دنیا کی چھت کا یادگار سفر


چین میں بطور صحافی قیام کے دوران مختلف صوبوں اور شہروں میں جانے کے مواقع گاہے بگاہے ملتے رہے لیکن جس علاقے کو زیادہ دیکھنے کی تمنا رہی وہ چین کا خوداختیار علاقہ تبت تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ بھی تھی کہ بچپن میں تبت کریم تقریباً ہر پاکستانی گھر میں دیکھی لہذا تبت کے نام سے ایک عجب سی آشنائی تھی اور دوسرا تبت کے بارے میں پڑھا اور سنا تھا کہ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں موسم بھی شدید سرد ہوتا ہے ،برفباری زیادہ ہوتی ہے اور لوگوں کا رہن سہن بھی نہایت منفرد ہے۔میرا تعلق چونکہ خود وادی کشمیر کے صحت افزاء پہاڑی علاقے سدھن گلی سے ہے لہذا اس باعث بھی تبت کو قریب سے دیکھنے کی خواہش کچھ زیادہ ہی تھی۔

یہ تمنا اُس وقت پوری ہوتی نظر آئی جب دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ صحافیوں کا ایک وفد تبت جا رہا ہے اور آپ بھی اس میں شامل ہیں، ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ تبت سطح سمندر سے کافی بلند ہے جہاں آکسیجن کی شدید کمی جیسے مسائل درپیش آ سکتے ہیں لیکن جب خواہش کی تکمیل مقصود ہو تو پھر ایسی باتیں عام طور پر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔تبت اور بیجنگ کے درمیان فاصلہ بھی کافی زیادہ ہے اور اُس وقت مزید حیرت ہوئی کہ بیجنگ سے تبت کے دارالحکومت لہاسا کے لیے براہ راست فلائٹ کا دوارنیہ ساڑھے چار گھنٹے ہے۔ صبح دس بجے ہمارا جہاز روانہ ہوا ، بورڈنگ کے وقت خاص طور پر درخواست کرکے ونڈو سیٹ رکھوائی تاکہ تبت کے نزدیک پہنچ کر کچھ مناظر کا مشاہدہ کیا جا سکے۔لینڈنگ سے تقریباً تیس چالیس منٹ قبل جہاز برفیلے اور خشک پہاڑوں کے اوپر سے گزرا تو یہ منظر حیران کن تھا ، فلائٹ انتظامیہ کی جانب سے ہدایات دی گئی تھیں کہ پرواز کی ناہمواری کی وجہ سے کوئی مسافر اپنی نشست سے کھڑا نہ ہو ۔خیر لہاسا کے ہوائی اڈے پر جب اترے تو اُس وقت دن کے ڈھائی بج رہے تھے۔کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد ہمیں باہر جانے کی اجازت ملی اور یہ کارروائی اس باعث بھی لازمی تھی کہ تبت چین کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں کووڈ۔19 وبا کا کوئی وجود نہیں ہے لہذا انتظامیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ باہر سے آنے والے افراد ویکسی نیشن کے ساتھ تشریف لائیں۔ہمارے میزبانوں نے تبت کا روایتی تحفہ ایک چادر کی صورت میں پیش کیا ساتھ ہی سر پر رکھنے کے لیے ایک ٹوپی ،پانی کی بوتلیں اور ہونٹوں پر لگانے کے لیےبام بھی دیا گیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ موسم کی شدت کے پیش نظر احتیاطی تدابیر لازم ہیں۔

