سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی (حصہ 1)

حضرت ابو بکر صدیقؓ | فضائل و مناقب

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کریم کا شکر ھے کہ اس ﺫات نے مجھ ناچیز کو اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے بلکہ سیرت مبارکہ کو اسباق کی شکل میں ترتیب دینے کی توفیق عطا فرمائی اور اسی حوصلے اور توفیق کی وجہ سے آج میں سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی کو اسباق میں لکھنے کے قابل ھوا ہوں,
اللہ سے پاک دعا ھے کہ اپنی رحمت خاص مجھے ہر قسم کی کمی اور غلطی سے محفوظ فرماۓ اور میرے اور میرے والدین کے لیے ﺫریعہ نجات بنا دے...آمین

عشرہ مبشرہ حدیث مبارکہ!
عشرہ مبشرہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی
حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی
حضرت زبیر ابن العوام رضی اللہ تعالٰی
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی
حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی
حضرت سعید رضی اللہ تعالٰی
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی

ان 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذکر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں،
طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3682 ) ۔

حدیث میں سعد رضی اللہ عنہ سے مطلب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سعید رضی اللہ عنہ سے مطلب سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔

ان صحابہ کرام کے علاوہ اوربھی کئی ایک صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلا خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا، عبداللہ بن سلام اورعکاشہ بن محجن رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ۔

ایک ہی حدیث میں ان سب کے نام ذکر ہونے کی بنا پر انہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ۔

ابو بكر الصّدّيق
عبد الله بن ابی قحافہ
تخطيط لاسم
أبي بكر الصديق ملحوق بدعاء الرضا عنه
ابو بكر، الصّدّيق، العتيق، الصاحب، الأتقى، الأوّاه، ثانی اثنين فی الغار، خليفہ رسول الله، سيدنا ابو بكر رضی اللہ عنہ
ولادت بعد عام الفيل
بسنتين وستة أشهر (50 ق هـ / 574ء)
مكہ، تہامہ، عرب
وفات
جمادى الأولى 13هـ / 23 اگست 634ء
مدینہ منورہ، حجاز، عرب
قابل احترام اسلام: اہل سنت و جماعت، اباضیہ، الدروز، زیدیہ شیعہ
المقام الرئيسي مسجد نبوی، إلى جانب النبی محمد و عمر بن الخطاب، مدينہ منورہ
نسب والد:
ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو التيمی القرشی
والدہ:
ام الخير سلمى بنت صخر بن عامر التيميہ القرشيہ
ازواج:
قتيلہ بنت عبد العزى، ام رومان بنت عامر، اسماء بنت عميس، حبيبہ بنت خارجہ.
بیٹے:
عبد الرحمن، عبدالله، محمد۔
بیٹیاں:
اسماء، عائشہ، ام كلثوم۔

یہ رتبہ بلند ملا ہے اس کو
افضل البشر بعد الانبیاء

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کی سیرت امت کے لئے ایک عظیم خزانہ ہے اس میں بڑے لوگوں کے تجربات مشاہدات ہیں خبریں ہیں امت کے عروج و زوال کی داستانیں ہیں
صحابہ کرام کی سیرت صحابہ کرام کی زندگی مسلمانوں کے لیے عظمت کا مقام رکھتی ہے ہمیں اپنی عظمت رفتہ کے حصول اور تنزل و ادبار کی عطا گہرائیوں سے نکلنے کے لیے قرون اولیٰ کی تاریخ کو حزر جاں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے ان سنہری ستاروں سے رہنمائی حاصل کریں
صحابہ کرام میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ بے شمار اعزازات ملے ہیں کہ جو ان کی زندگی کے روشن پہلو ہیں ۔
وہ امت رسول میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔
* وہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں مار کھائی۔
*وہ نبی کریم صل وسلم کی امت میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا۔
* حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صل وسلم کی امت میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔
* سرورکائنات صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سب سے پہلے شخص حضرت ابوبکر صدیق ہیں جنہوں نے اسلام کی نصرت کے لئے اپنا مال فراخ دلی سے خرچ کیا ۔
*امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے شخص ہیں جنہیں امیر بنا کر بھیجا گیا۔
* وہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن مجید کے متفرّق اوراق کو جمع کرکے اسے ایک کتاب کی شکل دی ۔
*وہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت سنبھالی اور نہایت نازک وقت میں اسلام کی ڈولتی کشتی کو سہارا دیا ۔
*حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے منکرین ختم نبوت اور منکرین زکوۃ کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی ۔
*وہ ان کبار صحابہ رضی اللہ میں سے ہیں جنہوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا انہوں نے اللہ کی راہ میں سات غلاموں کو اپنا مال خرچ کرکے کے کفار کے چنگل سے آزاد کروایا۔
ان میں سیدنا بلال رضی اللہ ،عامر بن فہیرہ رضی اللہ ، ،زنیرہ رضی اللہ ،نہدیہ ان کی بیٹی بنومومل کی ایک لونڈی اور ام عبیس رضی اللہ شامل ہیں ،
*حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
اے ابو بکر ان دو شخصوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہے، یہ کمال شرف تھا،اعلی فضل تھا کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب کی محبت میں صدیق کو بھی شامل فرمایا۔
*اہل علم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ تمام فضیلتوں کی بنیاد علم پر ہے اور اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پوری امت میں سب سے زیادہ شہرعی مسائل کو جاننے والے اور تمام صحابہ میں سب سے بڑھ کر ذہین و فطین تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ھے کہ اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ نہ ہوتے تو خدائے واحد کی عبادت کرنے والا ایک بھی دکھائی نہ دیتا امام شعبی کا قول ہے کہ چار خصوصیات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میں ایسی ہیں کہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی
آپ رضی اللہ کے سوا کسی کا نام صدیق نہیں رکھا گیا۔
رفاقت غار کا صرف آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو ملا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو امام بنایا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمرکابی میں ہجرت کی ۔
اہل علم نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نماز ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا مقتدی بن کر ادا فرمائی یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی پانچویں خصوصیت تھی ۔
ابو جعفر کا قول ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ وسلم اور جبریل علیہ السلام کی سرگوشی سنا کرتے تھے وہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے یہ ان کی چھٹی خصوصیت ہے ۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی چار نسلیں صحابی ہیں ,
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ان کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ کے لڑکے عتیق رضی اللہ اور یہ سیدنا صدیق اکبر کی خصوصیت ہے ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے چار خاص پہلو میں
ایک امت میں مرتبہ علیا پانا صدیقیت اسی سے مراد ہے
نمبر دو ۔۔۔۔
اول روز سے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینا۔
سوم۔۔۔۔۔۔
نبوت کے شروع کئے ہوئے کاموں کو اتمام تک پہنچانا۔
چہارم۔۔
آخرت میں علؤ مرتبہ
اس مرتبہ کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مقدسہ سے کیا جا سکتا ہے۔
ایک حدیث مبارکہ ترمذی میں ہے کہ ہم پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ دے دیا ہو مگر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان کا جو احسان ہمارے ذمہ ہے اس کا بدلہ اللہ تعالی قیامت کے دن دیں گے ۔
اس طرح ایک جگہ صحیح بخاری میں ہے کہ ابو بکر تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر بھی میرے رفیق ہوں گے ۔
اسی طرح ترمذی میں ایک جگہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت محمدیہ میں تم وہ شخص ہو جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے ۔
اسی طرح حدیث کی ایک اور کتاب میں آتا ہے کہ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے نفع دیا ۔
حدیث کی کتب میں ایک جگہ روایت میں آتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔
اسی طرح ترمذی میں ایک جگہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ الہی ابو بکر کو قیامت کے دن جنت میں میرے ہی درجے میں جگہ دینا ۔
اسی طرح ابن حاکم میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر اللہ نے تم کو دوزخ سے آزاد کر دیا ۔
اسی طرح ابن حاکم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے کہ اللہ پاک نے سب سے بڑی خوشنودی عطا کی ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑی خوشنودی کیا ہے؟ فرمایا اللہ تعالی مخلوق کے واسطے تجلی عام فرمائے گا اور تمہارے واسطے تجلی خاص فرمائے گا ۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل کا اگر تذکرہ کیا جائے تو حدیث کی کتب میں 181 حدیث ایسی ہیں جن میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ ملتا ہے ۔
انہیں حدیث کی کتابوں میں 88 حدیثیں ایسی ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت مشترکہ بیان ہوئی ہے اسی طرح کی ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل مجموعی طور پر بیان ہوئے ہیں اسی طرح چودہ حدیثیں ایسی ہیں جن میں چاروں خلفاء راشدین کے فضائل مجموعی طور پر ذکر ہوئے ہیں 16 حدیث ایسی ہیں جن میں خلفاء راشدین کے ساتھ دوسرے صحابہ کرام کے فضائل بیان ہوئے ۔
اور سینکڑوں حدیث ایسی ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کی شان میں صادق آتی ہیں جن میں عمومی طور پر مہاجرین و مجاہدین مومنین اصحاب بدر اور صحابہ کرام کے فضائل بیان ہوئے ۔

