ایک غیر ارادی ایجنٹ

بی بی سی پر گل مکئی کے فرضی نام کی سوات ڈائری سے شہرت پانے والی ملالہ یوسف زئی پر بزدلانہ اور دہشت گردانہ نام نہاد حملے کو کافی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی تک میڈیا، حکومت اور این جی اوز کا سوگ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر اس حملے کے بارے میں زور و شور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے اور یہ جانے بغیر کہ حملہ آور کون تھے اور کس کے اشارے پر ایسا کیا گیا تمام لوگ میڈیا کی ہاں میں ہاں ملانا شروع ہو گئے ہیں جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بارہ سال سے جاری آگ اور خون کے کھیل میں نہ جانے کتنی معصوم ملالاؤں کے چیتھڑے اُڑ چکے ہیں مگر وہ تو جیسے انسان نہ ہوں بلکہ ان کی حیثیت کیڑوں مکوڑوں جتنی ہو۔ ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے بزدلانہ حملے پر سب کو غم و غصہ ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں لیکن جس انداز سے یہ معاملہ اُچھالا جا رہا ہے اس سے یہ ہمدردی ہرگز نہیں لگتا بلکہ اس طرح اسلام اور جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش اور تعلیم کا نام استعمال کرکے تحریک پاکستان کا نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ تبدیل کرنے کی گہری سازش ہو رہی ہے

امریکی سی آئی اے اہلکار ملالہ اور اس کے باپ کو پاکستان کے خلاف تیار کرتے ہوئے۔ یہ امریکی اتنے ویلے نہیں ہوتے کہ کسی پاکستانی لڑکی پر یوں ہی لاکھوں ڈالرز نچھاور کردیں۔ ان کے اپنے پلان ہوتے ہیں۔ یہ ملالہ کو مستقبل میں پاکستانی سیاست میں لانچ کرنا چاہتے ہیں تاکہ آگے چل کر یہ امریکی مفادات کے لیے کام کرے۔ ملالہ کا ہر بیان سی آئی اے لکھ کر دیتی ہے یہ صرف سٹیج پر آکر پڑھتی ہے۔ پاکستان میں ملالہ ڈرامہ رچانے کے پیچھے بھی یہی سی آئی اے تھی جس نے ملالہ واقعے سے کئے ماہ پہلے ہی ملالہ کو اس کے گھر پر ٹریننگ دینا اور انگریزی بولنا سکھانا شروع کردیا تھا۔ اس کا باپ سب جانتا تھا آگے چل کر کیا ہونے والا ہے لیکن ملالہ ایک کمسن لاعلم بچی تھی جس کو منصوبے کے تحت استعمال کیا گیا اور یہ آج بھی اسی طرح پلان کے مطابق استعمال ہورہی ہے۔

جیسا کے پاکستانی میڈیا کو بھی رشوت اور ضمیر فروشی کی ہڈی ڈال کر ملا لہ کے مسئلہ کو لوگوں پر اجاگر کیا گیا یہ مغربی ایجنٹ جب میڈیا پر شلوار قمیص اور دوپٹے اوڑھے فوٹو شوٹ کرواتی ہے جبکہ فارغ اوقات میں لنڈن کی سڑکوں پر ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ میں گھومتی ہے۔ اور اپنے بھدے جسم کی نمائش کرتی نظر آتی ہے اس بچی کو اس کے باپ نے بیچ ڈالا ہے، اس کا باپ اپنی بیٹی کو بیچ کر معمولی سکول ٹیچر سے کروڑ پتی بن چکا ہے ۔ ملالہ کی ماں آج بھی اپنے میاں سے اس بات پر لڑتی رہتی ہے مگر میاں جی اس کی ایک نہیں سنتے اور سی آئی اے کے پلان کے مطابق ملالہ کو کبھی کدھر تو کبھی کدھر گھماتے پھراتے ہیں۔

درحقیقت یہ قیامت بیرونی آقاؤں کی برپا کی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم ٹکڑوں میں بٹ کر دست و گریباں ہو جائیں تاکہ ہمیں پہلے اندرونی خلفشار کے ذریعے کمزور کیا جائے اور پھر آسانی سے شکار کیا جا سکے۔

ملالہ یوسف زئی پر حملہ صیہونی سٹوڈیو میں تیار ہونے والا ایک سلسلہ وار ڈرامہ ہے۔ ہر بار اس ڈرامہ کی کہانی اور کردار دونوں نئے ہوتے ہیں۔ اس بار جو ڈرامہ پیش کیا گیا اس میں کہانی اور ہدایت کار سب اسلام دشمن یہود نصار'ی اور مشرک شامل ہیں۔ جبکہ ہیروئن ملالہ اور ویلن ظالمان ہیں اور کچھ سیاسی مداریوں کو بھی اپنے ضمیر فروشی اور غداری کر نے کاحصہ دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ وار ڈرامہ کی ہر کہانی میں نیا ایکٹر ڈالا جاتا ہے، تازہ ایڈیشن پوپ سنگر میڈونا ہے جبکہ رضاکار ایکٹر سوشل میڈیا کے عوام اور پاکستانی میڈیا ہے جو اس ڈرامہ میں ایسے منہمک ساتھ ساتھ تالی بجاتے چلتے ہیں جیسے بندر کا تماشہ دکھانے والے کے ساتھ گلی میں بچے چلتے ہیں۔ یہ ڈرامہ زبردست ہٹ ہو چکا ہے اور لوگ شدت سے اس کی اگلی سلسلہ وار کہانی کے منتظر ہیں جو یقیناًخونِ مسلم سے لکھی جانے والی ہے۔ پوری دنیا میں ملالہ کے حملے کو لے کر ایک عجیب سی دیوانگی نظر آ رہی ہے لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملہ پر اسی دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ہر ڈرون حملے میں ملالہ کی طرح درجنوں بچے، بوڑھے اور عورتیں ماری جاتی ہیں لیکن نہ تو میڈیا اس پر آواز اُٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کیلئے یوم دعا منائی جاتی ہے۔ اصل مدعہ تو یہ ہے کہ جب تک سماجی نہ برابری ہوتی رہے گی دنیا میں ہر طرح کی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوگا۔

