سعودی عرب ٢٠٣٠ کا تعلیمی وژن

زیر نظر رپورٹ مرکز شاہ فیصل برائے تحقیق و علوم اسلامیہ ریاض نے شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2030 کے وژن کی عکاس ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں انتہاپسندی، تشدد اور دہشت گرد ی پر مبنی خیالات و افکار کا منبع شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تصانیف اور اخوان المسلمون سے وابستہ اساتذہ ہیں جنہوں نے ایک خفیہ نصاب (hidden curricula) کے ذریعے نوجوانوں میں یہ تکفیری خیالا ت پیدا کیے ہیں۔ اس لیے محمد بن سلمان کے نزدیک نہ صرف سعودی عرب میں دی جانے والی دینی تعلیم میں اصلاحات کی جانی چاہیں بلکہ ہر اس ذریعے کا قلع قمع کردینا چاہیے جو اِن نظریات کو پروان چڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے محمدبن سلمان نے مذہبی پولیس " مطوع" یا " هيئة أمر بالمعروف و نهي عن المنكر ادارے کا خاتمہ کردیا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ان علماء اور مفکرین کو زندان میں ڈال دیا جو اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتے تھے یا اخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے یا جنہیں محمد سلمان کے اس وژن سے اختلاف تھا۔ راقم الحروف نے اس رپورٹ کا ترجمہ و تلخیص کیا ہے۔

Vision 2030:
Religious Education Reform
in the Kingdom of Saudi Arabia
محققہ: ڈاکٹر نجاح العتیبی
تلخیص و ترجمہ : عبدالمالک ہاشمی
مقدمہ :
اس رپورٹ میں سعودی عر ب کی مذہبی تعلیمی نصاب اور درسی کتب میں کی جانے والی اصلاحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ اصلاحات ذو جہتی نقطہ نظر(twofold approach) پر مشتمل ہیں۔
1۔ ایک طرف ، حکومت شدت پسندی کے بیانیے (extremist narratives)کو براہ راست ختم کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو ترغیب دی جارہی کہ وہ اسلامی لٹریچر کی اعتدال پسند تعبیر و تشریح کریں۔
2۔ دوسری طرف ، حکومت نصاب میں جدید مواد ، جیسے سائنس ، فلسفہ ، موسیقی ، اور چینی زبان ، متعارف کرانے کے لئے کام کر رہی ہے جس سے مملکت کو نجی شعبے کی سربراہی میں جدید معیشت کی تشکیل میں مدد ملے گی۔

تعلیم کی اصلاح کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کانقطہ نظر ان کے پیش روؤں سے خاصا مختلف ہے ، اس لیے بھی کہ ان کی توجہ خالص تعلیمی نظام کی طرف مرکوز ہے۔یہ رپورٹ ان اصلاحات کا ایک مختصر خاکہ پیش کرتی ہے۔ ، نیز سعودی عرب میں بھی اس موضوع پر بہت احتیاط کے ساتھ بحث جاری ہے کہ کس طرح اس متنازع مذہبی تعلیم میں اصلاحات لائی جائیں۔11 ستمبر 2011 کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر بم دھماکوں، 2003-07 کے دوران جہادیوں کی طرف سے سعودی عر ب میں کی جانے والی شورش و انتشار اور 2015-17 میں دولت اسلامیہ شام و عراق کے ابھرنے کے بعد مذہبی تعلیم میں اصلاحات ایک عالمی مطالبہ بن کر سامنے آیا ہے۔

کمشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (US Commission on International Religious Freedom (USCIRF) کی" سعودی عرب کے مڈل اسکو ل کی درسی کتب "پر شائع کی جانے والی رپورٹ اور انسداد ہتک عزت لیگ (ADL- Anti-Defamation League) کی حالیہ رپورٹ بعنوان "نفرت اور تشدد کی تعلیم " میں سراہا گیا ہے کہ سعودی عرب اسلامی نصاب میں رواداری پیدا کرنے کی طرف گامزن ہے، لیکن اب بھی کچھ مواد اصلاح طلب ہے۔ لیکن یہ رپورٹیں سطحی رپورٹس ہیں جو سعودی عرب کی ثقافت اور تاریخ کو مدنظر رکھ کر نہیں تیار کی گئی ہیں۔ البتہ زیر نظر رپورٹ میں ہم اس خلا کو پُر کرنے جارہے ہیں۔ ہم سعودی مذہبی تعلیم کا تاریخی لحاظ سے جائزہ لیں گے کہ مختلف ادوار میں اس میں کیا کیا اصلاحات لائی گئی ہیں۔
• ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے سرعام اور بار بار مذہبی انتہا پسندی (religious extremism)کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
• 2015 میں شاہ سلیمان بن عبدالعزیز کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ، انہوں نے مملکت کی درسی کتب اور کمرہ جماعت سے مذہبی انتہاپسندانہ نظریات اور بیانیہ کے خاتمے کی کوششوں کو تیز تر کر دیا تھا۔
• ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے وژن 2030 کے تحت تعلیم کو معاشی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

MBS’s New Educational Policy
انتہاپسندانہ پالیسی کا سد باب:
2017 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ " ہم اپنے اگلے 30 سال ان انتہاپسدانہ نظریات سے نبرد آزماہوتے ہوئے نہیں گزارنا چاہتے ۔ ہم آج ہی اسے کچل دیں گے۔ہم اسی مقام پر واپس آجانا چاہتے ہیں جہاں سے ہماری شروعات ہوئی تھی ۔ ہم دنیا کے سامنے اور دیگر مذاہب کے سامنے اعتدال پسندی کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔" اس بیان کے دو ہفتے بعد ولی عہد نے درجنوں سخت گیر موقف رکھنے والے علماء کو زیر حراست لینے کے احکامات جاری کردیے۔بہت سے علماء جن کو گرفتار کیا گیا، ان کا کسی ناکسی شکل میں اخوان المسلمون سے تعلق تھا۔بہت سے اساتذہ کو بھی نوکریوں سے فارغ کیا گیا جو خفیہ نصاب کو پڑھا نے میں ملوث تھے۔

اسلامی نصاب کی تیاری
اسلامی علوم کا نیا نصاب تیار کیا گیا۔ اسلامی علوم کےچھے مضامین کو ایک دوسرے میں ضم کرکے اسلامی علوم کے لیے مختص گھنٹوں میں کمی کی گئی۔ جیسے مڈل اسکول میں تفسیر کو قرآن کے مضمون میںضم کرکے ایک کتاب بنادیا گیا۔ اسی طرح پانچویں جماعت میں تجوید اور قرآن کے مضمون کی ایک مشترک کتاب تیار کر لی گئی۔ اس کے علاوہ، وزارت مذہی امور نے تمام تحفیظ القرآن کے مدارس پر پابندی لگادی کہ وہ کوئی غیر نصابی سرگرمیاں نہیں کروائیں گے جیسے فکرت آخرت کے لیے قبرستان کی زیارت کرنا تاکہ طلبہ موت سے کچھ سبق حاصل کرسکیں۔ تقریبا 77لاکھ طلبہ پر اس پابندی کا اطلاق ہوا۔

پچھلے بادشاہوں کا کردار- ایک جائزہ
شاہ فیصل اور شاہ عبد اللہ سعودی عرب میں تعلیم کے اصل مصلح اور سرخیل ہیں۔ شاہ فیصل کو پیشہ ورانہ تعلیم (vocational education) کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا ، اس لیے انہوں ملک بھر میں ووکیشنل تعلیم کے اداروں کا جال بچھا دیا۔ شاہ فیصل نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف کا اجرا کیا۔ 1974 میں 800 طلبہ امریکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بھیجے گئے۔

شاہ عبداللہ نے تعلیمی نظام میں جدت پیدا کی۔ انہوں نے 2008 میں نیشنل سنٹر فور ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈی ویلپمنٹ (قیاس ) قائم کیا ۔ تمام نئے اور پرانے اساتذہ کے لیے لازم کر دیا گیا کہ اس مرکز میں تربیت حاصل کر یں گے اوراس سنٹر کے تدریس کے امتحان کو پاس کیے بغیر اسکول میں پڑھا نہیں سکیں گے۔ 2016میں ، 70 فیصد اساتذہ اس امتحان میں فیل ہوگئے۔ فیل ہونے والے اساتذہ کو پاس ہونے کے لیے چار مواقع دیے گئے۔ اس امتحان کے ذریعے غیر اہل اساتذہ کی کھیپ خود بخود فارغ ہوگئی۔