عابد یہ کہہ رہی ہیں میرے دل کی دھڑکنیں
اصحابہ ہیں نجوم تو صدیق ماہتاب

خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ پر مختلف زبانوں میں اور مختلف ادوار میں سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور انشاءاللہ تاقیامت لکھی جاتی رہیں گی اس ذات پاک کا لاکھ شکر کہ اس نے زیر نظر تحریر میں مجھ جیسے کم علم کو بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم ترین محسن کے سیرت نگاروں کی صف میں شامل ہونے کی توفیق بخشی ۔
میں اگر مختصر یہ کہوں کہ انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد امت کے سب سے بڑے آدمی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تھے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
یہ ان کی فضیلت عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی تمام اہل حق کے نزدیک مسلم رائے ہے اور حضور صل وسلم کے وصال کے بعد بھی آج تک مسلم چلی آ رہی ہے ۔

آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے۔
بالغ مردوں میں سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

ابتدائی زندگی!
واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ رضی اللہ عنہ کی مکہ میں ولادت ہوئی۔آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام پہلے عبدالکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا، آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا۔ مکہ میں آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔ کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ رضی اللہ عنہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا۔ مزاج میں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ بعثت کے اعلان کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ایمان لانے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ آپ رضی اللہ کی دعوت پر ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی۔

سالار نقشبندیہ!
سلسلہ نقشبندیہ کے اقرب طرق یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی راستہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ تک پہنچنے کا وسیلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ ظاہر ہے وسیلہ جس قدر قوی ہوگا راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔

ارادہ ہجرت!
جب قریش مکہ کے مظالم اپنی انتہا کو چھونے لگے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی۔ اہل ایمان کی بڑی تعداد نے اس پر لبیک کہا اور حبشہ کی جانب ہجرت کرنا شروع کردی۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ بھی حکم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے حبشہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
تاہم اہلیان مکہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی عزت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے سفر کا کچھ ہی حصہ طے کیا تھا کہ کفار مکہ کے ایک طاقتور سردار ابن دغنہ سے برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے باوجود ایمان نہ لانے کے آپ رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور اپنی حمایت اور پناہ پیش کردی۔ اس سے اندازا کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان ہوجانے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کی مکہ میں کس قدر عزت و منزلت تھی۔

القاب و خطاب!
صدیق اور عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے خطاب ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے۔
آپ رضی اللہ عنہ کو دو موقعوں پر صدیق کا خطاب عطا ہوا۔ اول جب آپ رضی اللہ عنہ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ رضی اللہ عنہ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی ۔
اس روز سے آپ رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔

مدینہ ہجرت!
جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا تو آپ رضی اللہ کو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہمسفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ رضی اللہ نے تمام مواقعوں بالخصوص غار ثور میں قیام کے دوران حق دوستی ادا کردیا۔ آپ رضی اللہ کو اس سفر ہجرت کے حوالے سے میں " ثانی اثنین " کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ (سورۃ توبہ 40 )

ایثار و سخاوت!
آپ رضی اللہ کو بدر ،احد ،خندق ،تبوک، حدیبیہ ،بنی نضیر ، بنی مصطلق ،حنین، خیبر،فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپ رضی اللہ نے جو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلی مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس غزوہ میں سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترغیب پر تمام صاحب استطاعت صحابہ نے دل کھول کر لشکر اسلامی کی امداد کی مگر آپ رضی اللہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی کہ آپ رضی اللہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اے ابوبکر ! گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے"؟ تو آپ رضی اللہ نے عرض کی " گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کافی ہے "۔
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

