بدر الحسن معلم ۔ جس نے درویشی میں بادشاہی کی -۳

بدرالحسن معلم کی شخصیت چند ایک دنوں میں پیدا نہیں ہوئی تھی ، اسے پیدا ہونے اور نکھرنے کے لئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ لگا تھا، سات سال کی عمر میں مامتا کا سہارا چھن گیا ، سوتیلی ماں مہربان تھی لیکن متعلقہ بعض دوسرے رشتہ داروں نے بچپن میں آپ کا جینا حرام کردیا ،منیری صاحب نے سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ زیادہ کارگر نہ ہوسکی ، ۸۴۹۱ءمیں انجمن سے ساتویں پاس کیا اور آٹھ آنے کا ٹکٹ لے کر پانی جہاز پر چڑھ کر ممبئی روانہ ہوگئے ۔ یہاں منیری صاحب کی رہنمائی اور کوششوں سے حبیب ہائی اسکول میں داخلہ ہوگیا ، منیری صاحب سمیت اس وقت کوئی آپ کی مالی امداد کی پوزیشن میں نہیں تھا ، لہذا نیلامی(فیری) کرکے گذر اوقات کرنی پڑی ،لیکن جب بازار میں پولیس نے پلیٹ فارم پر سامان بیچنے والوں کی دھڑ پکڑ میں شدت شروع کردی تو گیارھویں جماعت جو اسوقت میٹرک ہوا کرتی تھی اسے دوران سال ہی امتحان دئے بغیر چھوڑ کر مجبوراً کالیکٹ جاکر کے یم باشا کے دکان پر نوکری کرلی،جب بھٹکل واپسی ہوئی اس وقت مرکزی وزیر رفیع احمد قدوائی نے ہندوستان میں قحط سالی کے پیش نظر راشن کا سسٹم متعارف کروایا تھا،اس وقت چاول دستیاب نہیں تھا بھٹکل والے جوار کھانے پر مجبور ہوگئے تھے ، ان حالات میں آپ راشن کارڈ کی کاروائیوں سے لگ گئے ،ابھی آپ کی عمر سولہ سال کی تھی ، جوکاکو صاحب نے جب آپ کو کام کرتے دیکھا تو راشن آفیسر کی ایک خالی آسامی پر تقرری کے لئے رہنمائی کی ، ایک سال کے بعد مرحوم ہمٹٹا سائب کی خواہش پر وجے واڑہ ان کے ہوٹل فری انڈیا میں حساب کتاب کے کام کی ملازمت سے منسلک ہوئے ،یہاںمیز صاف کرنے والا ملازم نہ ہوتا تو آپ یہ کام بھی کرتے ، یہاں آپ کی ملاقات اگواڑا ہومیوپیتھی کالج کے پرنسپل سے ہوئی جسے آپ نے تعارف میں بتایا کہ ان کے والد بھی ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہیں، یہاں داخلہ کے لئے گیارہویں پاس کرنی ضروری تھی،آپ دوبارہ ممبئی روانہ ہوئے جہاں حافظکا صاحب نے آپ کی مدد کی ، وہ طاہر ا منشن میں مسلم لیگ آفس میں رہتے تھے ، جب تک آپ نے گیارہویں کلاس پاس نہیں کی رات کے صبح آٹھ بجے اور رات دس بجے آپ کی نگرانی کرنے آتے تھے ،اس کے بعد آپ نے تین سال تک وجے واڑہ میں رات میں نوکری اور دن میں سیکھ کر ۶۵۹۱ءمیں یم بی ہیچ پاس کیا اور ہومیوپیتھی ڈاکٹر بنے۔

وجے واڑہ میں ۸۵۹۱ء میں تین سال تک اپنا مطب چلایا ، اس دوران یہاں انفلوئنزا پھیلا جس کے دوران آپ کے علاج معالجہ سے بہتوں کا فائدہ ہوا اور آپ کا تجربہ بھی پختہ ہوا۔

۰۶۹۱ءتک آپ نے بھٹکل مین روڈ پر عبد الہادی سوداگر کی دکان کے اوپر اپنا مطب کھولا ،جو خوب کامیاب رہا ، سستائی کے اس زمانے میں چھ آنے اور آٹھ آنے کی دوائی دے کر روانہ اسی نوے روپئے جمع ہوجاتے تھے ، لیکن یہاں ان کی صحت خراب ہوئی جس کی وجہ سے آپ نے ایک ڈیڑھ سال بلگام میں سکونت اختیار کی ، جہاں ایک سازش کے تحت آپ پر جان لیوا حملہ ہوا اور آگ لگنے سے سارا جسم جل گیا ،لیکن قدرت کو آپ کی زندگی منظور تھی ۔