لہاسا ہوائی اڈے سے ہمارے ہوٹل تک کا سفر تقریباًستر کلو میٹر رہا ، راستے میں جا بجا خشک بلند پہاڑ آپ کونظر آئیں گے ،بجلی کی فراہمی کے لیے پہاڑوں کے بیچوں بیچ بجلی کے کھمبے نصب کیے گئے ہیں ، تعمیراتی سرگرمیوں کی بھرمار ہے ، مختلف علاقوں کو آپس میں ملانے کے لیے دریا اور ندی نالوں پر پل تعمیر کیے گئے ہیں ، عام طور پر پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں آپ شاہراہوں پر جابجا ٹنل دیکھ سکتے ہیں جو تعمیرات میں چین کی مہارت کا ثبوت ہیں ،شاہراہیں کھلی اور کشادہ ہیں اور اطراف میں چین کے دیگر شہروں کی طرح بلند و بالا عمارات بھی موجود ہیں جن کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شائد آپ بیجنگ یا شنگھائی میں موجود ہیں ، شہریوں کے لیے زبردست پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم موجود ہے ، انٹرنیٹ کی 5Gسروس یہاں بھی دستیاب ہے ،عوام کی سہولت کے لیے شاپنگ مالز بھی موجود ہیں۔جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہ بھی جدید ترین سہولیات سے آراستہ ملا جو اس بات کا بھی مظہر ہے کہ تبت سیاحوں کے نزدیک اس قدر پرکشش کیوں ہے۔لہاسا کا موسم عام طور پر خوشگوار رہتا ہے اور موسم گرما میں درجہ حرارت دن کے اوقات میں 30سینٹی گریڈ سے کم اور شام کے وقت 15سینٹی گریڈ سے کم رہتا ہے۔صبح اور شام میں خنکی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور لوگ عموماً جیکٹ ساتھ رکھتے ہیں۔

غرضیکہ تبت آنے سے قبل ایک دورافتادہ پہاڑی علاقے کا جو تصور میرے زہن میں تھا میں نے تبت کو اس سے قدرے مختلف پایا۔یہاں پر امن آزادی کے بعد ستر سالوں میں اقتصادی سماجی ترقی کے اعتبار سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔1951میں تبت کا جی ڈی پی صرف 129ملین یوان تھا جبکہ سال2020 میں یہاں کا جی ڈی پی ریکارڈ اضافے سے 190بلین یوان کی سطح تک بلند ہو چکا ہے۔تبت میں اس وقت شاہراہوں ،ریلوے ، فضائی راستوں اور پائپ لائنوں کا ایک وسیع نیٹ ورک فعال ہے۔تمام دیہی علاقوں میں بجلی ،انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت دستیاب ہے۔زراعت ،جانوروں کی افزائشی صنعت سمیت دیگر تمام مقامی صنعتوں کو بھرپور فروغ ملا ہے۔تبت کے باشندے چین کے دیگر علاقوں کی طرح موزوں رہائشی سہولیات سے لطف اٹھا رہے ہیں ،اس ضمن میں کسانوں اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے حکومت کی جانب سے خصوصی ہاوسنگ اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں۔تبت میں زرائع ابلاغ بشمول ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،اخبارات اور اشاعت کے دیگر زرائع کو بھی بھرپور فروغ ملا ہے۔ تبت کے دیہی عوام اس وقت سیٹلائٹ کی مدد سے 26ریڈیو چینلز اور 54ٹی وی چینلز کی نشریات سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔قدیم تبت کی نسبت جہاں ایک بھی مناسب اسکول موجود نہ تھا آج جدید تبت میں خواندگی کی شرح 95 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔طبی سہولیات کی بہترین فراہمی سے تبت میں شہریوں کی اوسط عمر 1951 میں 35.5سال سے بڑھ کر آج71.1برس ہو چکی ہے جس سے یہاں سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔روزگار کی فراہمی کے حوالے سے بھی مناسب انتظامات کیے گئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں میں روزگار کی شرح پچانوے فیصد سے زائد ہے۔غرضیکہ چینی حکومت کی بہترین پالیسیوں کی بدولت آج تبت چین میں ترقی و خوشحالی کی ایک کامیاب داستان ہے جس نے دنیا کو بتایا کہ اگر آگے بڑھنے کی لگن ہو تو مشکلات پر قابو پاتے ہوئے معجزے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1148 Articles with 436322 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More