کرونا وائرس ان انڈیا‎

انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے سے ملک کے بہت سے شہروں میں شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں آخری رسومات کی ادائیگی اور اس ضمن میں طویل انتظار کے ساتھ ساتھ بہت ہی مشکلات اور دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔
’ہم ہر روز پچاس سے ساٹھ افراد کی چتائیں

اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں انڈیا دوسرے نمبر پر ہے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے انڈیا نے برازیل کی جگہ لے لی ہے اور حکومت اس وبا کی دوسری لہر سے نمٹنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

دوسری وبا کی شدت کی وجہ سے اس کو ’سونامی‘ سے تشبہہ دی جا رہی ہے جبکہ ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور ہر روز ایک ہزار مریض ہلاک ہو رہے ہیں۔
جیسا کی صرف
کمبھ میلہ:کروناکےباوجود8لاکھ افراد دریا کنارے اشنان کیلئے موجود ہوتے ہی ہندووں کو احتیاط کرنا ہوگی

مہاراشٹرا جو ملک میں وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست ہے وہاں شمشان گھاٹوں میں اتنی بڑی تعداد میں لاشیں لائی جا رہی ہیں کہ ان سب کی آخری رسومات ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
پونے شہر کے مردہ خانے میں کام کرنے والے ایک شخص وارن جگنام نے کہا کہ ’ابھی دن کا ایک بجا ہے اور ہم 22 لاشوں کو جلا چکے ہیں۔‘

جگنام نے مزید کہا کہ وہ ہر روز پچاس سے ساٹھ مردے جلا رہے ہیں۔ ’ہمارے پاس مردوں کو رکھنے کے لیے دو ریفریجیریٹر ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لاشیں لائی جا رہی ہیں کہ لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے ساتھ باہر طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘
وارن نے کہا کہ ان کی شفٹ آٹھ گھنٹے کی ہے لیکن کام اتنا زیادہ ہے کہ انھیں کئی کئی گھنٹے شفٹ کے بعد بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
راج کوٹ میں بغیر پی پی ای کے لوگ مردوں کا کریا کرم کر رہے ہیں.

وہ ان چند ورکروں میں شامل ہیں جنہیں مردوں کی چتا جلاتے وقت احتیط کے لیے پی پی ای کٹ مہیا کی گئی ہیں۔

لیکن راجکوٹ اور گجرات جہاں کورونا وائرس کی وبا شدت اختیار کرتی جا رہی ہے وہاں سرکار کے تحت چلائے جانے والے شمشان گھاٹوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو ماسک اور دستانوں کے بغیر کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

سرکاری اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ کبھی کبھار انھیں ایمبولینسوں کے ساتھ جاتے وقت ہسپتالوں سے دستانے مہیا کر دیے جاتے ہیں لیکن اکثر ان کے پاس احتیاط کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔

روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ملک کے کئی بڑے شہروں میں لاشوں کو جلائے جانے اور دفنانے کی جو تعداد سامنے آ رہی ہے وہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی سرکاری طور پر بتائی جانے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

انڈیا کی مغربی ریاست گجرات میں ایک شمشان گھاٹ میں لاشوں کو جلائے جانے کے لیے گیس اور لکڑیاں اتنی دیر تک جلائی گئیں کہ لوہے کے پرزے بھی پگھلنے لگے۔

رشتہ داروں کی لاشوں کے لایے بارہ گھنٹے کا انتظار

صرف شمشان گھٹاوں اور قبرستانوں ہی میں کام کرنے والے مایوسی اور بے بسی محسوس نہیں کر رہے۔
اپنے بیمار عزیزوں کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے ایک ہستپال سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگانے کے بعد لوگوں کو ان کی موت کی صورت میں آخری رسومات ادا کرنے کے لیے بھی طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ ہسپتال دانستہ طور پر لاشیں لوگوں کے ورثہ کے حوالے کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں تاکہ شمشان گھاٹوں پر ایک ساتھ بوجھ نہ ڈالا جائے۔

گجرات کی ریاست سے تعلق رکھنے والے ہیمنت یادو کا کہنا ہے کہ انھیں ایک ہپستال سے اپنے بھائی کی لاش لینے میں 12 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔

ہیمنت کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنے بھائی سے فون پر بات کی تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صحت یاب ہو رہے ہوں۔ ’ہم نے سوچا کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آئیں گے لیکن پھر ہمیں ہسپتال سے فون آیا کہ وہ مر گئے ہیں۔‘

لوگوں کو مردہ خانوں کے باہر قطاروں میں انتظار کرنا پڑ رہا ہے اور انھیں ٹوکن نمبر جاری کیے جا رہے ہیں۔

شکتی لال ترویدی جنہوں نے حال ہی میں اپنے ایک عزیر کا کریا کرم کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ٹوکن جاری ہونے کے بعد بھی مردہ خانے سے اپنے عزیز کی لاش لینے میں انھیں چھ گھنٹے لگے۔

صورت حال انتی خراب کیوں ہے؟

اپریل سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی دوسری لہر سے انڈیا ہل کر رہ گیا ہے۔
انڈیا میں پندرہ اپریل کے بعد سے وائرس کے روزانہ دو لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آ رہے ہیں جو کہ پہلی لہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پہلی لہر کے دوران اس مرض کا شکار ہونے والوں کی روزانہ تعداد زیادہ سے زیادہ 93000 تک پہنچی تھی۔

دہلی، ممبئی، لکھنؤ اور احمد آباد جیسے شہروں میں ہسپتالوں میں نئے مریضوں کو داخلہ دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ دیگر بہت سی ریاستوں سے بھی کووڈ وارڈز اور انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش باقی نہ رہنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

کورونا کے ٹیسٹ کی رپورٹس ملنے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریضوں کا وقت پر تشخیص نہیں ہو رہی اور اس سے ان کے علاج میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی حکومت نے دوسری لہر سے متعلق خدشات کو نظر انداز کیا اور اس کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔

دوسری لہر کی شدت کی وجہ ماہرین کے مطابق ملک میں ہونے والے کرکٹ میچوں میں ماسک پہنے بغیر بڑی تعداد میں شائقین کی شرکت، بڑے بڑے انتخابی جلسے اور ہندوؤں کا سالانہ کمبھ میلا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 153730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.