دور رسالت میں امامت!
دور رسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز وں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ رضی اللہ نے مسجد نبوی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر مصلائے رسول پر 17 نمازوں کی امامت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اقدام آپ رضی اللہ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ ایک مختصراً واقعہ یوں بھی تاریخ اسلام کی کتب میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ نماز کے اوقات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ سے باہر تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ پا کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز کی امامت کا کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امامت کرواتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پسند کرتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کی امامت کرے۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتماد کا اظہار تھا کہ آپ رضی اللہ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں گے چنانچہ آپ رضی اللہ پہلے خلیفہ مسلمین منتخب ہوئے۔؟

اول امیر المومنین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے آپ رضی اللہ کو جانشین رسول مقرر کیا گیا۔ آپ رضی اللہ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔ بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ رضی اللہ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔
میں آپ رضی اللہ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔
اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی۔
میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے۔ جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے۔ اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اس کو دلواؤں۔ اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔ (طبری۔ ابن ہشام)

طرز حکمرانی!
امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپ رضی اللہ نے قصد کیا کہ آپ رضی اللہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جا سکے۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ رضی اللہ سے عرض کیا " یا امیرالمومنین ! آپ رضی اللہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟" آپ رضی اللہ نے فرمایا "تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا"۔ حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا " اب آپ رضی اللہ امیر المومنین ہیں"،" تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟"۔ آپ رضی اللہ نے فرمایا " بات تو آپ رضی اللہ کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟"۔ حضرت عمر رضی اللہ نے عرض کیا " آئیے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ کے پاس چلتے ہیں اور ان سے مشورہ کرتے ہیں۔
(واضح رہے کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے بیت المال کی نگرانی بھی آپ رضی اللہ ہی کے ذمہ تھی۔)
حضرات شیخین ، امین الامت کے پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی۔ امین الامت نے فرمایا " اب ابوبکر رضی اللہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ خلافت کے معاملات کو نبٹانے کے لئے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے۔ لہذا ان کی اور ان کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ " جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا"۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ رضی اللہ کا گزارہ نہیں ہو سکے گا " آپ رضی اللہ نے فرمایا "اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا"۔
چنانچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔
بعد ازاں آپ رضی اللہ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروا دی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپ رضی اللہ کو میٹھا مرغوب تھا۔ اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا ,
آپ رضی اللہ نے پوچھا میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپ رضی اللہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپ رضی اللہ نے فرمایا " یہ کہاں سے آیا؟ "۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا " گھر میں بنایا ہے" آپ رضی اللہ نے فرمایا " جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں؟"۔ زوجہ محترمہ رضی اللہ نے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپ رضی اللہ نے یہ سن کر فرمایا " اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے۔ لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے"

یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیغمبر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہر حرف کی مکمل پاسداری کی۔ آپ رضی اللہ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔ مغربی مورخین (جو عموما تاریخ اسلام کے واقعات بیان کرنے میں تعصب اور جانبداری سے کام لیتے آئے ہیں) عہد صدیقی کی کچھ ان الفاظ میں تشریح کرتے ہیں۔ " حضرت ابوبکر رضی اللہ کا دور گو کہ نہایت مختصر تھا مگر خود اسلام ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور کا اتنا احسان مند نہیں جتنا ابو بکر رضی الله کا ہے۔

کارہائے نمایاں!
جیش اسامہ کی روانگی
اس لشکر کی تشکیل رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عہد مبارکہ میں ہی کردی تھی تاہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد ریاست الاسلامی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے حق میں نہیں تھی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ نے موقف اختیار کیا کہ اس لشکر کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بذات خود فرمائی ہے اس لئے اس کی روانگی میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں۔ اس لشکر نے زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور فتوحات شام کا دروازہ کھول دیا۔

فتنہ منکرین زکوۃ!
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوۃ کا تھا۔ آپ رضی اللہ نے فیصلہ کیا کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائےگا کیونکہ یہ غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ آپ رضی اللہ نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات یکساں ہیں اس لئے سب کو یکساں معاوضہ دیا جائے اور ان کی ضروریات بیت المال سے پوری کی جائیں۔

انسدادفتنہ ارتداد!
فتنۂ ارتداد کی جنگیں
ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دور کے شروع میں فتنہ ارتداد زوروں پر تھا لیکن صدیق اکبر رضی اللہ کی مستقل مزاجی اور صبر سے اسلام پر خطرناک ترین دور بخیر و عافیت ان کی موجودگی میں ختم ہوا اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ آپ رضی اللہ نے اس فتنہ کے انسداد کی مہم پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کو مامور کیا جنہوں نے کئی مرتدین بشمول مدعی باطل طلحہ اور مسیلمہ کذاب جیسے خطرناک عناصر کا مکمل خاتمہ کردیا۔

تسخیر عراق و شام!
آپ رضی اللہ نے مملکت اسلامیہ کے دونوں جانب موجود اس وقت کی بڑی طاقتوں کو للکارا ۔ ایک جانب شام پر تسخیر کی خاطر پہلے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ کے لشکر کو شام روانہ کیا جس نے قیصر روم کی افواج کو شکست فاش دے کر شام کی فتوحات کا آغاز کیا۔ بعد ازاں حضرت ابوعبیدہ ا بن الجراح رضی اللہ اور یزید بن ابوسفیان رضی اللہ کی قیادت میں لشکر کشی جاری رہی یہاں تک کہ یہ جنگی لحاظ سے اہم ترین صوبہ قیصرروم کے اقتدار سے نکل کر اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔

دوسری جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ اور حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ جیسے مایہ ناز جرنیلوں کے زیر قیادت فوجیں روانہ کرکے شاہ کسری کے اقتدار پر زبردست ضرب لگائی ۔