یہاں سے آپ مچھلی پٹم روانہ ہوئے ،جہاں آپ نے ہوٹل میں نوکری کی اور پارٹ ٹائم علاج معالجہ بھی کیا ۔لیکن صحت درست نہ ہوسکی جس کی وجہ سے مجبورا بمبئی جانا پڑا جہاں حافظکا صاحب نے آپ کا داخلہ کوکن ویلفیر اسپتال میں کروایا ۔پھر آپ نے جوگیشوری میں دواخانہ کھولا اور سماجی خدمت میں لگ گئے ۔ یہاں آپ نے میونسپل الیکشن بھی لڑا ، یہاں کے جھونپرپٹیوں کو قانونی شکل دلوانے ، صحت عامہ کے مسائل حل کرنے، راشن کارڈ دلوانے جیسے مسائل میں خوب دلچسپی لی ،خاص طور پر ۳۷۹۱ ءکے فسادات کے موقعہ پر ریلیف کے لئے دن رات ایک کردئے ، جب ۷۶۹۱ءمیں حافظکا صاحب بمبئی پردیش کانگرس کے صدر منتخب ہوئے تو آپ نے ریلوے اسٹیشن سے جوگیشوری جھوپر پٹی تک ایک طویل شمع بردار جلوس نکالا اور یہاں کے مسائل کی طرف حکومت کو متوجہ کیا ۔یہ سلسلہ۸۷۹۱ئ تک رہا جب ایک عبد الرشید نامی عرب نے جو کہ فسادات کے دنوں میں پانچ دس ہزار روپئے دیا کرتے تھے انہوں نے ویزا بھیجی ، لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا ، ویزا پر عربستان جانے کے بجائے عربوں کی ہجرت گاہ اور اپنے وطن کو مستقل رہائش اور خدمت کا مرکز بنایا ۔

آپ نے بھٹکل و شمالی کنارہ کے تعلیمی و سماجی تمام میدانوں میں اپنے نقوش چھوڑے، یہاں وہ آل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ دار رہے، قومی محاذ کی تاسیس میں حصہ لیا، مجلس اخوان الصفا کے بانیوں میں رہے،شمس نرسری اسکول جیسے مسلم مینیجمنٹ اسکولوں کی منظوری کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ انجمن اولڈ بوئز اسوسی ایشن کے قیام میں وہ متحرک رہے۔

قوم کے خدمت گزاروں میں جو لوگ ان سے قریب رہے ان میں ایک اہم نام مرحوم عثمان حسن جوباپو ہیڈ ماسٹر کا ہے، وہ بھٹکل بلگام اور ممبئی کے مختلف مرحلوں میں آپ کے رفیق رہے ، عمر میں بھی دونوں میں بہت زیادہ تفاوت نہیں تھا، دونوں ایک دوسرے کے رازدان تھے، آپ کی انجمن میں بطور ہیڈ ماسٹر کے وقت کئی ایک بارسوخ لیڈر آپ کی تقرری کے مخالف تھے ، بدرالحسن معلم نے اپنے والد کی رائے کے بھی مخالفت کرتے ہوئے عثمان حسن کو ہیڈماسٹر بنانے کے حق میں تحریک چلائی، طاقتور شخصیات میں سے صرف مرحوم قاضیا محمد حسن باپا بھاؤ نے آپ کا ساتھ دیا ، آپ انجمن اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے ساتھ کچھ عرصے کے لئے انجمن کے سکریٹری بھی رہے ، ہیڈماسٹر بننے کے بعد جب مبارکباد دینے کی غرض سے آپ گئے تو عثمان ماسٹر نے کہا کہ دعاکرو کہ جس کرسی پر میں بیٹھا ہوں یہیں سے میرا جنازہ بھی اٹھے ، ۸۶۹۱ءکے انتخابات کے بعد جب عثمان حسن انجمن سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور صرف ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے تو اس دوران آپ کو بے جا الزامات سے بدنام کیا گیا جس سے وہ بہت دل برداشتہ ہو گئے ، ۸۷۹۱ءکے ایک روز ماسٹر صاحب نے آپ سے کہا کہ کل گیارہ بجے سے پہلے پہل میرے آفس آنا ، مقررہ وقت سے کچھ تاخیر سے آپ انجمن کے لئے نکلے تو لوگوں کا ایک ہجوم انجمن سے آرہا تھا ، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جس کرسی پرعثمان حسن نے اپنا عہدہ سنبھالا تھا اسی کرسی پر آپ نے ڈیوتی دیتے ہوئے اپنی جان مالک حقیقی کو سونپ دی تھی ، جس طرح بدر الحسن معلم کا جنازہ تنظیم سے نکلا ، کچھ اسی طرح عثمان حسن جوباپو کا جنازہ انجمن سے نکلا تھا ، کتنی مشابہت تھی ان دونوں زندگیوں میں۔ عثمان حسن کو ہم سے جداہوئے ﴾۲۳﴿ سال بیت رہے ہیں، انجمن کے اداروں میں کتنی وسعت ہوگئی ، اس دوران ادارہ ترقی کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ، لیکن اتنے برس گزرنے کے باوجود عثمان حسن کا خلا آج تک پر نہ ہوسکا ، قوم کااپنے اس تعلیمی ادارے کو چلانے کے لئے ایسا تعلیمی تدریسی اور تربیتی مزاج شناس رکھنے والا دوسرا شخص نہ دے سکی ، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نکل چکا ہے ، زمانہ بہت دور جاچکا ہے ، باوجود اس کے آج بھی عثمان حسن مرحوم دلوں میں اسی طرح زندہ ہیں ان کی یاد کو محو نہیں کیا جاسکا ہے ۔ بدر الحسن کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے ۔ انہوں نے بھی اپنے پیچھے جو خلا چھوڑا ہے اس کے پرہونے کے فطری اسباب نظر نہیں آرہے ہیں۔

