فضیلت شب عید الفطرو اعمال

رمضان المبارک کے اختتام پر آنے والی شب یعنی عید الفطر کی رات یہ ایک بابرکت رات ہے اور اﷲ تعالیٰ کی جانب سے انعام ملنے والی رات ہے، چنانچہ حدیث میں اس کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی انعام ملنے والی رات کہا گیا ہے، اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس رات میں بندوں کو پورے رمضان المبارک کے روزوں و عبادات کا بہترین صلہ ملتا ہے۔(شعب الایمان: 3421)

حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا: جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی دونوں راتوں میں اﷲ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اس کاا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔( الترغیب والترہیب 2/158 مطلب یہ ہے کہ آدمی اِن راتوں کو عبادت ِ الٰہی میں مصروف رکھے۔ نماز تلاوت اَور ذکر ودُعا کرتا رہے۔ اِن راتوں میں عبادت کرنے والے کا دِل نہ مرے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے خوفناک، ہولناک اَور دہشت ناک دِن میں جبکہ ہرطرف خوف و ہراس گھبراہٹ اَور دہشت پھیلی ہوئی ہوگی لوگ بدحواس ہوں گے اُس دِن میں حق جل شانہ اِس کو نعمت والی اَور پُر سعادت زندگی سے سر فراز فرمائیں گے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نبی کریمﷺسے نقل فرماتے ہیں: جوشخص ان چار راتوں میں ثواب کی نیت سے اﷲ کی رضا کیلئے عبادت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر جنت کو واجب کردیتے ہیں،لیلۃ الترویۃ، یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات،عرفہ، یعنی نو ذی الحجہ کی رات،لیلۃ النحر، یعنی دس ذی الحجہ کی رات ،لیلۃ الفطر، یعنی عید الفطر کی شب(الذہبی748)، تلخیص العلل المتناہیۃ، فیہ عبد الرحیم بن زید العمی ہالک متہم أخرجہ قوام السنۃ الأصبہانی کما فی «الترغیب والترہیب،للمنذری (2/98)، وابن عساکر فی تاریخ دمشق (43/93) باختلاف یسیر)الترغیب و الترھیب کی روایت میں پانچ راتیں ذکر کی گئی ہیں، جن میں سے چار تو وہی ہیں اور پانچویں شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ برائت ہے۔ (الترغیب و الترھیب: 1656)مذکورہ حدیث میں اِن پانچ راتوں کی ایک خاص فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جو شخص اِن پانچ راتوں میں جاگ کر ذکرِ الٰہی اَور عبادت میں لگا رہے گا اﷲ تعالیٰ اُس پر اپنا خاص اِنعام یہ نازل فرمائیں گے کہ اُسے جنت کی دو لت سے مالا مال فرمائیں گے۔ پورے سال میں صرف اِن پانچ راتوں میں جاگ کر عبادت کرنا کوئی مشکل اَور دُشوار کام نہیں ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا: جمعہ کی شب، رجب کی پہلی شب، شعبان کی پندرہویں شب، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحی)کی راتیں۔(مصنف عبد الرزاق:7927)

شب عید کی بے قدری:مذکورہ اَحادیث سے معلوم ہوا کہ عید کی رات کتنی فضیلت ہے اَور کس قدراہم رات ہے مگر نہایت اَفسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اِس مبارک رات کی فضیلتوں اَور برکتوں سے اپنے آپ کو محروم کیا ہوا ہے۔ اِس مبارک رات کو طرح طرح کی لغو اَور فضول باتوں اَور فضول خرچیوں میں برباد کر دیتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی بے شمار لوگ بازار کا رُخ کرتے ہیں اَور رات کا بیشتر حصہ اِن بازاروں میں برباد کر دیا جاتاہے جہاں طرح طرح کے گناہ ہوتے ہیں۔ اگر اِس مبارک رات میں نیک کام کی توفیق نہ ہو تو کم اَزکم یہ کوشش کی جائے کہ گناہ میں تو مبتلاء نہ ہوں۔ غلط کاموں میں لگنے سے بہتر تو یہ ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر آرام کرے اَور صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لے اِتنا کر لینے سے بھی اِس رات کی فضیلت اَور ثواب سے محرومی نہ ہوگی۔