تدوین ‌قرآن!
عہد خلافت میں آپ رضی اللہ کے زریں کارناموں میں ایک قرآن پاک کو یکجا کرکے ایک مصحف کی تشکیل کرنا ہے۔
اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ عربوں میں سٹوریج کی قوت کو نہایت اہمیت حاصل تھی۔ کسی بھی چیز کو سٹوریج کی بنیاد پر یاد رکھنا ، تحریر ی صورت میں یاد رکھنے پر فوقیت رکھتا تھا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ کی ایک بڑی تعداد کو قرآن کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا۔ عہد صدیقی رضی اللہ میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حفاظ کرام صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمایا۔
اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ آنے والے دور میں حفاظ کی کمی کے باعث قرآن کریم میں اختلاف پیدا نہ ہوجائے۔ آپ رضی اللہ نے یہ رائے صدیق اکبر رضی اللہ کے سامنے رکھی کہ ‌قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے۔ آپ رضی اللہ نے اول تو انکار کیا مگر جب اکابر صحابہ رضی اللہ نے اصرار فرمایا تو آپ رضی اللہ نے اس کو قبول فرما لیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ کو اس قرآن پا ک کو ایک مجوعہ کی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا جنہوں نے صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ اور متفرق اورا‌ق کو یکجا کرکے یہ خدمت انجام دی۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ
کے دور خلافت میں اسی صحیفہ سے نقول کروا کر دیگر صوبہ جات میں بھجوائی گئیں۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے وقت صحابہ کرام کی تسکین کی خاطر کے لئے آپ رضی اللہ کی استقامت اور خطبے کے ذریعے ان میں تسکین قلب پیدا کرنا اور امت میں انتشار کے خدشہ کے پیش نظر بار خلافت قبول فرمالینا، قرآن کریم کی تدوین مرتدین اور منکرین زکوۃ سے اعلان جہاد، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ کی قیادت میں شام کی جانب لشکر روانہ کرنا اور اس عزم پر ثابت قدم رہنا ،مملکت شام کی جانب افواج کی روانگی اور انہیں کمک پہنچانا، خلافت اسلامی کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع واستحکام اور عامتہ المسلمین کی فلاح کے لئے اقدامات،اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنا آپ کی دینی و مذہبی خدمات کے کارہائے نمایاں شمار ہوتے ہیں۔
فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَواْ․(البقرة:۱۳۷)
اگر تم ایمان اس طرح لا ؤ جیسا کہ ایمان صحابہ کرام لائے ہیں تو تحقیق تم فلاح پا جاؤ گے۔

إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَمِيدٌ ( التوبہ: ٤٠)
اگر تم رسول کی مدد نہیں کروگے تو (یاد رکھو) اللہ ہی نے ان کی مدد کی تھی ، جب کہ کفر کرنے والوں نے ان کو (وطن سے) نکال دیا تھا ، دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ؛ کہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے : گھبراؤ مت ، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہیں ؛ چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکون و طمانینت اتاری ، اللہ نے ان کو ایسے لشکر سے تقویت پہنچائی ، جن کو تم نے نہیں دیکھا ، کفرکرنے والوں کی بات کو اللہ نے نیچاکردیا اور اللہ ہی کا کلمہ سر بلند رہا اوراللہ زبردست وحکمت والے ہیں ۔

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِوَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (الزمر: ٣٣)
اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مان لیا وہی لوگ پرہیزگار ہیں

انبیاءکرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انھیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں، صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے، بصورت دیگر ایمان ناقص ہے، یہ دین چونکہ ہمارے پاس انھیں کے واسطے سے پہنچا ہے اس لیے وہ ہمارے ماں باپ سے زیاده ہمارے محسن ہیں، نبی ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا:لا تَسُبُّوا أصْحَابِي ، فلَوْ أنَّ أَحَدَكُمْ أنْفَقَ مِثْلَ أحدٍ ذهبًا، ما بَلَغَ مُدَّ أحدِهم ولا نَصِيفَهُ، میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد اور اس کے آدھے کے برابر نہيں ہوسکتا، (بخاری: ۳۶۷۳)
تمام صحابہ فضیلت میں ایک درجہ کے نہیں بلکہ وہ فضیلت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں قرآن میں ہے:
لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولئكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ
الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِ.
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر میں!
میں نے جس شخص پر اسلام پیش کیا اس نے پس وپیش سے کام لیا مگر ایک واحد ابوبکر رضی اللہ تھے جنہوں نے میری ایک آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کیا۔ابو بکر رضی اللہ کے مال نے مجھے جتنا نفع پہنچایا اتنا نفع مجھے کسی کے مال سے نہیں پہنچا ۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے روتے ہوئے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! میں اور میرا مال سب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ہے۔
میں اگر اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست و خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
ایک موقع پر سرکار صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج سے مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کردیئے جائیں آ‏ئندہ صرف ابوبکر رضی اللہ کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا۔آپ رضی اللہ امت پر اتنے شفیق تھے کہ ایک روز سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "میری امت پر ان میں سب سے مہربان ابوبکر ہیں۔ "(ترمذی)
تم (ابوبکرصدیق) غار میں بھی میرے ساتھ رہے اور بروز قیامت حوض کوثر پر بھی میرے ہمراہ ہوگے۔ (ترمذی)
انبیاء کرام کے سوائے سورج کبھی ابوبکر سے بہتر آدمی پر طلوع نہیں ہوا۔
کسی قوم کے لئے بہتر نہیں کہ ان میں ابوبکر ہوں اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے۔
اے ابوبکر ! تم کو اللہ جل شانہ نے آتش جہنم سے آزاد کردیا ہے۔ اسی روز سے آپ کا لقب عتیق مشہور ہوگیا۔
ایک روز آپ رضی اللہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کو بروز قیامت جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ " ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ہاں ابوبکر ! مجھے امید ہے کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو" (بخاری)
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک روز ارشاد فرمایا " ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا مگر ابوبکر رضی اللہ کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اللہ جل شانہ ہی عطا فرمائے گا"۔
آپ رضی اللہ کو یہ اعزاز بھی تنہا حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ کی مسلسل چار نسلوں کو شرف صحابیت حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ کے والد گرامی حضرت ابی قحافہ آپ رضی اللہ خود ، آپ رضی اللہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ اور پوتے ابو عتیق محمد رضی اللہ بھی شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ساری زندگی آپ رضی اللہ پر کسی دوسرے کو فضیلت نہیں دی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ " حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔

ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ " اگر ابوبکر رضی اللہ تعالی شب ہجرت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اور مرتدین سے قتال کا کارنامہ مجھے دے کر میری ساری عمر کے اعمال لے لیں تو میں سمجھوں گا کہ میں ہی فائدے میں رہا"۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ " ابوبکر رضی اللہ تعالی نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ اپنے بعد آنے والے کو مشقت میں ڈال گئے"۔

اس عظیم خلیفہ نے ہر معاملے میں اپنا وہ ہی معیار رکھا جو اس وقت کسی عام مزدور کا ہوا کرتا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس رب کی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور ابوبکر رضی اللہ تعالی سے اس کی تصدیق کروائی۔(تاریخ خلفاء)

حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں "اس امرپر تمام امت کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی نے بے خوف و نڈر ہوکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق کی اور اس میں کسی قسم کی کوئی جھجک سرزد نہیں ہوئی۔
اقوال!
تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی تحقیر نہ کرے، کیونکہ اللہ جل شانہ کے نزدیک ادنی درجے کا مسلمان بھی اعلی درجہ رکھتا ہے۔
ہم نے بزرگی کو تقوی میں، بےنیازی کو یقین میں اورعزت کو تواضح میں پایا۔ اللہ جل شانہ وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے کئے جائیں۔ جس نے پنج وقتہ نمازیں پابندی وقت کے ساتھ خشوع وخضوع سے ادا کیں تووہ اللہ کی حفاظت میں آگیا۔
اے لوگوں ! اللہ کے خوف سے رو، اگر رو نہ سکو تو رونے کی کوشش ضرور کرو۔ مسلمان کا حق مارنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
جس جسم کی غذا حرام ہو وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
سچ بولنا اور نیکی کرنا جنت اور جھوٹ بولنا اور بدکاری کرنا دوزخ ہے۔
جس کام کے کرنے کا اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت کا وعدہ فرمایا ہے اس کے کرنے میں جلدی کرو۔
فرمایا کہ
اگر بھائی دوسرے بھائی کے حق میں دعا کرتا ہے تو وہ ضرور مستحاب ہوتی ہے,
چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب گیلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ

مُسّلَم ہے محمدؐ سے وفا ، صدّیقِ اکبر کی
نہیں بُھولی ہے دُنیا کو ادا ، صدّیقِ اکبر کی

ہم اُن کی مدح گوئی داخلِ سنّت نہ کیوں سمجھیں
نبیؐ تعریف کرتے تھے سدَا ، صدّیقِ اکبر کی

رسولُ اللہ کے لُطف و کرم سے یہ مِلا رُتبہ
مدد کرتا رہا ہر دَم خدا ، صدّیقِ اکبر کی

کلامُ اللہ میں ہے تذکرہ اُن کے محامد کا
زمانے سے بیاں ہو شان کیا صدّیقِ اکبر کی

نجابت میں ، شرافت میں ، رفاقت میں ، سخاوت میں
ہُوئی شہرت یہ کس کی جا بجا ؟ صدّیقِ اکبر کی

وہ خود اک صدق تھے کوئی اگر اِس رازکو جانے
صداقت ہی صداقت تھی صدا صدّیقِ اکبر کی

زمیں پر دُھوم ہےاُن کی ، فلک پر اُن کے چرچے ہیں
زمین و آسماں پر ہے ثناء صدّیقِ اکبر کی

مؤرِخ دَم بخود ہے سَر بسجدہ ہے قلم اُس کا
تعالَی اللہ ! یہ شانِ عُلیٰ ، صدّیقِ اکبر کی

جو اُن کا ہے ، رسولُ اللہ اُس کے ہیں ، خدا اُس کا
ولایت کا وسیلہ ہے ، وِلا صدّیقِ اکبر کی

کمی کیسی نصیرؔ اُن کے مدارج میں ، مراتب میں
بڑی توقیر ہے نامِ خدا ، صدّیقِ اکبر کی

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے اور بیماری کی شدت کی وجہ سے بستر پر سو رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے حاضرخدمت ہوئے اور آپ کو بستر مرض پر پڑے دیکھ کر غمگین ہوگئے۔
جب واپس اپنے گھر گئے تو غم کی شدت کی وجہ سے بیمار پڑ گئے اور صاحب فراش ہوگئے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفایاب ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نظر پڑتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا اور انہوں نے دو شعر کہے ،،
ترجمہ،،
میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو میں نے انکی عیادت کی ، پھر میں انکے غم میں بیمار ہوگیا ، جب میرے حبیب شفا یاب ہوگئے تو وہ میری عیادت کو آئے اور انکے چہرے پر نظر پڑتے ہی میں بھی شفا یاب ہوگیا ۔
یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کمال محبت کا ایک نمونہ تھا۔
اللہ ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کی سچی محبت نصیب فرمائے- آمین(من وسایا الرسول ص:265)
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل ترین انسان
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے آگے کیوں چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہیں؟
اس کے بعد فرمایا:
جتنے لوگوں پر پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں (کتاب السنتہ 575/2،ح:1224)
💕سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ محبتِ مصطفی ﷺ میں وہ مقام رکھتے ہیں کہ اولین و آخرین میں کوئی بھی اس مقا م تک نہ پہنچ سکا ۔یہ صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس بات پر خود محبوب دو جہاں ﷺ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہے ۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ خود شمع مصطفویﷺ نے پروانہ شمع مصطفوی ﷺکے بارے میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے حسان کیا آ پ نے میرے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی اشعار کہے ہیں۔ عرض کی ہاں آقا! حضورﷺ نے فرمایا ذرا کہو میں بھی تو سنوں ۔

چنانچہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے :
وَثَانِیَ اثنَینِ فِی الغَارِ المُنِیفِ وَقَد
طَافَ العَدُ بِہ اِذ صَاعِدُ نِ الجَبَلَا
وَکَانَ حُبُّ رَسُولِ اللّٰہِ قَد عَلِمُوا
مِنَ البَرِیَّةِ لَم یَعدِل بِہ رَجُلَا
”سیدنا ابو بکر صدیق مقدس غار ثور میں آپ ﷺ کے ثانی اثنین تھے جبکہ دشمن پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اس غار کے ارد گرد گھوم رہے تھے ۔دنیا جانتی ہے کہ عالم انسانیت میں کوئی بھی محبت رسولﷺ میں آپکے ہم پلہ نہ ہو سکا۔“

