پنڈ سے صدر پریس کلب چکوال تک

کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ کاؤنٹر موجود ہے ،آج کا لبرل کراما کاتبین کو نہ بھی مانے تب بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کوئی دن کو رات اور رات کو دن کہتا ہے تو کہتا پھرے ہم اس سے بری الذمہ مگر یہ روز روشن کی طرح عیاں کہ آپ کا ہر عمل ہر اچھائی یا برائی کہیں نہ کہیں جمع ہو رہی ہے ،اچھائی کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے جو بظاہر نظر نہ بھی آئے تو آس پاس موجود رہتی ہے آخری مگر ابدی کتاب میں مالک ارض وسما کا فرمان کہ رائی برابر بھلائی ہو یا رائی برابر شر، اس لطیف و خبیر مالک سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں مگر انسان ہے کہ غور کرنے کو تیار ہی نہیں ،اپنی پیدائش سے قبل کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کہاں کس جگہ کس ملک اور کس کے آنگن میں پیدا ہونا ہے ،دنیا میں آنے کے بعد اپنے مستقبل سے بھی اسی طرح بے خبر ،البتہ جو جستجوجاری رکھتے ہیں وہ منزل پالیتے ہیں ،بے شک عزت ذلت،مال و دولت عہدے و مرتبے سب میرے اﷲ کے اختیار میں ہیں جو ہر چیز پر قادر ہے ایک بات مگر طے ہے کہ آپ بھلے نیکی اور بھلائی کی معراج پر نہ پنچ سکیں اپنی استطاعت کے مطابق خیر کی کوشش جاری رکھیں ، اﷲ کو نہ چھوڑیں مگر سب اﷲ پر چھوڑ دیں تو یقین رکھیں اﷲ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا،کوئی نہیں جانتا کل کیا ہونا مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں نے کاروبار حیات کی گاڑی کہاں کہاں دھکیلنی ،مقدر میں کیا لکھا تھا کچھ علم نہیں تھا ،کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک عام سے طبقے بظاہر مڈل کلاس وہ بھی گاؤں کے لحاظ سے جہاں نہ واش روم کی سہولت تھی نہ بجلی کے پنکھوں کی ایک وقت تک،جب بجلی نہیں تو باجماعت نہانے کے لیے گاوں سے تین کلومیٹر دور پتن پر جانا پڑتا واپس آدھے راستے پرپھر وہی حالت ہو جاتی کبھی کبھار نماز ظہر کے بعد داؤ لگ جاتا تو یار دوست تین چار مٹی کے کوزے بھر کر مسجد میں بھی نہالیتے مگر ایک مولوی صاحب کو دیکھ رکھتا اور ایک غسل فرماتا یوں ایک ایک کر کے مراد بر آتی اگر مولوی یا خادم مسجد آ جاتا تو پہلے خود صلواتیں سناتا بعد ازاں شکایت گھر پہنچتی اور پھر کچھ نہ پوچھیئے ،اس وقت کے والد صاحب آج کے پاپا اور ڈیڈی کی طرح دوست نہیں بلکہ اصلی پیو ہوتے تھے اور ہمارے تو اوپر سے ریٹائرڈ فوجی بھی تھے ،اﷲ انہیں غریق رحمت کرے ،غلطی اگر کسی اور کی بھی تو پہلی گیدڑ کٹ اپنے بچے کو لگتی کہ ایسا ہوا کیوں ،پھر بجلی آئی تو حالات بدلے آسودگی بھی آئی مگر اتنی کہ پیدل چلنے والے سائیکلوں پر اور سائیکلوں والے موٹر سائیکلوں تک ترقی کر گئے مگر عمومی حالات وہی رہے جیسے آج بھی گاؤں دیہاتوں میں رہنے والوں کو درپیش ہیں ، کالج سے فراغت کے بعد حالات سے مجبور ہو کر پچیس سال پہلے جب عملی زندگی میں قدم رکھا کہ والدین مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھے تو صرف اﷲ توکل اور بھروسے پر گھر سے پرانی سائیکل جو کبھی ہمیں اسکول کالج لاتی لے جاتی تھی لیکر نکل کھڑے ہوئے اﷲ کی مدد شامل حال رہی عملی زندگی کے پہلے دن ایک لفظ زندگی کی ڈائری سے نکال دیا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں مشکلات آتی ہیں جو عموما بڑی آزمائش لیکر آتی ہیں مگر وہ مرد ہی کیا جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے، اور سائیکل سے شروع ہونے والا سفر پھر یوں کٹنا شروع ہوا کہ اب کوئی ایسی گاڑی نہیں جس کی سواری یا سیلف ڈرائیونگ کا اﷲ نے موقع نہ دیا ہو ایک وقت میں دو دو تین تین گاڑیاں عطا ہوئیں مدت ہوئی بلکہ اب تو یاد بھی نہیں کہ کب آخری بار پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کیا۔