تیز تر اصلاحات (Accelerated Reform)
2005 میں سعودی عرب نے پروگرام برائے شاہ عبداللہ بیرونی وظائف (King Abdullah External Scholarship Program-KASP) شروع کیا۔ اس پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سعودی طلبہ مختلف ثقافتوں ، معاشروں اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ گھلے ملیں تاکہ ان کے اندر رواداری کو پیدا ہوسکے۔ اس پروگرام کے تحت، 2017 میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 87000 تک پہنچ گئی تھی جس میں سے 29000 خواتین طلبہ کی تھی۔

2019 میں ، حکومت سعودی عرب 15 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کی ایک کمپنی کا قائم کی جسے شاہ عبداللہ ایجوکیشنل ڈیولیپمنٹ تطویر کمپنی (King Abdullah Education
Development Company Tatweer) کہتے ہیں ۔ تطویر (جدت ) کے اس کمپنی کے ذریعے حکومت تعلیمی ٹیکنالوجی ، طریقہ تدریس ، نصاب اور تعلیمی بنیادی ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کر کے اس میں جدت پیدا کرنا چاہتی ہے۔ بے تحاشا رقوم مختص کرنے کے باوجود ، اس پراجیکٹ نے اپنے بنیادی مقاصد (mandate aims) حاصل نہیں کیے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے سابق وزیراحمد العیسی اپنی کتاب " سعودی عرب میں تعلیمی اصلاحات "میں رقم طراز ہیں کہ" روایتی اور لبرل بیوروکریٹس کے مابین اختلافات ، سرکاری اداروں کے مابین عدم ہم آہنگی اور منصوبے کے اخراجات میں عدم شفافیت کی وجہ سے تطویر پراجیکٹ کے وہ نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں جس کی توقع کی گئی تھی۔"

نیا بادشاہ ، اور نئی طرز حکمرانی
پچھلے بادشاہوں کے پراجیکٹس کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟ اس کی بڑی وجہ کابینہ کی سطح پر پائے جانے والی اختلاف رائے تھی۔ البتہ شاہ سلیمان نے دو جہت میں تعلیم نظام کی ترقی و جدت کو شروع کیاہے۔ ایک طرف وہ مذہبی درسی کتب اور نصاب میں ترامیم کر رہے ہیں تو دوسری طرف مذہبی تعلیم کےلیے کم وقت اور سائنسی علوم وتخلیقی مہارتوں نکھارنے کے لیے زیادہ وقت مختص کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، نئی تعلیمی پالیسی متعارف کروائی جارہی ہے جو ملک کی معاشی اصلاحات (economic reforms) کو مدنظر رکھ بنائی گئی ہے، جس سے روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکیں گے۔اس طرح ہمارا تعلیمی نظام مارکیٹ سے ہم آہنگ (market oriented) ہوجائے گا۔

ولی عہد ،شہزادہ محمد بن سلمان کا نقطہ نظر شاہ عبداللہ سے ایک لحاظ سے مختلف ہے۔ شاہ عبداللہ نے صرف تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانے کی کوشش کی ، جبکہ محمد بن سلمان نےتعلیمی اصلاحات کو معاشی اصلاحات کا ایک جزو لاینفک بنادیا ہے۔ محمد سلمان کے نزدیک اصلاحات صرف تعلیم میدان میں لانا کافی ہےبلکہ اصلاحات دیگر شعبوں میں بھی لانے کی ضرورت ہے جو تعلیم سے مربوط ہیں۔ مزید برآں، جہاں جہاں سے شدت پسند ذہن کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ان سب ذرائع کا سد باب کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں' مطوع 'کے نام سےمذہبی پولیس کے ادارے کو ختم کردیا ہے۔ 2017 میں بنیاد پرستوں اور اخوان المسلمون کے حامی افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور سینکڑوں علماء ، مفکرین اور صحافیوں کو حراست میں لے لیا۔ قید و بند کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