یہ شعر سن کر حضور پرنور ﷺمسکرائے یہاں تک آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں پھر فرمایا: صَدَقتَ یَا حَسَّانُ ھُوَ کَمَا قُلتَ۔”اے حسان ! تو نے سچ کہا تو نے جو تعریف انکی کی ہے وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے ۔“(تفسیر روح المعانی)

حضور انور ﷺ نے فرمایا کہ میری محبت میں واقعی وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ چونکہ قرب و معیت کی بنیاد عقیدت و محبت پر ہوتی ہے ۔جب حضور اکرم ﷺ نے آپکی انتہائی محبت پر مہر تصدیق ثبت فرما دی تو ثابت ہو گیا کہ بارگاہِ مصطفویﷺ میں جو قرب و معیت آپ کو نصیب ہوئی کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی ۔

اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو فضیلت و عظمت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سمجھ کر راہ ہدایت نصیب فرمائے ۔
سیدنا ابو بکر صدیق حدیث کی روشنی میں
کاش ان احادیث کا ہی حیا کیا ہوتا
باغِ جنت کے پھول لایا ہوں
میں حدیثِ رسول لایا ہوں
(1)اے ابوبکر !بے شک میری امّت میں سے تم پہلے شخص ہو جو جنّت میں داخل ہو گے۔(ابوداؤد،4/280،حدیث: 4652)

(2)جس قوم میں ابوبکر موجو د ہوں تو ان کے لئے مناسِب نہیں کہ کوئی اور ان کی امامت کرے۔ (ترمذی، 5/379، حد یث: 3693)

(3)(اے ابوبکر!)تم آگ سے اللہ تعالٰی کے آزاد کردہ ہو۔ (ترمذی، 5/382،حدیث:3699)

(4) مجھے کسی مال نے وہ نفع نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا۔ (ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)

(5) (اے ابوبکر!) تم میرے حوضِ کوثر اور غار کے ساتھی ہو۔ (ترمذی، 5/378، حدیث: 3690)

(6)اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرا بھائی اور دوست ہے۔(مسلم، ص998، حدیث: 6172) ([1])

(7)ہم نے ابوبکر کے سوا سب کے احسانات کا بدلہ دے دیا ہے البتّہ ان کے احسانات کا بدلہ اللہ کریم قیامت کے دن خود عطا فرمائے گا۔ (ترمذی،5/374، حدیث:3681)

(8)بے شک تمام لوگوں سے بڑھ کر اپنی جان و مال سے میرے ساتھ حسنِ سلوک ابوبکر نے کیاہے۔ (ترمذی، 5/373، حدیث: 3680)

(9)جسے دوزخ سےآزاد شخص کو دیکھنا ہووہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ (معجم اوسط،6/456،حدیث: 9384)

(10)حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں سوال کیا:کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے تاروں کے برابر ہیں؟ارشاد ہوا: ہاں! عمر (کی نیکیاں آسمان کے تاروں کے برابر ہیں)۔ انہوں نے دوبارہ عرض کی: حضرت ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے؟ سرکارِ نامدارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کی مثل ہیں۔

(مشکوٰۃ،2/423، حدیث: 6068)

(11) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:لوگوں میں سے آپ کو زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا:عائشہ۔دوبارہ عرض کی گئی: مَردوں میں سے کون؟ ارشاد ہوا:ان کے والد (یعنی ابوبکر صدّیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔ (بخاری، 2/519، حدیث:3662)

