غلامی انگریز میں ہر ذلت قبول ہے؟

 کسی نے کہا تھا غیرو ں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا.کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ، پورے انگریز بن سکے نہ اردو کو مکمل اپنا سکے کاٹھے انگریز گلابی اردو سپریم کورٹ مظلومہ کے حق میں تفصیلی فیصلہ دے چکی مگر جسٹس جواد ایس خواجہ گئے اور شاید فیصلہ بھی ساتھ ہی گیا اب نوٹیفکیشن جاری ہوا خبردار آئندہ دفتری زبان اردو ہو گی مگر نوٹیفگیشن کی زبان انگلش میں، گویا سگریٹ نوش سگریٹ کا کش لگا کر بچے کو سمجھا رہا خبردار بری چیز ہے یا ہم نے سگریٹ کی ہر ڈبیا پر لکھ چھوڑا کہ صحت کے لیے سخت مضر مگر ہر کسی کو ہر جگہ میسر ہم بھی کیا لوگ ہیں دنیا ہم پہ ہنسے کہ روے اﷲ دیاں اﷲ جانڑے اور ہمارے حال پہ رحم کرے ، کہتے ہیں کسی دور دراز کے لبرل برانڈ کے چین اسکول میں اے اور او لیول پڑھتے بچوں کو چیک کرنے کے لیے انگلستان کا سفیر گیا اسکول میں گھوم پھر کر جب واپس پرنسپل کے دفتر میں پہنچا تو کسی ٹیچر نے کہاسر تبصرہ کیجیے کیسا لگا ہمارا اسکول اور ہمارا نظام تعلیم گورا بولا شکر ہے یہ تمہارا ملک ہے اگر میرا ہوتاتو اب تک نہ صرف اس اسکول کا عملہ مالکان بلکہ وزیر تعلیم بھی دوسروں کی زبان میں اپنے ملک کے بچوں کوتعلیم دینے کی پاداش میں جیل میں ہوتے.اندازہ کیجیے ذرا اپنے ہاں رائج نظام تعلیم کا.نظام انصاف سے لیکر حکومتی وسرکاری دفاتر تک ہر جگہ یہ کملیکس ہم پر سوار ہے بلکہ اب تو اپنے ہاں قابلیت کاواحد معیار ہی انگریزی بول چال ہے جسے انگلش نہیں آتی وہ ہر جگہ بیک بنچز میں چھپتا پھرتاہے اگر کسی پاکستانی کو انگریزی نہیں آتی وہ نالائق ہے تو یہ فارمولا ساری دنیا کے انگریزوں پہ بھی نافذ ہونا چاہیئے کہ جسے اردو نہیں آتی وہ بھی نالائق ہی شمارکیا جاے اس کے علاوہ اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے صدیوں انگریز کی رعایا رہنے کے بعد جہاں کچھ اچھی چیزیں ہمیں ورثے میں ملیں ان کے جانے کے بعد مثلا دنیا کا بہتر ین نہری نظام شاندار ریلوے شاہکار پل اور کئی بہترین سڑکیں وہیں غلامی کی ابتر مثالیں اور طوق ابھی تک ہماری گردن کے گرد فٹ ہیں سولہ سالہ عجیب و غریب تعلیمی نظام بچپن سے ہی پرچے اور سال بعد ترقی نہ کوالٹی ایجوکیشن نہ ٹیکنیکل و مکینکل کا علم جس کی وجہ سے کسی بھی نئی ایجاد کی تہمت ہم پر نہین لگائی جا سکتی ہے معاشرتی علوم کو ہم نے چند صفحوں کی کتاب میں محدود کر رکھا اور سب سے ویلے ٹیچر کے حوالے یہ سب سے اہم مضمون ہے اس کے علاہ الف انار او ر بے بکری سے شروع ہو کر کسی اچھی نوکری تک ہماری تعلیم مکمل،شادی کریں کوٹھے بنائیں بچے پیدا کریں اﷲ اﷲ خیر صلہ، پنجاب پبلک سروس کمشن اور فیڈرل پبلک کمشن میں سارا نظام امتحان انگریز اور انگریزی کا ،گاوں دیہاتوں کے ٹاٹ اسکولوں سے پڑھ کر آنیوالا بچہ یہ امتحان پاس کر لے تو معجزہ برپا ہو جاتا ہے پورا خاندان کیا ہونہار بروا کا سارا گاؤں لڈیاں بھنگڑے ڈالتا ہے شایداعلی ایوانوں میں بیٹھے عالی بلکہ غالی دماغوں نے اس نظام اور اس کی بے ہودگی پر کبھی توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کی کہ سارا کچھ ان کو وارا ہی نہیں کہ اگر اس پر توجہ دی گئی اور اپنا نظام تعلیم اپنی زبان میں یعنی آسان کر دیا گیا تو پنجابی کی جنڑی کھنڑی اعلیٰ مراتب تک پہنچنے لگے گی یہی حال فورسز کی اکیڈمیوں میں بھی ہے کہ وہاں بھی کاٹھے انگریزوں کی بھرمار ہے اور اکثر اردو بولنے والے کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جاتا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان میں پیداہونے والا بچہ بولنے کے ساتھ پڑھنا لکھنا سیکھتا بھی پاکستانی زبان یعنی اردو بلکہ اگر پنجابی سندھی اور بلوچی میں ہوتاتو اور زیادہ آسان ہوتا مگر یہاں کمپلیکس جان چھوڑے تو معاملہ آگے بڑھے

میٹرک تک تعلیم اردو میڈیم میں حاصل کر کے جب ایف ایس سی کی ساری کتابیں انگلش میں سامنے آتی ہیں تو اکثر یت کی سٹی وہیں گم ہو جاتی ہے سنا ہے کہ اب وکلیل بنے کے لیے دونوں قسم کا نصاب فراہم کر دیا گیا ہے اردو اور انگریزی میں جس زبان میں کوئی کرنا چاہے کر سکتا ہے اگر ایسا ہے تو یہ بہت ہی شاندار فیصلہ ہے، حکمران رول ماڈل ہوتے ہیں دنیا بھر کے حاکم دنیا کے دورے پہ جاتے ہیں تو اگلے کو سمجھ آئے نہ آے بات اپنی قومی زبان میں کرتے ہیں جس کے لیے میزبانوں کو ترجمانوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے اور اپنے ہاں معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں انگریزی کمزور ہو تو پرچیاں پکڑ کے جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں جو اوپر ہو گا وہی نیچے بھی آے گا اسی طرح جب کوئی ظلم زیادتی کے خلاف کسی عدالت میں جاتا ہے تو اول تو سالوں وکیلوں اور منشیوں کے آس پاس ہی پھرتا رہتا ہے اور اگر کبھی قسمت یاوری کرے اور کوئی حق میں یا خلاف فیصلہ ہو ہی جاے تو دو چار دن بعد باقاعدہ فیس دے کر جب فیصلہ ہاتھ میں آتا ہے تو جس طرح ڈاکٹر کی انگلش میڈیکل اسٹور والے کے علاوہ کسی کی سمجھ میں کم ہی آتی ہے اسی طرح فیصلہ پڑھوانے کے لیے اچھے بھلے پڑھے لکھے بندے کو ایک بار پھر وکیل کا منت ترلہ کرنا پڑتا ہے جو اپنی طرف سے بحث کے دورا بھول جانے والے نقطے کا ذکر ہی نہیں کرتا اور سمجھا بجھا کے گھر بھیج دیتا ہے اب اگر دوبارہ اپیل کرنی یا کہیں اور جانا تو پھر منت اور پیسے دے کے ڈرافٹنگ کروائیں کیا یہ ظلم نہیں کہ اپنے حق کے لیے بندہ اپنی زبان میں درخواست نہ دے سکے یا اپنے خلاف کیے گئے فیصلے کی مدعی کو سمجھ ہی نہ آے ،اگر کوئی شخص کل کلاں عربی یا فارسی میں درخواست لکھ کر کسی عدالت یا اعلی افسر کے پاس جاے تو اسے اسی طرح پذیرائی ملے گی شاید کبھی نہیں کہ ہم ذہنی غلام انگریز کے ہیں نہ کہ عربی و فارسی والوں کے،تو کیا پھر وہ لوگ بھی نالائق گردانے جائیں گے جنہیں عربی یا فارسی نہیں آتی، اس کے علاوہ جب بھی کہیں کوئی بھرتی کا معاملہ ہو توکاغذات نمبردار یا گزیٹڈافسر سے تصدیق کروا کے لانے پڑتے ہیں جب کبھی شناختی کارڈ پاسپورٹ ڈومیسائل(جس کی اب کسی بھی قسم کی ضرورت نہیں کیوں کہ نادرا شناختی کارڈ میں تمام ریکارڈ موجود ہے مگر ذلالت کا سامان بھی تو