رکن الاسلام تاریخ کے آئینے میں

آج کے اس پر فتن دور میں اگر ہم کسی چیز کی اشد ضرورت محسوس کر رہے ہیں وہ ہے اسلام کی طرف سو فیصد لوٹنا، اگر ہم آج اس کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو آنے والے دنوں میں ہم اسلام کو فوائد پہنچانے کی بجائے اس کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ٹھہریں گے، اور اگر ہم اسلام کو نقصان پہنچانے کے خدا نخواستہ ذمہ دار ٹھہر گئے تو ہمیں دنیا و آخرت میں رسوائی اور ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں موجود جامعات اور مدارس کی اہمیت سے آگاہ ہوں اور ان جامعات سے اپنی اولاد کوعلوم دینیہ و علوم عصریہ سے مزین کریں تا کہ ہماری اولاد جہاں اپنی اساس یعنی اسلامی تعلیمات پر مکمل دسترس رکھتی ہو وہیں علوم عصریہ سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہو تا کہ یہ آج کی نسل کل جب اس ملک کی زمام سنبھالے تو اس کو بخوبی انجام دے پائے۔

اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس جامعہ کا انتخاب ہم نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے کیا ہے کیا یہ جامعہ واقعی اس ذمہ داری کو نبھانے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟

اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ہم نے ایک ایسے جامعہ کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے جس کی تعلیمی کارکردگی کو پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک نے بھی سراہا ہے اور اس کی ڈگریوں کو اپنی ڈگریوں کے مساوی قرار دے کر اس کی علمی صلاحیت کا نہ صرف اقرار کیا ہے بلکہ اس کے سٹوڈنٹ کو اپنی طرف سے اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے بلایا ہے اور آج اس جامعہ کے سپوت دوسرے ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

یہ ادارہ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ۶۵۹۱ ء ہی پاکستان کے شہر حیدرآباد میں معرض وجود میں آیا اس کا نام رکن الاسلام جامعہ مجددیہ رکھا گیا اس نام میں دو اولیائے کرام کے نام پنہاں ہیں ایک مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور دوسرے الشاہ محمدرکن الدین الوری رحمھمااللہ۔

اس ادارے کے بانی حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحمہ اللہ علیہ ہیں ۔جنکی ولادت ۵ذی الحجہ ۲۲۳۱ ھ کو ہندوستان کی ایک ریاست الور میں ایک ولی کامل العارف باللہ الشاہ محمدرکن الدین الوری رحمہ اللہ کے ہاں ہوئی ۔الشاہ محمد رکن الدین الوری کا شمار اپنے وقت کے صوفیائے حق اور اولیائے کاملین میں ہوتا تھا اور جن کی ایک نظر سے دل کی دنیا بدل جایا کرتی تھی آج بھی ریاست الور میں یہ بات زبان زدعام ہے کہ جب حضرت نماز پڑھنے کےلیے بازار سے گزرا کررتے جس مشرک پر نظر پڑتی وہ بے اختیار کلمہ حق لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی صدا بلند کردیتا تھا اور دامن اسلام میں داخل ہوجاتا تھا حضرت الشاہ رکن
الدین الوری کے علم و مرتبی کا اندازاہ اعلیحضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی کے ان الفاظ (مولینا المنجل المکرم المکین جعل اللہ تعالی ممن شدبھم رکن الدین) سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے

اس علمی و روحانی آغوش میںپرورش پاکر اور علوم اسلامیہ کی ابتدائی کتب پر مکمل دسترس کے بعد آپ نے اجمیر شریف بھوپال اور دہلی کے علمی مراکز کی طرف رجوع کیا اور صدر الشریعہ مولٰینا محمد امجد علی اعظمی (مصنف بہار شریعت ) مولٰینا عبدالحی، مولیٰنا عبدالمجید (صاحبزاداہ فقیہ الھند محمد مسعود دہلوی)حیکم جمیل الدین (استاد مسیح الملک حکیم اجمل خان) حکیم محمد احمد خان (مسیح الملک ثانی )سے تفسیر ،حدیث ،فقہ ،بلاغت، ادب، منطق ،طب و حکمت اور کئی علوم و فنون کی معراج کو پہنچے ۔

اس جامعہ نے چند ہی سالوں میں علمی میادین میں ایسے جھنڈے گاڑھے کہ حکومت پاکستان نے اس کو منظور کرلیا اور اس کو رجسٹریشن نمبر ۸۵۵ دیا۔

اس دور میں ملک پاکستان کے بڑے بڑے علماءکرام اس مادر علمی سے علمی زیور سےآراستہ ہوکر جہاں انہوں نے دین اسلام کی خدمت ان علوم کو پڑھاکر کی وہاں لوگوں کے دلوں ایسی عشق مصطفی ﷺکی شمع کو بھی روشن کیا کہ لوگوں محبت رسول ﷺ سے سرشار ہوتے گئے ۔

اس جامعہ کی علمی قابلیت کو دیکھ کر تنظیم المدارس نے بھی اس کو ۴۹۳۱ ھ میں اپنی رکنیت سے نوازا اور تنیظیم المدارس کے تحت ہونے والے امتحانات میں اس جامعہ کے طلباءنے اعلی نمبر لے کر اس تنظیم المدارس کو بھی اس جامعہ کا معترف بنادیا ۔