(12)نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ حاضرین سے روزہ،نمازِ جنازہ ، مسکین کو کھانا کھلانے اور مریض کی عِیادت سے متعلّق سوال کیا کہ آج کس نے یہ اعمال کئے ہیں؟ حضرت سیِّدُنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر مرتبہ عرض کرتے:میں نے یہ عمل کیا ہے۔ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ تمام اوصاف فقط اسی شخص میں جمع ہوں گے جو جنّتی ہوگا۔ (مسلم، ص398،حدیث:2374)
شیخ السلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ قران کریم میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کو وہی معیت الہی شامل ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود لفظ '' معنا '' ارشاد فرما کر ظاہر کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ دونوں ایک ہی معیت میں شامل ہیں,
وفات!
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ 13 ہجری کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل کیا تھا اس دن موسم نہایت سرد تھا اور اسی کے اثر سے غسل کے بعد بخار ہوگیا جو مسلسل پندرہ دن تک قائم رہا ۔
بخار کی شدت کی وجہ سے صحت کمزور ہوگئے تھے یہاں تک کہ مسجد کا نے کی طاقت بھی نہ رہیں چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ امامت کی خدمت انجام دے ۔
وفات کے بارے میں طبری نے دو اور روایت بھی نقل کی ہے ۔
ایک روایت یہ ہے کہ ایک سال پہلے کسی یہودی نے ان کو زہر ملے چاول کھلا دیے تھے اسی زہر کا اثر ظاہر ہوا تھا ابن سعد اور امام حاکم کے بیان کے مطابق کسی نے قیمہ پڑے دلی میں زہر ملا کر بھیجا تھا اسے مشہور طبیب حارث بن کلدہ کے ساتھ بیٹھ کر نوش فرما رہے تھے کہ حارثہ نے کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ کھینچ لیجیے باخدا مجھے اس میں زہر معلوم ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک سال میں اثر کرتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے ہاتھ کھینچ لیا لیکن دونوں پر زہر اثر کر گیا تھا اور دونوں نے ایک سال بعد ایک ہی دن وفات پائی ۔
دوسری روایت یہ ہے کہ بقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کا اس قدر شدید صدمہ ہوا کہ اندر ہی اندر گرتے رہے یہاں تک کہ سوا دو سال بعد شدید بخار میں مبتلا ہوگئے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق بخار کا ظاہری سبب یہی تھا کہ انہوں نے سرد موسم میں غسل کر لیا تھا جسم کمزور تھا اس نے سر اس ہوا کا اثر قبول کر لیا اور وہ بخار میں مبتلا ہوگئے۔
علالت کا سارا زمانہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے اسی گھر میں گزرا جو مسجد نبوی کے قریب تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا تھا ۔
ایام علالت میں اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کے لیے آتے رہتے تھے اور رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے ان کی خبر گیری کا زیادہ موقع ملا ۔
جبالۃ زیادہ بڑھ گئی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے جانشین کی فکر ہوئی ان کے سینے میں خیرخواہی عمر کا جذبہ موجزن تھا اس نے انہیں مجبور کیا کرنا جانشین نامزد کر دیں تاکہ ان کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔
انہوں نے اپنی جانشینی کے لیے کیسی شخصیت کو منتخب کیا جو ہر لحاظ سے منصب خلافت کے اہل تھے یہ شخصیت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام خاندان تھے اور نہ رشتہ دار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ قریش کی شاخ بنو تمیم سے تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ کا بنوا دیں سے اس نے خلافت کےلئے ان کی نامزدگی میں خویش پردری کا شائبہ نہ تھا بلکہ اس کی تہہ میں صرف خیر خواہی کا جذبہ کارفرما تھا ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عیادت کے لیے آئے تو ان سے پوچھا اگر میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی کو اپنا جانشین نامزد کر دوں تو خلافت کے لیے ان کی اہلیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔؟
انہوں نے کہا وہ بہترین آدمی ہے لیکن سخت مزاج ہے ۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالی نے فرمایا عمر بھر کی سختی کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھ کو نرم دیکھتے تھے اور ان کا اصل حال یہ ہے کہ جب مجھے غصے میں دیکھتے تو میرا غصہ ختم کرنے کی کوشش کرتے اور جب وہ مجھے کچھ زیادہ نرمی کرتے دیکھتے تو سختی کا مشورہ دیتے ۔
پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی سے مشورہ کیا تو انہوں نے برملا کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا زہر ان کے باطن سے اچھا ہے اور ان جیسا ہمیں کوئی نہیں۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ حضرت اسید بن حضیر اشہلی رضی اللہ تعالی عنہ اور کئی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں رائے دی البتہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس فیصلے سے سخت اختلاف تھا انہوں نے آ کر کہا ۔
میاں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر رضی اللہ تعالی کے مزاج میں سختی ہے اور سختی آپ کے مشاہدے میں بھی کئی بار آچکی ہے وہ خلیفہ بن گئے تو اللہ ہی جانے مقام خدا کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے آپ نے ایسے سخت مزاج آدمی کو خلیفہ نامزد کر دیا توکل خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس بات کو سن کر سخت جلال میں آ گئے اور بولے ذرا مجھ کو سہارا دے کر بٹھایا دو لوگوں نے بٹھا دیا تو فرمایا ۔
کیا تم مجھ کو اللہ سے ڈرتے ہو میں جس وقت اپنے رب کے سامنے جاؤں گا اور وہ مجھ سے سوال کرے گا تو کہوں گا کہ الہی میں تیرے بندوں میں اس شخص کو امیر خلیفہ بنایا ہے جو ان سب سے بہتر ہے
نامزدگی کے بارے میں رائے پختہ ہو گئی تو خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو پیغام بھیجا جب وہ آگے تو فرمایا عہد نامہ خلافت لکھو ۔
وہ قلم دوات لے کر بیٹھ گئے تو ان کو عہد نامہ لکھوانا شروع کیا ابھی وہ ابتدائی الفاظ ہی لکھنے پائے تھے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کو غصہ آگیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کا عندیہ بخوبی معلوم تھا انہوں نے ان کی طرف سے خود ہی یہ الفاظ ڈال دیے میں نے اپنے بعد عمر بن خطاب کو خلیفہ بنایا ہے ۔
تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ پڑھ کر سناؤ نے پڑھا تو بے ساختہ پکار اٹھے اللہ اکبر اللہ تمہیں جزائے خیر دے دو میں میرے دل کی بات لکھ لیں اس کے بعد عہد نامہ کی عبارت لکھائی۔
پورے عہد نامہ کا ترجمہ یہ ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ عہد نامہ ابو بکر بن قحافہ کی آخری زندگی کا ہے جبکہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے اور آخرت کے داخلے کی یہ پہلی منزل ہے جہاں کافر مومن ہو جاتا ہے اور بدعقیدہ سے صحیح العقیدہ بن جاتا ہے
اور جھوٹا صداقت شعار ہو جاتا ہے میں نے اپنے بعد عمر بن خطاب کو خلیفہ بنایا ہے لہذا ان کا حکم سنو اور مانو خوب سمجھ لو میں نے اس معاملے میں اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دین اپنی اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے اگر وہ عدل کریں گے تو ان کی نسبت میرا یہی ذہن اور علم ہے اور اگر وہ بدل گئے تو ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پائے گا میری نیت میں کیا لیکن مجھے غیب کا علم نہیں جو لوگ ظلم کریں گے وہ جلد دیکھ لیں گے کہ وہ کس پہلو پر پلٹا کھائیں گے۔
