کربلا اور حسینؓ (ساتویں قسط)


تحریر: شبیر ابن عادل

نبی کریم ﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سے بہت محبت تھی، جس کے بہت سے حوالے اس سلسلہ مضمون میں دیئے گئے۔ لیکن یہ محبت یکطرفہ نہ تھی، ان کے دونوں نواسے بھی اپنے نانا محترمؐ سے بہت محبت کرتے تھے اور جب تک اپنے محترم نانا جان ﷺکو دیکھ نہ لیتے، انہیں چین نہیں ملتا تھا۔ حضور اکرم ؐ جہاں بھی ہوتے وہ بھی وہی پہنچ جاتے، مسجد، مجلس، نماز، خطبے غرض ہر جگہ وہ اپنے پیارے نانا ؐکے پاس چلے جاتے۔ اس حوالے سے متعدد احادیث پہلے بیان کی جاچکی ہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کسی دعوت پر تشریف لے جارہے تھے راستے میں دیکھا کہ حسین لڑکوں سے کھیل رہے ہیں۔ آپ ؐ نے انہیں پکڑنے کو ہاتھ ہاتھ بڑھایا مگر وہ اِدھر اُدھر دوڑنے لگے، حضور ؐ بھی مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ بھاگتے رہے اور آخرکار ان کو پکڑکر ان کا منہ چوم لیا۔ (مستدرک حاکم: 177/3)

اپنے بچپن میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلا کرتے کرتے تھے۔ عرب کے بچے کبڈی کی قسم کا ایک کھیل کھیلتے تھے، جسے عاقب یا عقاب کہتے ہیں، سیدنا حسین ؓ بھی اس کھیل میں حصہ لیتے اور اس کھیل کا انہیں بہت شوق تھا۔ کبھی کبھی لکڑیوں اور ڈنڈوں سے بھی کھیلتے اور کبھی کنکروں اور ٹھیکریوں سے شغل فرماتے۔ بھاگ دوڑ میں بھی حصہ لیتے۔ ایک بار دولڑکوں سے دوڑ کا مقابلہ کررہے تھے کہ ان کے والد محترم سیدنا علی ؓ نے انہیں روک لیا۔ حضرت حسین ؓ نے کہا کہ ابا جان! کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم اس کھیل سے اللہ کے سپاہی بننے کی تربیت حاصل کرسکیں، اتنی چھوٹی عمر کے بچے سے یہ جواب سن کر ان کے عظیم والد سیدنا علی ؐ مسکرائے اور انہیں دوڑنے کی اجازت دے دی۔
اسی طرح ایک دن آپ ؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور کُشتی لڑنے کا مشغلہ ہورہا تھا آپ نے چند بچوں کو کئی دفعہ پچھاڑ دیا، حضور اکرم ؐ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے جب کھیل ختم ہوا تو حضور ؐ نے قریب جاکر سیدنا حسین ؓ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ شجاع ابن شجاع بہادر بیٹا ہوگا۔مختصر یہ کہ حضرت حسین ؓ کے کھیل عام طور پر سپاہیانہ اور مجاہدانہ ہواکرتے تھے، جس سے فوجی قوت اور مجاہدانہ اسپرٹ پیدا ہوتی تھی۔ آپؓ غلیل سے بھی نشانے لگایا کرتے تھے اور اسی مشغلے نے ذرا بڑے ہوکر آپ ؓ کو تیراندازی کا ماہر بنا دیا۔ یہ روایت ہے کہ سیدنا حسین ؓ نے لکڑی کی ایک تلوار بنوائی ہوئی تھی جس سے شمشیر زنی کی مشق کرتے تھے۔

اپنے نانا نبی کریم ﷺ اور ان کے عظیم والدین سیدنا علی ؓ اور سیدہ فاطمہ صرف ان کے لاڈپیار ہی نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ جہاں کسی بات سے روکنے کی ضرورت ہوتی، روک دیتے، کوئی ناجائز بات دیکھتے تو منع فرماتے، ان کی اصلاح پر پوری توجہ دیتے اور فرما دیتے کہ بیٹا! یوں نہیں یوں کرنا چاہئے، یہ کام جائز ہے اور یہ ناجائز۔ فلاں بات بری فلاں اچھی۔ یوں بولنا چاہئے اور یوں نہیں بولنا چاہئے۔ بڑوں سے یوں گفتگو کرنی چاہئے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے کے یہ یہ آداب، یہ یہ قواعد اور یہ یہ اوقات ہیں۔ غرض انہیں پورے اخلاق و آداب سکھائے۔
سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کواپنے نانا جان رسول اللہ ﷺ سے تربیت پانے اور تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اور ابھی کم سن ہی تھے کہ اپنے نانا جان ﷺ اور اپنی والدہ سیدہئ فاطمہ ؓ کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ اپنے ناناؐ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت حضرت حسین ؓ صرف سات برس کے تھے اور اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کے وقت ان کی عمر ساڑھے سات سال۔ انا للہ وانا الیہ راجعون،۔
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.