اس جامعہ کے پہلے بانی و چیئرمین حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد محمود الوری کا نتقال ۲۱ شعبان ۷۰۴۱ ھ کو ۴۷۹۱ ءکو ہوا( انا للہ وانا الیہ راجعون) جس پر نلک کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے علاوہ جسٹس سپریم کورٹ پیر کرم شاہ الازہری، قائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی، استاذالعلماءعلامہ عطامحمد بندیالوی گولڑوی، شارح بخاری سید محمد محمود احمد رضوی، شاہی مسجد فتحپوری دہلی کے امام مفتی محمد مکرم نقشبندی، سجادہ نشین خواجہ اجمیر ی دیوان سید آل مجتبی، مولانا تقدس علی خان، پیر ابراہیم جان سرہندی کے علاوہ ملک اور بیرون ملک کے بڑے بڑے علما ءنے آپ کی وفات پر اپنے غم اور دکھ کا اظہار کیا ۔

آپ کی وفات کے بعد آپ کے اکلوتے صاحبزادے ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر الازہری جن کی ولادت ۸۱ رجب المرجب ۳۷۳۱ کو اولیائے کاملین اور محدثین و مفسرین کی دعاؤں سے حیدرآباد میں ہوئی جنہوں نے ابتدائی کتب اپنے والد گرامی سے پڑھیں اور فراغت تک رکن الاسلام میں علم حاصل کیا آپ کی تعلیم کے لیے آپ نے والد محترم نے ریئس المحققین علامہ اشرف سیالوی صاحب کی خدمات حاصل کیں اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ علامہ اشرف سیالوی صاحب کے استاذ محترم استاذ العلماءعطا محمد بندیالوی رحمہ اللہ بقید حیات ہیں تو ان سے علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کیا اور ان سے اپنی علمی پیاس بجھائی ۔

اس دینی علم کے ساتھ ساتھ آپ نے میٹرک، ایف اے ۔ بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی تک تعلیم بھی حاصل کی اور حکومت پاکستان کی طرف سے جامعةالازہر مصر سے بھی علماءسے خوب استفادہ کیا اور جب آپ مسند علم پر تشریف فرما ہوئے تو ملک کے دورد رازعلاقوں سے طلباء اور علماءاس لیے حاضر ہوتے تھے کہ آپ کے پڑھانے کا انداز علامہ عطا محمد بندیالوی سے ملتا تھا اور آپ کی صورت میں استاذ کی شبیہ نظر آتی تھی۔

ڈاکٹر صاحبزادہ صاحب کی شخصیت پاکستان اوربیرون ملک کسی تعارف کی محتاج نہیں جہاں آپ نے علمی میدان میں اپنے شاہکار پیش کیے وہیں آپ نے پاکستان کی سیاست میں ایسا کردار ادا کیا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کی پاکدامنی پر انگشت بدندان نظر آئے اور جہاں آپ نے عوام خدمت میں اپنے آپ کو وقف کیا وہیں ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کا پرچار کیا ۔

آپ نے ایسے وقت میں اہلسنت کی نمائندگی کی جب نام نہاد سیاستدان جو نکلے تو اسلام کی سربلندی کے لیے تھے مگر اسلام آباد کے اسیر ہو کر رہ گئے اور اپنے ذاتی مفادات کو ہی اپنی منزل بنالیا اور چپ سادھ لی ۔

جیسے ہی آپ نے جامعہ کے انتظام و انصرا م کو سنبھالا وہیں سے ہی آپ نے جامعہ اور طلباءکو نئی راہوں سے شناسا کرایا کیونکہ جہاں آپ علوم عربیہ واسلامیہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے وہیں علوم جدیدہ پر بھی آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی اور ان کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اسی لیے آپ اس جامعہ میں اورینٹیل کالج کا قیام عمل میں لائے تاکہ درس نظانی کے طلباء Board of intermediate and secondary Education Hyderabad کے تحت مولوی عربی ،عالم عربی اور فاضل عربی کے امتحانات پا س کر سکیں اور دوسری طرف میٹرک ا،یف اے اور بی اے کی ڈگری حاصل کر کے صحیح طریقے سے اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس اس دور کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کے لیے Typing and short hand institute کا آغاز کیا

اس جامعہ کے تحت شہر حیدرآباد اور اس سے باہررکن الاسلام پرائمری اور مڈل سکولز کا بھی آغاز کیا ۔