وژن 2030: معاشی تقاضوں سے مربوط نظام تعلیم
حکومت نے موسم گرما کے سینکڑوں پروگرام متعارف کروائے ہیں جس کا مقصد اساتذہ کی اہلیت کو بڑھانا ہے۔ 2018 میں ، وزارت تعلیم نےخبرات (experience) نامی پروگرام کا آغاز کیا ، جس کے تحت ہر سطح کے ایک ہزار سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو تدریسی اہلیت کو بہتر بنانےکےلیے امریکہ اور یورپ بھیجا گیا۔ 2019 میں وزارت تعلیم نے National Teacher Accreditation Program کا اجرا کیا۔ جو اساتذہ ٹیچر بننے کا امتحان پاس کرلیتے ہیں ، انہیں ٹیچنگ کرنے کا سرٹیفیکٹ دے دیا جاتا ہے۔ اب اس سرٹیفیکٹ کے بغیر کوئی استاد ٹیچنگ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ پروگرام ، شاہ عبداللہ کے نیشنل سنٹر فور ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈی ویلپمنٹ (قیاس ) کا امتداد ہے۔

2021 سے ثانوی سطح پر دونئے مضامین " تخلیقی سوچ" اور " فلسفہ " متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ صدیوں سے جاری رٹے کے نظام(rote memorization) کو ختم کیا جاسکے۔ دوم، وزارت تعلیم نے اسٹینڈرڈ نصاب سے ہٹ کر اب طلبہ کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ تحقیق، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زمینی علوم (earth sciences) میں سے اپنی پسند کے مضامین بھی پڑھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ، اسی سال ثانوی اسکول کے طلبہ کو چینی زبان سیکھنے کے کورس بھی کروائے جا رہے ہیں تاکہ عالمی منڈی میں افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔

وژن 2030 کے تحت بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے نئے وظائف جاری کیے جارہے ہیں، جنہیں وظائف برائے آرٹ و فنون لطیفہ (cultural scholarships in the arts)کا نام دیا گیا ہے۔ ان وظائف میں موسیقی ، فلم سازی، تھیٹر، فن تعمیر (architecture) شامل ہیں ۔ ان تمام مضامین کی تعلیم ماضی میں ممنوع تھی۔ وزیر ثقافت بدر بن عبداللہ کا کہنا ہے کہ " ان وظائف کے ذریعے تفریح و سیاحت(entertainment and tourism) کے شعبے میں افراد قوت کی کھپت کو پورا کیا جائے گا ۔ اس کے لیے ان علوم کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔"

اس کے علاوہ آرٹس و فنون لطیفہ کے مضامین کو اسکول کے نصاب کا شامل کیا جارہا ہے۔ ابتدائی طور پر آرٹ و ثقات کے شعبہ کو ملک سعود یونیورسٹی ریاض ، میں شروع کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ چار سالہ سینما آرٹ (Bachelor of Science in Cinematic Arts) کا ایک ڈگری پروگرام خواتین کی عفت یونیورسٹی میں شروع کیا جارہا ہے۔

وژن 2030 کےمطابق سیاحت کے شعبے میں ٹریننگ کورسز بھی کروائے جارہے ہیں۔ 2018 میں ، ریاض چیمبر آف کامرس نے چھوٹے شہروں میں مہمان نوازی ، سیاحت اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں 1،000 مردوں اور خواتین کو تربیت دی۔ حکومت سعودی عرب نے سیاحت و تفریح کے شعبہ جات میں 17000 نئی ملازمتوں کو تخلیق کیا ہے۔

سعودی عرب نے غیر ملکی یونیورسٹیوں کو پہلی بار ملک میں برانچیں کھولنے کی اجازت دی ہے تاکہ سعودی طلبہ کو ملک ہی میں معیاری تعلیم میسر آسکے۔ اس کےعلاوہ ، شاہ سلمان نے اعلی تعلیم کو پرائیویٹائز کرنے کی طرف قدم اٹھا لیا ہے۔ ابتداء تین یونیورسٹیوں جامعہ ملک سعود ریاض، جامعہ ملک عبدالعزیز جدہ اور امام عبدالرحمن بن فیصل یونیورسٹی دمام میں پرائیویٹ تعلیم حاصل کی جاسکے گی۔




 

Abdulmaalik Hashmi
About the Author: Abdulmaalik Hashmi Read More Articles by Abdulmaalik Hashmi: 11 Articles with 16655 views I want to be a prolific writer... View More