پردیس ایک میٹھی جیل

اس تحریر میں دیار غیر میں رہنے والے ہمارے بھائیوں کی مشکالات اور باہر کی طرز زندگی سے متعلق چند باتیں لکھی گئی ہیں

میں لاہور ائیر پورٹ کے ویٹنگ ہال میں بیٹھا گھر والوں سے کال پر بات کرنے میں مصروف تھا ابھی فلائٹ میں کچھ وقت تھا۔

میرے بلکل سامنے والی کرسی پر ایک اور شخص بھی کال پر بات کرنے میں مصروف تھا اور ساتھ ساتھ اپنے آنسو بھی صاف کر رہا تھا اس کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی میں نے بات ختم کی اور کال بند کر دی۔

وہ مسلسل یہی کہ رہا تھا بیٹی میں جلدی واپس آؤنگا بہت جلدی ۔ ادھر جاکر بہت سارے پیسے بھیجوں گا پھر تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ گی بس اب رونا بند کرو بیٹی میری فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے یہ کہ کر کال بند کر دی حالانکہ فلائٹ میں ابھی ٹائم تھا۔ اسکی آنکھوں میں زاروں قطار آنسو تھے اور وہ بار بار ٹشو سے صاف کر رہا تھا

کرونا کی وجہ سے زیادہ رش نہی تھا اس بار ویٹنگ ہال میں وہ موبائل میں بار بار دیکھے جا رہا تھا اور آنسو تھے اسکے کہ رکنے کا نام نہی لے رہے تھے تھوڑی دیر تک وہ ریلکس ہوا تو میں نے پوچھ لیا کہ کہاں جارہے ہیں آپ تو انہوں نے بتایا کہ جدہ جارہے ہیں وہ میں نے بھی جدہ ہی جانا تھا تو حال حوال کے بعد میں نے ان سے خیر خیریت اور رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجبوریاں ہیں ورنہ پردیس والا زہر کون کھائے اللہ سب کو اپنے دیس میں رزق عطاء فرمائے میں نے آمین کہا اور پھر وہ کہنے لگے میں تین سال بعد دو بیٹیوں کی شادی کے لیے تین مہینے کی چھٹی لیکر آیا تھا لیکن ابھی فلائٹ بند ہونے کے ڈر سے دو مہینے بعد ہی جارہا ہوں۔دو بیٹیوں کی شادی کر دی ہے اور ایک چھوٹی بیٹی ابھی بیمار ہے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے اسے اسی حال میں چھوڑ کر واپس جانا پڑ رہا ہے میری مصوم سی پھولوں جیسی بیٹی ہاسپٹل میں مجھے بلا رہی ہے میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے دل کر رہا ہے ادھر سے ہی واپس چلا جاؤں لیکن مجبوریوں نے ایسا جکڑا ہے کہ نہ چاہتے ہوے بھی بھاری دل کے ساتھ واپس لوٹنا پڑ رہا ہے میرے نصیب میں اللہ نے شاید پردیس کی روزی ہی لکھی ہے ورنہ پھول جیسی بیمار بیٹھی چھوڑ کر کون جاسکتا ہے۔

پردیس کے خواب بہت سہانے ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ سوچیں ایسا تانا بانا بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ایک طرف محبتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف ان محبتوں سے جڑی مصلحتیں۔

ایک پردیسی کچھ پیسے نہیں کما کر دیتا بلکہ آپنی دن رات کی محنت دیتا ہے ۔ خود پردیس میں ایک وقت کھانا کھاتا ہے تاکہ دیس میں بیٹھے بہن بھائی تین وقت کا کھانا کھا سکے ۔ ماں کی آواز سن کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ماں کے ہاتھ کہ کھانے کو ترستے رہتے ہیں۔ بہنوں کی شادیوں پہ لاکھوں پیسے تو بھیج دیتے ہیں مگر بہنوں کے چہروں کی خوشی نہیں دیکھ پاتے۔

پردیس ایک میٹھی جیل ہے جب انسان ایک بار اس میں داخل ہو جاتا ہے پھر نہ مجبوریاں ختم ہوتی ہیں نہ ہی خواہشات یہاں تک کہ پردیس میں بندہ اپنی جوانی ختم کردیتا ہے اور یہ ایک کڑوا سچ ہے۔

اللہ پاک سب پردیسیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور رزق حلال اپنے وطن میں عطاء فرمائے آمین

 

Muhammad Ahsan Gondal
About the Author: Muhammad Ahsan Gondal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.