اس جامعہ کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی نے ۹۹۹۱۔۸۰۔۳۰ کو اس کی شھادة العالیہ اور شھادة العالمیہ کو بی اے اور ایم اے کے مساوی قرار دے کر اس کی قابلیت پر مہر ثبت کر دی اور اس کی اسناد کی بنیاد پر اب سندھ یونیورسٹی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں باآسانی داخلہ مل جاتا ہے اور فوج میں بھی اس جامعہ کے علماءو فضلاءکو آئمہ اور خطباءکی منظوری دی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر الازہری نے جہاں دور دراز سے آئے ہوئے علم کے متلاشی طلباءکی علمی و عملی پیاس بجھائی وہیں اپنی اولاد یعنی صاحبزادہ عزیر محمودالازہری اور صاحبزادہ فائز محمو د الازہری کی علمی و عملی تربیت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ آپ کے دونوں صاحبزادگان نے دورہ حدیث تک مکمل تعلیم رکن الاسلام سے ہی حاصل کی وہیں ایشیا کی سب سے بہترین N. U. M .L. National Language University Islamabab سے عربی زبان کی ڈگریاں حاصل کیں اور دونوں صاحبزادگان کو دنیا ئے اسلام کی سب سے عظیم اور قدیم یونیورسٹی جامعة الازہر مصر کے لیے اسکالر شپ پر مصر بھیجا گیا اور انہوں نے جامعة الازہر کے اساتذہ سے خوب استفادہ کیا اور اس کے نظام تعلیم کو رکن الاسلام پر تطبیق دیا اور کچھ ہی عرصے میں دنیاءاسلام کی اس عظیم یونیورسٹی نے رکن الاسلام کی شھادة الثانویہ کو ۱۰۰۲۔۶۰۔۱۱ میںاپنی شھادة الثانویہ کے مساوی قرار دیا جس سے رکن الاسلام کے طلباءکو اس عظیم جامعة الازہر سے مستفید ہونے کا موقع میسر آیا اسی طرح رکن الاسلام کے تعلیمی معیار کو پوری دنیا میں سراہا جانے لگا اور دوسال کے مختصر عرصے میں جامعة الازہر نے ۳۰۰۲۔۶۰۔۷۱ کو رکن الاسلام کی شھادة العالیہ کو اپنی شھادة العالیہ کے مساوی قرار دے کر اس جامعہ کے طلباءکو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنی اسکالر شپ پر مصر بلایا تاکہ اس جامعہ کے طلباءاس عظیم و قدیم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں راقم الحروف بھی ان خوش نصیب میں سے ایک ہے جن کو جامعةالازہر سے علمی پیاس بجھانے کا موقع ملا اسی دوران اس رکن الاسلام جامعہ مجددیہ کے بیسیوں طلباءاس عظیم جامعہ الازہر سے استفادہ کرتے رہے اور کر رہے ہیں اور ہرسال جامعہ کی کئی طلباءکو پاکستان کی حکومت اور مصر کی حکوت کی طرف سے اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے مصر بھیجا جاتا ہے۔

اس جامعہ کو کمپیوٹر کی تعلیم سے آراستہ کرنے میں صاحبزادہ فائز محمود الازہری کا بنیادی کردار رہا انہوں جب Master in IT (information Technology ) کیا اور علوم عربیہ کے ساتھ Computer technology کے حسین امتزاج کو رکن الاسلام جامعہ مجددیہ کے طلباءپر Apply کیا تو تعلیم ماحول میں انقلابی کیفیت پیدا کر دی ایک طرف رکن الاسلام کے طلباءتفسیر ،حدیث، فقہ میں ماہر ہوتے اور دوسری طرف Computer کے علم پر دسترس رکھنے کے بعد معاشرے میں صحیح طور پر عالم دین کے کردار کو اجاگر کرتے اورپھر رکن الاسلام کے ایسے ہی باوقار علماءکے لیے باعزت روزگار کے موقعوں کی کمی نہ رہتی ۔

اس جامعہ کی کامیابیوں کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ ۷۰۰۲۔ ۸۰۔۳۰ میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی نے بھی اس جامعہ کی شھادة العالیہ کو B. A کے مساوی قرار دیا اور اسی سال مصر کی (المجلس الا علی للجامعات )(H E C )نے اس جامعہ کی شھادة العالمیہ کو ایم اے کے مساوی قراردیا اور اس بات کی اجازت دی کہ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ کے طلباءچاہیں تو مصر کی کسی بھی یونیورسٹی پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں اور مجھے امید واثق ہے کہ جس طرح ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر الازہری اور آپ کے صاحبزادگان لگن اور خلوص دل سے اس مادر علمی کی ترقی میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں یہ جامعہ بہت جلد دنیا ئے اسلام کی بہترین جامعات میں شمار ہوگا اس کے علم کی روشنی پورے عالم کو منورکرے گی جہاں ایشیاءاور روپ میں اس کے طلباءاسلام کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہیں افریقا کے صحراوں میں بھی اس کی گونج سنائی دے گی (انشاءاللہ)

آخر میں میں پاکستانی عوام سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اس جامعہ کو اپنے لیے اللہ کی نعمت سمجھیں اور اسے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے چنیں تاکہ آپ کی اوالادصحیح معنوں میںجہاں اسلام کی ترویج میں بھر پور کردار ادا کریں وہیں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادار کر کے سچا مسلم اور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں اور جہالت کے خلاف اس جہاد میں بھرپور ساتھ دیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹیں۔
Muhammad Aslam Raza Al-Azhari
About the Author: Muhammad Aslam Raza Al-Azhari Read More Articles by Muhammad Aslam Raza Al-Azhari: 3 Articles with 3579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.