جہاں ایک طرف گھر میں واش روم اور مین گیٹ تک کی سہولت نہ تھی وہیں مالک ارض و سما نے شہر کے بہترین ایریا میں اول دس مرلے اور بعد ازاں ڈیڑھ کنال کا خوبصورت ترین گھر عطا کر دیا مال اولاد اچھی فیملی گھر بار دنیا کی ہر وہ آسائش رب نے عطا کی جس کی تمنا کی،گھر کے لا ن میں بیٹھ کر شام کے وقت وجود سراپا سجودمگر اس ذات کا شکر کہاں ادا ہو سکتا ہے، کبھی گاؤں سے تلہ گنگ تک کو ہی دنیا سمجھنے والے عام سے انسان کو دنیا دکھائی ،ملک کا کوئی شہر نہیں جو اپنی گاڑی پر گھو م پھر کر نہیں دیکھا، مجھ عاصی و گنہگار کو فیملی سمیت اپنے اور اپنے حبیب ﷺکے در پر حاضری کی توفیق بخشی،جس کے بعد مجھے یکے بعد دیگرے دو رحمتوں یعنی دو بیٹیوں سے نوازا،فرماں بردار اور تابعدار بیٹا عطا کیاجو اب میرا دست وبازو ہے ، بیس بائیس سال پہلے چکو ال میں روزگار حیات کے ساتھ مجھے بھی صحافت کا شوق چڑھا ،کالج کے بعد مزید عملی و علمی قابلیت بہتر بنانے کے لیے وقت کی کمی کے باعث فاصلاتی تعلیمی نظام کا سہارا لیا،جہاں پر ایک بار پھر اﷲ نے سرخرو کیا ،جب صحافت کے میدان میں طبع آزمائی کی کوشش کی تو پہلے سے موجود بہت بڑے نام خواجہ بابر سلیم ،یونس اعوان،پیر عبدالستار ندیم ،ریاض انجم، عبدالغفور منہاس، امیر عباس منہاس،دانیال سلیم، یسین چوہدری ، فخر محمود مرزا موجود تھے ان سب لوگوں کی موجود گی میں نہیں لگتا تھا کہ ہم جیسے ناقص علم و عقل کے بندے کی کوئی جگہ اس میدان میں بن پائے گی مگر وہی کہ ناممکن کچھ بھی نہیں ،پیر عبدالستارندیم اور فخر محمود مرزا نے حوصلہ افزائی کی جبکہ خواجہ بابر سلیم نے تحریر کی نوک پلک سنوارنے میں بھرپور راہنمائی کی ،محمد ریاض انجم نے اپنے اسٹائل میں جو میں نے لکھا ایک لفظ پر بھی قینچی چلائے بغیروہی من و عن چھاپ دیا،یونس اعوان نے ایک خبر میں ایک لفظ صرف ایک بار یعنی خبر لکھنے میں بھرپور راہنمائی کی،تلہ گنگ میں چوہدری ربانی صاحب نے میری مشکل تحریروں کو اپنے اخبار کی زینت بنایا ،میرے کالم یا لکھے گئے الفاظ میں کوئی خاص بات نہ ہونے کے باوجود لوگوں کے میسجز ای میلز اور کالز جہاں ایک طرف مجھے حوصلہ دیتے ہیں وہیں پر اخبار کی سرکولیشن کا بھی پتہ لگتا ہے کہ اخبار کہاں کہاں تک پہنچتا ہے،دھن کہون سے شروع کیا گیا سفر چکوال نامہ ،پریس فورم،آثار،چکوال پوائنٹ ، ونہار،تلہ گنگ ٹائمز،ڈھڈیال نیوز،حالات ،اساس ،کائنات اور جناح سے ہوتا ہوا آج چکوالینز اور نواے وقت کے ساتھ جاری ہے ،جب الیکٹرونک میڈیا آیا توشرو ع میں ہی2005میں آج ٹی وی کو جائن کیا اور آج پندرہ سولہ سال کے بعد بھی اسی نیٹ ورک کا حصہ ہوں،اس کے بعدکسی بھی شہر میں ہر صحافی کا گھر اور جائے پناہ پریس کلب ہوتا ہے پریس کلب کا ممبر بننے کی کی کوشش کی جو ناممکن بتائی گئی مگر چونکہ یہ لفظ میں مٹا چکا تھا سو جدوجہد جاری رکھی اور ایک وقت آیا کہ ایک طاقتور ایم این اے کے ذریعے آٹھ لوگوں کو پریس کلب کی رکنیت دے دی گئی جن میں ایک یہ خاکسار بھی تھا مگر پریس کلب جائن کرتے وقت ساتھ موجود دوستوں نے کہا تھا کہ آپ لوگ ہمارے نمائندہ بن کر جا رہے ہیں ہمارے لیے جدو جہد کرنی ہے اگر ہمیں رکنیت نہ دلوا سکے تو خود بھی واپس آ جائیں گے ، اور یہ وعدہ وعید کی رسم باقاعدہ وڈیو کیمرے میں ریکارڈ کی گئی جب ہم پریس کلب جائن کر چکے تو لگا کہ ہم باہر والے دوستوں کو اندر نہیں لا سکیں گے سو ہم نے واپسی کی راہ لی،پریس کلب کی رکنیت کے بارے میں یار دوستوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ کہ چکوال میں دس بیس مرلے کا پلاٹ لینا آسان مگر پریس کلب کا رکن بننا مشکل کیوں کہ رکنیت کا جو معیار اور پیمانہ آئین میں درج تھا وہ بہت ہی کڑا اور مشکل تھا سو ایسے وقت میں حاصل شدہ رکنیت چھوڑ دینا پرلے درجے کی بے وقوفی تھی جس پر ہمارے مہربان طاقتور ایم این اے ناراض بھی ہوئے مگر ہم نے زبان دے رکھی تھی سو اس کا پاس رکھنا ضروری تھا ہم چند ماہ بعد دوبار ہ جیسے تھے والی پوزیشن میں آگئے،مگر مایوسی کو کبھی اپنے ٔقریب پھٹکنے دیا نہ اﷲ پر توکل کو ہی کبھی چھوڑا،نتیجے میں اﷲ نے بھی ہمیں نہیں چھوڑا ،اپنی محنت اور جستجو جاری رکھی ،کوشش کی کہ ہمارے ہاتھ قلم اور زبان سے کسی کو رتی برابر نقصان نہ پہنچے انسان ہوں کوتاہیاں بھی بے شمار ہوئی ہوں گی مگر اﷲ سے معافی کاہر د م معافی کاخواستگار بھی ہوں ،اپنی سی جدو جہد جاری رکھی ،کسی کا بر ا نہیں سوچا ہر دوست کے ساتھ بھائیوں والا تعلق استوار رہا پچھلے سال پھر پریس کلب کو جوائن کیا صحافت میں خواجہ بابر سلیم گروپ متحدہ صحاافتی محاذ میں دٹ گیا ہر اونچ نیچ میں گروپ لیڈر خواجہ بابر سلیم کا ساتھ دیا پریس کلب کے ہر سال کے بعد ہونے والے الیکشن میں اس دفعہ کے لیے میرے گروپ نے مجھے صدر کا امیدوار نامزد کر دیا حالانکہ مجھ سے زیادہ قابل اور سنئیر لوگ گروپ میں موجود ہیں تاہم سب نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا اﷲ کے فضل و کرم سے تلہ گنگ کے دور افتادہ گاؤں سے آنیوالا ایک عام سا انسان آج پریس کلب چکوال کا صدر ہے،یہ وہ عہدہ ہے جس کی تمنا ہر رپورٹر سے لیکر بڑے صحافی کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہوتی ہے،تاہم عہدے اہم نہیں انسان اور انسانیت اہم ہے یہ ایک امانت ہے جو مقررہ وقت پر ملی اور مقررہ وقت پر واپس ہو جانی ہے ،اس میں میر اکوئی کما ل نہیں یہ اﷲ کے فضل کے بعد میرے دوستوں کی محبت ہے جس کا میں مقروض ہوں ،اﷲ مجھے غرور تکبر سے بچائے اور اسی طرح خیر وبھلائی بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ کاؤنٹر موجود ہے ،آج کا لبرل کراما کاتبین کو نہ بھی مانے تب بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، کوئی دن کو رات اور رات کو دن کہتا ہے تو کہتا پھرے ہم اس سے بری الذمہ مگر یہ روز روشن کی طرح عیاں کہ آپ کا ہر عمل ہر اچھائی یا برائی کہیں نہ کہیں جمع ہو رہی ہے ،اچھائی کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے جو بظاہر نظر نہ بھی آئے تو آس پاس موجود رہتی ہے آخری مگر ابدی کتاب میں مالک ارض وسما کا فرمان کہ رائی برابر بھلائی ہو یا رائی برابر شر، اس لطیف و خبیر مالک سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں مگر انسان ہے کہ غور کرنے کو تیار ہی نہیں ،،،،،،