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !!
جب عہد نامہ تحریر ہوچکا تو آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے مجمع عام میں پڑھ کر سنا دی ان کی دعوت پر سب لوگ جمع ہو گئے تو انہوں نے عہد نامہ پڑھ کر سنایا اتنے میں خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہ کا سہارا لے کر بالا خانے پر تشریف لائے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔
کیا تم اس شخص کو پسند کرو گے جس کو خلیفہ مقرر کرو خدا کی قسم میں نے غور و فکر کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا میں نے اپنے کسی قرابت دار کو تجویز نہیں کیا بلکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں تم میرا کہنا سنو اور مانو ۔
سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے سنا اور مانا ۔
اس کے بعد صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نیچے آ کر بستر پر لیٹ گیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو پیغام بھیجا، وہ حاضر ہوئے تو دیر تک ان کو نصیحت کرتے رہے ان نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ
اے عمر میں نے تم کو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خلیفہ مقرر کیا ہے ان سے مشورہ کرتے رہنا یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ کا جو ہر رات میں ہے وہ اس کو دل میں قبول نہیں کرے گا اور جو دن میں ہے رات میں قبول نہیں کرے گا اور اللہ تعالی کسی نفلی عبادت کو بھی قبول نہیں کرتا جب تم فرض ادا نہ کرو اے عمر کیا تم نہیں دیکھتے کہ دل سے ترازو انہی لوگوں کا بھاری ہے جن کے ترازو میں قیامت کو بھاری ہو پڑھا کبھی یہ ہے کہ یوم قیامت کو جس ترازو میں حق کے سوا کچھ نہ ہو اس کو بھاری ہونا چاہیے ۔
(مولانا سعید احمد اکبر آبادی صاحب نے بھی اپنی کتاب صدیق اکبر رضی اللہ میں بہت تفصیل کے ساتھ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی نصیحت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کی گیم کا ذکر کیا )
اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے اللہ میں نے یہ انتخاب سے مسلمانوں کی بہتری کے ارادے سے کیا ہے اس خوف سے کہ ان میں فتنہ پیدا نہ ہوں میں نے جو عمل کیا اس کو تو سب سے بہتر جانتا ہے میں نے خوب اور فکر کے بعد رائے قائم کی ہے تری اور کبھی ترین شخص کو اپنا جانشین بنایا جو مسلمانوں کی راست روی کا سب سے زیادہ خواہشمند ہے میرا بلاوا تو آ چکا اب میں ان کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور ان کی بھاگ دوڑ تیرے ہاتھ میں ہے الہی ان کے ہاتھوں کو صلاحیت دے اور میرے جانشین کو کوئی فائدہ شدید کے زمرہ سے اور اس کی رعیت کو صلاحیت بخش ۔
گرانے والا ایک دن رات کیا کہ خلیفہ ہونے سے اب تک مجھ کو بیت المال سے کتنا وظیفہ ملا حساب کیا گیا تو باختلاف روایت ہزار ہوئے ارشاد فرمایا کہ میرے خلاف زمین بیچ کر بیت المال کرکے واپس دیا جائے چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل کی گئی ۔
پھر پوچھا کہ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد میرے مال میں کس قدر اضافہ ہوا معلوم ہوا کہ غلام ہے جو بچوں کو کھلاتا ہے اور مسلمانوں کی قبروں پر صیقل کرتا ہے ایک اونٹنی ہے جس پر پانی ڈالا جاتا ایک معمولی سی پرانی چادر ایک اور روایت کے مطابق ایک غلام ایک لونڈیاں اور دو اونٹنی تھی۔
ان کے بارے میں وصیت کی کہ میری وفات کے بعد یہ سب چیزیں میری جان شیر کے پاس پہنچا دی جائے ۔
علامہ ابن سعد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کی وفات کے بعد یہ چیزیں تم نے فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو پہنچائیں گی تو بے اختیار رونے لگے تو فرمایا اے ابوبکر آپ اپنے جانشینوں کے لیے کام بہت دشوار کر گے ۔
وظیفہ خلافت اور متروکات کا فیصلہ کرنے کے بعد اپنے گھر کے منتظم حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی رضی اللہ سے میرے ذمہ تمہاری کوئی رقم باقی ہو تو بتاؤ انہوں نے عرض کیا میرے 25 دن ہم آپ کے ذمے باقی ہیں وہ میں نے آپ کو معاف کیا فرمایا چپ رہو اور میرے دوست سے آخر کو گھر سے نہ پیار کروں یہ سن کر وہ رونے لگے ان کو تسلی دی صبر کی تلقین کی اور فرمایا میں جس جگہ جا رہا ہوں جو میرے لئے زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ فورا پچیس دن ادا کر دیے جائیں ۔
انتقال کے دن پوچھا کہ رسول اللہ سلم نے کس صنف ادب ایسے لوگوں نے کہا کہ دو شنبہ
جنہوں نے فرمایا مجھے امید ہے کہ میری موت بھی آج ہی ہوگی کوئی وصیت کی کہ میری قبر رسول اللہ سلم کے پہلوئے مبارک میں بنائی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم مجھ کو غسل دینا انہوں نے کہا مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا فرمایا بیٹا عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے تمہاری مدد کرے گا ۔
وفات کے قریب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ سلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا انہوں نے کہا تین کپڑوں کا فرمایا کہ میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہیں تو یہ چادر جو میرے بدن پر ہی دھو لی جائیں اور ایک چادر نہیں لے لیجئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سن کر کہا بھائی جان ہم اتنے تنگ دست نہیں کہ نیا کپڑا خرید سکیں فرمایا جانے پر نے کپڑے مردوں سے زیادہ زندوں کے لیے موزوں ہیں کفن تو پیپ اور لہو کے لئے ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک پر جو پڑھا تھا یہ دراصل ان کے دبے تھے ان پر نظر پڑی تو فرمایا اس کپڑے کو دھو کر دو کپڑے اور بڑھا نا ان میں مجھ کو کفن دینا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ تو بہت پرانا فرمایا زندہ مردے سے زیادہ نیک پے کا مستحق ہے یہ تو مہلت کے لئے ہے ۔
(سیرت صحابہ میں اس کا ذکر موجودہ سعید انصاری صاحب کی کتاب میں)
آخر وہ وقت آ جو ہر ذی روح کو لازم پیش آنا ہے 22 جمادی الاخر 13 ہجری دو شنبہ کا دن گزرنے پر عشاء و مغرب کے درمیان یہ آفتاب رستوں ہدایت اللہ تعالی کی رحمت میں غروب ہو گیا آخری وقت زبان مبارک پر یہ دعا تھی
(اے رب تو مجھ کو مسلمان اٹھا اور صالحین کے ساتھ حشر کر )
وصیت کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس نے غسل دیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نماز جنازہ پڑھائی پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ قبر میں اتارا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں رسول اکرم صل وسلم کی قبر مبارک کے قریب اس طرح تیار کی گئی تھی کہ جب صدیق اکبر از تو اس میں لگایا گیا تو ان کا سر حضور سلم کی شان مبارک کے برابر رہا وفات کے وقت عمر 63 برس تھی اور مدت خلافت 2 سال 3 مہینے گیارہ دن تھی ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل کرنے کا اشارہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی مل چکا تھا ۔
زندگی میں جو عزت واحترام آپ رضی اللہ تعالی کو ملا بعد وصال بھی آپ رضی اللہ تعالی اسی کے مستحق ٹھہرے اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں محو استراحت ہوئے ہیں۔
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ اور ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467059 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More