مہیا رکھنا ہے) بنوانا ہو تو گاوں میں ہیں تو پہلے نمبردار کی ٹہل سیوا کر رکھیں ورنہ عین ممکن ہے کہ عین وقت پر نمبرادر اکڑ جائے نہیں توکسی سولہ سترہ گریڈ کے سرکاری ملازم کے تلوے چاٹنے کے لیے تیار رہیں بصورت دیگر بھلے آپ پاکستانی شہری ہیں باپ دادا اور سات نسلیں یہیں رہ رہی ہیں اپنا گھر بار اور زمینیں ہیں مگر ریاست آپ کو اس وقت تک اون نہیں کریگی جب تک آپ نمبردار یا گزیٹڈ افسر کے جوتے اٹھا کے سر پہ نہیں رکھیں گے اب تو قومی بنکوں نے بھی لوگوں کو کواسی طرح ذلیل و رسوا کرنا شروع کر رکھا ہے اپنے والد یا والدہ اگر مرحوم ہو گئے تو ان کے جتنے پیسے بنک میں پڑے ہیں آپ کو تب ملیں گے جب آپ اتنی ہی مالیت کا گارنٹر ساتھ لائیں گے اب اگر سی غریب کا کل ترکہ پندرہ بیس لاکھ روپے ہے تواس کے لیے اپنے مکان دکان کی رجسٹری بطور گارنٹی کون دے گا لیکن ٹھریں اس سسٹم کی مزید لعنتیں ملاحظہ کریں اگر آپ گم شدہ شناختی کارڈ بنوانے گئے جواب ملے گا پہلے کارڈ کی کاپی ساتھ لگائیں لگائیں اگر آپ کسی افلاطون کو یہ یہ سمجھا سکنے میں کامیاب ہو گئے کہ جناب اس کارڈ کا متبادل چاہیئے جو گم ہو گیا اس کی کاپی کہاں کہاں سے لاوں تو حکم ملے گاکسی خونی رشتے دار جیسے میاں کا بیوی کا بہن کا بھائی کا ماں کا یا باپ کی کاپی لگا دیں اور جب آپ لگا ئیں گے تو ایک اور نادر شاہی حکم ہو گا کہ اب سولہ سترہ گریڈ کا سرکاری ملازم ڈھونڈیں اور اس سے ٹھپہ بھلے جعلی اس پر لگائیں گے تو جمع ہو گا آپ لاکھ دلائل دیں کہ یہ آپ کے دفتر سے جاری ہوا سارا ریکارڈ آپ کے پاس موجود ہے مگر پھر بھی اس وقت تک آپ کا فارم جمع نہیں ہو گا جب تک آپ کی میں اور مت نہیں ماردی جاتی ،کیا کوئی ایسی تبدیلی نہیں آنی چاہیئے جو ہمیں اس ذلالت اور رذالت سے جان چھڑا دے،کیوں نہیں یہ اختیار ہر پاکستانی کو جو نادرا کا کارڈ رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی بندے کی جس کو جانتا ہے اپنی ذمہ داری پر تصدیق کر سکے ذلت کا مزید کتنا سفر باقی،کب میں معزز شہری ہونے کا باقاعدہ احساس ہو گا کب ریاست ہو گی ماں کے جیسی، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم بجائے اپنا نظام اور سسٹم ٹھیک کرنے کے نقالوں اور فرسودہ روایات کے پیچھے پڑے ہیں ،دوسروں کی اندھی اور بے سری تقلید ہمیں کہاں لے آئی جہاں کسی نے کہا تھا غیرو ں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا.کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ، پورے انگریز بن سکے نہ اردو کو مکمل اپنا سکے کاٹھے انگریز گلابی اردو سپریم کورٹ مظلومہ کے حق میں تفصیلی فیصلہ دے چکی مگر جسٹس جواد ایس خواجہ گئے اور شاید فیصلہ بھی ساتھ ہی گیا اب نوٹیفکیشن جاری ہوا خبردار آئندہ دفتری زبان اردو ہو گی مگر نوٹیفکیشن جاری انگلش میں ہوا ، گویا سگریٹ نوش سگریٹ کا کش لگا کر بچے کو سمجھا رہا خبردار بری چیز ہے یا ہم نے سگریٹ کی ہر ڈبیا پر لکھ چھوڑا کہ صحت کے لیے سخت مضر مگر ہر کسی کو ہر جگہ میسر ہم بھی کیا لوگ ہیں دنیا ہم پہ ہنسے کہ روے اﷲ دیاں اﷲ جانڑے اور ہمارے حال پہ رحم کرے ،