گزشتہ تیس سال کے عرصہ میں آپ کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ ہمیں دیکھنے کو ملے ، ایک زمانہ وہ تھا جب انہیں نیچا دکھانے اور اجتماعی میدان سے باہر کرنے کے لئے کئی شہسوار میدان میں تھے ، جن لوگوں کا ماضی داغدار تھا وہ آپ سے کچھ زیادہ ہی خوف زدہ تھے ، مالی عسرت کی وجہ سے ان پر مسلسل الزامات بھی لگائے گئے،جب اربن بنک قائم ہوا تھا ، ابتدائی زمانے میں بمبئی میں آپ کو پگنی کلکٹر نامزد کیا گیا تھا، جس کے دوران جمع شدہ تین ہزار روپئے کا پرس ریل گاڑی پر چوری ہوگیا ، جسے آپ نے بعد میں ادا کیا ، ادائیگی کے واقعہ کو مخفی رکھ کران پر خیانت کا الزام عائد کیا گیا ،جب جیب خالی ہو اور آدمی عزت نفس کے ساتھ اپنے رکھ رکھاؤ میں فرق نہ آنے دے تو ایسے الزامات کو سچا ماننے والوں کی معاشرے میں کمی نہیں رہتی ،لیکن ایک دور ہم نے ایسا بھی دیکھا جن لوگوں نے بھٹکل کی اجتماعی زندگی میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ ان کا ساتھ لیا تھا ، جن کے روزانہ فون جاتے تھے لیکن اپنے ضمیر کی آواز پر ایک ووٹ دینے کی وجہ سے انہوں نے ان سے عرصہ تک دوستی کا ناطہ توڑ دیا ، لیکن اس شخص نے دوستوں کی اس بے وفائی اور اہانت پر اف نہ کی ، اس عمر میں دوستوں کی طوطا چشمی سے وہ دکھی رہے ، لیکن زبان پر حرف شکایت نہ آنے دی ، روداری کی کیسی طاقت خالق نے اس مشت خاکی میں بھر دی تھی۔

کوئی چھ ماہ قبل اہلیہ کے ساتھ دبی آئے تھے ، اللہ نے تنگ دستی کے بعد راحت کے دن پھیر دئے تھے ، حالات کو پھرے ہوئے کوئی دو چار سال ہی گذرے تھے ، اس دوران ہماری وطن میں چھٹی گزارنے کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی تھی ، واپسی پر وقت نکال کر ہماری رہائش گاہ پر تشریف لائے ،۰۱۰۲ ءمیں چونکہ تنظیم کے قیام پر سو سال پورے ہورہے ہیں ، اس پر صد سالہ تقریبات منانے اور اس بہانے معاشرے میں تنظیم کے کردار کو موثر کرنے کی انہیں فکر لاحق تھی ، ہم سے انہیں منیری خانوادے سے تعلق کی وجہ سے بھی بڑی محبت تھی ، بہت اصرار کیا کہ میں تنظیم کی صد سالہ تاریخ مرتب کرنے ذمہ داری اپنے ذمہ لوں ، چونکہ ہمارا قیام بھٹکل سے دور واقع ہے اور اس کام کی تکمیل کے لئے یہاں دبی میں تنظیم کا کوئی ریکارڈ رکھنا ناممکنات میں سے لہذا ہم نے معذرت کردی ، باوجود اس کے انہیں ہم سے بڑی امید تھی،
لیکن آپ کی محبتوں کے جواب میں ہم سوائے مایوسی کے کچھ نہ دے سکے ،یہ ہماری مجبوری تھی ، مرحوم جاتے جاتے مسلمانان بھٹکل پر تنظیم کی تاریخ تدوین کرنے کا قرض چھوڑ گئے ہیں۔ خدا جانے وہ دن کب آئے گا جب یہ قرض ادا ہوگا اور قوم ایک اہم فرض سے سبکدوش ہو۔

بدر الحسن معلم اس طرح ہمارے درمیان سے اچانک اٹھ جائیں گے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا ، لیکن قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ احسان فراموشی پر قوموں کو سزادینے کا اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرے کے لئے جس کی ضرورت سب سے زیادہ ہو میدان سے اسے اس طرح غائب کرد یا جائے ،لیکن اپنے کمزور دل کو کس طرح سمجھائیں ، رہ رہ کر ان کی من موہنی صورت اور ان کی خدمات یاد آتی ہیں ، زندگی میں ان کے لئے کچھ نہ کرسکے تو مرنے کے بعد ہی سہی ممکن ہے دعاءکے لئے اٹھنے والے ہاتھ ہی جانے والے کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں۔
Abdul Mateen Muniri
About the Author: Abdul Mateen Muniri Read More Articles by Abdul Mateen Muniri: 18 Articles with 18337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.