عیدالفطر کے دِن کی فضیلت: عید کا دِن بھی بہت زیادہ فضیلت کا دِن ہے اِس دِ ن اﷲ تعالیٰ خصوصیت سے اپنے بندوں پر بہت زیادہ اِنعامات اَور مغفرت فرماتے ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل اَحادیث سے معلوم ہوگی: اِرشاد فرمایا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ جب عید کادِن ہوتا ہے توفرشتے راستوں کے سِروں پر بیٹھ جاتے ہیں اَور پکار تے ہیں اَے مسلمانوں کے گروہ چلو ربِ کریم کی طرف جو نیکی(کی توفیق دے کر) احسان کرتا ہے پھر اِس پر ثواب دیتا ہے (یعنی خود ہی عبادت کی توفیق دیتا ہے پھر اِس پر خود ہی ثواب عنایت فرماتا ہے) اَور فرشتے کہتے ہیں کہ تم کو رات میں قیام کا حکم دیا گیا تم نے قیام کیا اَور تم کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اَور اپنے پرور دگار کی اطاعت کی پس تم اِنعام حاصل کرو۔ پھر جب نماز پڑھ چکتے ہیں توفرشتہ پکارتا ہے آگاہ ہوجاؤ بیشک تمہارے رب نے تم کوبخش دیااَور تم اپنے گھر کی طرف کامیاب ہو کر لوٹو۔ پس یہ ''یوم الجائزہ'' ہے اَور اِس دِن کا نام آسمان میں ''یوم الجائزہ'' یعنی اِنعام کا دِن رکھا گیا ہے۔ (الترغیب)عید الفطر کی رات کا نام ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی اِنعام کی رات رکھا گیا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اُتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سِروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اَور ایسی آواز سے جن کو اِنسان اَور جنات کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمت اُس ربِ کریم کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اَور بڑے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ اُس مزدور کا بدلہ کیا ہے جو اپنا کام پورا کر چکا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اَور ہمارے مالک اِس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دی جائے تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے فرشتو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اِن کو رمضان کے روزوں کو اَور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اَور مغفرت عطا کردی ہے۔

اَور بندوں سے خطاب فرما کر اِرشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! آج کے دِن اپنے اِس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطاء کروں گا اَور دُنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اِس میں تمہاری مصلحت پر نظرکروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں کی پردہ پوشی کرتا رہوں گا اَور اُن کو چھپاتا رہوں گا۔ میری عزت کی قسم!میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اَورکافروں) کے سامنے رُسوا نہ کروں گا بس اَب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کردیا اَور میں تم سے راضی ہو گیا۔ پس فرشتے اِس اَجرو ثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمت کو فطر کے دِن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اَور کھل جاتے ہیں۔ (الترغیب ج2ص99) اِن مذکورہ اَحادیث سے معلوم ہوا کہ عید اَور شب ِ عید دونوں ہی بہت فضیلت واہمیت کی حامل ہیں اَور یہ انعامات ِ اِلٰہی کی وصولی اَور خوشنودی حاصل ہونے کا مبارک دِن ہے مگر ہماری شامت ِاعمال یہ ہے کہ ہم اِن مبارک شب و روز میں غلط قسم کے کاموں اَور گناہوں میں ایسے منہمک ہوجاتے ہیں کہ اُس دِن بجائے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے اﷲ تعالیٰ کی نا راضگی مول لیتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال رضائے الٰہی کیلئے کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور لغویات و فحش گوئی اور برے کاموں سے بچنے کی تو فیق نصیب فرمائے۔

عید کی سنتیں:عید کے دِن کی تیرہ سنتیں ہیں:(1) شریعت کے مطابق اپنی ارائش کرنا(2)غسل کرنا(3) مسواک کرنا(4) جو بہتر کپڑے اپنے پاس موجود ہوں وہ پہنا(5) خوشبو لگانا(6) صبح سویرے اُٹھنا
(7) عید گاہ میں سویرے پہنچنا(8) عید الفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا(9) عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر اَدا کرنا(10) عید کی نماز (مسجد کی بجائے) عید گاہ یا کھلے میدان میں پڑھنا(11) ایک راستہ سے عیدگاہ میں جانا اَور دُوسرے راستہ سے واپس آنا(12) عید الفطر کے دِن عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ آہستہ آہستہ کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جانا اَور عید الاضحی کے دِن بلند آواز سے کہتے ہوئے جانا(13) سواری کے بغیر پیدل عید گاہ میں جانا اگر عید گاہ زیادہ دُور ہو یا کمزوری کے باعث عذر ہوتو سواری میں مضائقہ نہیں۔ (مراقی الفلاح ص 318)
 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 160707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.