اپنی ڈائری میں ملالہ یوسف زئی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں جب باپردہ لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے جبکہ داڑھی والے لوگ دیکھتی ہوں تو فرعون یاد آتا ہے پھر اسی لڑکی نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ بارک اوباما میرے آئیڈیل ہیں۔ اس بچی نے پہلے نہ کوئی تحریر لکھی نہ چھپی پھر کیسے اچانک بی بی سی نے اس کی ڈائری نما تحریریں پیش کرنا شروع کر دیں اور وہ بھی اُس وقت جب ملالہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی اور عمر صرف نو برس تھی۔ ایک بہت ہی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی نو سالہ بچی نہ ہی اتنی گہری باتیں کر سکتی ہے اور نہ ہی لکھ سکتی ہے یقیناًاس کے پیچھے ضرور کوئی ماسٹر مائنڈ موجود تھا۔ بعض ذرائع یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ بی بی سی کا مقامی نمائندہ ملالہ کی ڈائری لکھ کر گل مکئی کے نام سے شائع کرتا تھا جو حملے کے بعد سے روپوش ہے۔ ملالہ نے اوباما کو امن کا علمبردار اور آئیڈیل قرار دیکر خود کو خطرے میں ڈال دیا جبکہ اوباما صاحب نے صرف اس کی مذمت پر ہی اکتفا کیا۔ ایجنسیاں جب کسی کو اپنے مقاصد کیلئے چُن لیتی ہیں تو میڈیا کے ذریعے اس کو رفتہ رفتہ دیومالائی حیثیت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے ملالہ کو طالبان کے خلاف مہم کے دوران ایک علامت بنا کر پیش کیا گیا اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا کیونکہ امریکا، نیٹو ممالک اور این جی اوز کو بہت سی ایسی شکلوں میں ’’مرغ روسٹ‘‘ نظر آ رہے ہوتے ہیں اور قاتلانہ حملے پر سب سے زیادہ شور بھی انہی ممالک اور این جی اوز کا ہوتا ہے۔

یہی ملالہ پاکستانی افواج کو بھی اپنی سوچ کے تحت تنقید کا نشانہ بناتی ہے لیکن یہ تنقید شاید ’’ظالمان‘‘ کے نزدیک اسے ارتداد کی صف سے نکالنے کو ناکافی ہے جبکہ پاکستان دشمنوں نے بھی اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر اس معصوم بچی کے ذریعے پاک فوج کو بدنام کرنے میں کوئی کسر تک نہ چھوڑی
مغربی دنیا جو اسلام اور پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے وہ اتنے ویلے نہیں اور نہ ہی مفاد سے خالی کوئی کام کرتے ہیں۔ کہ کسی مسلمان لڑکی کو اتنی عزت و تکریم دیں، تعلیم کے فروغ اور عورتوں کے حقوق کے نعرے محض دنیا کی نظر میں دھوکا دینے کے لیے لگائے جاتے ہیں اصل مقصد پاکستان کو ہدف تنقید بنانا اور اس کے زریعے پاکستان کا گھیرا ہر ممکن اور ہر جگہ سے تنگ کرنا ہے۔ پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ کل کو اقوام متحدہ کے زریعے قرارد پاس کرواکے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو یہودی اپنے قبضے میں کرسکیں۔ یہ وہ گریٹ گیم ہے جو ملالہ کو استعمال کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔

یاد رہے ملالہ پر حملہ کرنے والے ٹی ٹی پی خوارج تھے، اور آج ٹی ٹی کے مرکزی ترجمان تک پکڑے جاچکے ہیں جو کہ کھل کر اعتراف کرچکے ہیں کہ ٹی ٹٰی پی بھارت اور امریکی خفیہ ایجنسیوں سے پیسے لیکر پاکستان میں حملے کرتی تھی۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ٹی ٹی پی نے ملالہ پر حملہ بھی امریکی اور بھارتی ایجنسیوں کے کہنے پر کیا تھا، اور پھر آپ نے دیکھا کہ امریکہ نے کس طرح پاکستان کو بدنام کیا کہ یہاں دہشت گرد بچیوں کو سکولوں سے روک کر گولیاں مار رہے ہیں۔ مقصد پاکستان کو غیر محفوظ ملک ظاہر کروانا تھا، مقصد دہشت گردوں کا ملک ثابت کروانا تھا تاکہ ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کا شوشا چھوڑ کر پاکستان کا ایٹم بم قبضے میں لیا جاسکے۔

پاکستانیوں ! آنکھیں کھولو ! ملالہ پورا ڈرامہ ہے، اس کی باتوں میں کبھی مت آنا۔ ملالہ اور اس کے غدار باپ کو بےنقاب کرنے کے لیے یہ پوسٹ لازمی شیرز کرتے جائیں صدقہ جاریہ سمجھ کر
پاکستان پائندہ آ باد
پاک فوج زندہ آباد


 

Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 154718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.