتھ ہی سائیکالوجسٹ بھی ہوتا ہے۔یہ اس لیے کہ اس کو بچے کی نفسیات کا باخوبی علم ہوکہ اس کا کیا مسلئہ ہے اور اس کو کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور ساتھ ہی بہترین حل بھی جانتا ہو۔ ہمارے اساتذہ اگر سائیکالوجسٹ نہیں بن سکتے تو خیر ہے لیکن اتنا تو کامن سینس سے ایک ہی کلاس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کون کونسے طلباء کلاس میں حصہ لے رہے ہیں اور کون کونسے نہیں۔ جو حصہ نہیں لے رہے بس ان کو جھنجوڑنا شروع کردیں۔ باربار جھنجھوڑنے سے وہ خود حصہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔میں یہ نہیں کہتا کہ استاد قابل اور ذہین طلباء سے بلکل سوال نہ کریں بلکہ میرا مطلب ہے کہ زیادہ توجو کمزور اور اوسط پر ہونی چاہیے۔

دوسرے پہلو کا حل یہ ہے کہ استاد کم پڑھائے لیکن اس کا زیادہ تر کام کلاس میں اپنی نگرانی میں ایک سر گرمی کی صورت میں مکمل کرے۔ گھر کے لیے ہوم ورک صرف انہیں مضامین میں دے جن کا زیادہ تر حصہ کلاس میں کرنا ممکن نہ ہو۔ مثلاً میتھ یا اس طرح کے اور مضامین ۔ کچھ مضامین میں ہوم ورک غیر نصابی دیں، اور وہ بھی ہفتے میں ایک یا دوبار۔ مثلاً: اردو، انگلش ، اسلامیات اور سوشل سٹڈیز وغیرہ میں۔ اردو اور انگلش میں پرائمری لیول کے لیے چوٹی موٹی کہانیاں اور رسالے دیں اور ہائر لیول کے لیے افسانے، ناولز یا دوسری ادبی اصناف میں سے دیں۔اور ختم کرنے کے بعد کلاس میں ایک مقررہ دن ان سے اسکاخلاصہ لکھوائیں۔اس سے طلباء کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا اور ساتھ ہی لکھائی میں تخلیق پیدا ہوگی۔ باقی زبان دانی کے لیے ہر روز کلاس میں اسی زبان میں باتیں کرنا لازمی قرار دیں۔

اسی طرح اسلامیات اور سوشل سٹڈیز میں اخلاقی یا تاریخی نوعیت کی چھوٹی چھوٹی کتابیں یا رسائلِ دیں اور ایک دن ان سے اس پڑھے ہوئے کا خلاصہ لکھوائیں۔

سائنس کے حوالے سے کوئی ہوم ورک نہ دیں، بلکہ ہفتے میں تین دن کلاس میں تھیوری پڑھائیں اور اگلے تین دن ان کی پریکٹیکل کروائیں۔ ہر کلاس میں۔اور اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ آج جو پڑھایا کل اس کی پریکٹیکل کروا لیں۔ سائنس میں کنسپٹ اور پریکٹیکل پر توجہ دیں۔

اس کو کہتے ہیں کام لینا ۔ ہمیں بچوں سے کام لینا ہوگا، بچوں کو کام دینا اور یہ توقع رکھنا کہ وہ گھر جاکر کریں گے، عبث ہے، کیونکہ بچے بچے ہوتے ہیں بڑے نہیں کہ وہ اپنا فایدہ یا نقصان جان سکیں۔

Muhammad Zubair
About the Author: Muhammad Zubair Read More Articles by Muhammad Zubair: 2 Articles with 1422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.