سنجیاں گلیاں اور مرزا یار

یہ آج سے غالبا بپچیس تیس سال پہلے کی بات ہے دور حکومت پیپلز پارٹی کا اور فاروق لغاری صدر مملکت پاکستان تھے ،ڈیرہ غازی خان کے سردار کا دل لبھانے کے لیے چکوال کے ایم این ایز و ایم پی ایز میں سے کسی نے انہیں بتایا کہ جناب ہمارے علاقے میں جنگلی تیتر کی پہتات ہے جس کے کھانے کا اپنا ہی ایک الگ مزہ ہے کبھی خدمت کا موقع دیں اور ہمارے علاقے میں شکار فرمائیں ،صدر مملکت نے فورا حامی بھر لی اور کوٹ چوہدری کے علاقے میں آنے کی نوید سنا دی ،علاقے میں جنگل تو بے پناہ ہے مگر کہاں کہاں تیتر ملیں گے یہ کسی کو کچھ خاص پتہ نہ تھا ،علاقے کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت کو یہ ٹاسک سونپا گیا جنہوں نے آسان حل یہ نکالا کہ ضلع بھر میں پھیلے اپنیـ: عقیدت مندوں:کو حکم دیا کہ جس جس کے علاقے میں جتنے بھی تتیر بٹیر کا شکار کرنے والے کوئی لوگ ہیں ان کو ایکٹو کریں اور تیتروں کا بندوبست کریں ،محکمہ وائلڈ لائف کو شاید تاریخ میں پہلی بار بتا دیا گیا کہ خبردار کسی شکاری کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا،یوں ایک ہفتہ لگا کر پورے ضلعے سے تیتر پکڑے گئے اور جب محترم صدر مملکت شکار کے لیے علاقے میں پہنچے تولو گوں کوتیتروں کے تھیلے دے کر جھاڑیوں میں چھپا دیا گیا کہ جونہی صدر صاحب گذریں آپ نے تھیلے کا منہ کھول دینا ہے یوں صدراسلامی جمہوریہ پاکستان جدھر سے گذرتے تیتروں کا غول اڑتا اور صدر صاحب نشانہ بازی کرتے یہ واقعہ بہت پرانا ہے مگر گذشتہ روز اپنی نئی ریاست مدینہ کے حاکم کو بازار میں پھرتے دیکھ کر یاد آگیا کہ جتنا مرضی وقت بدل جائے نہ ہم نے بدلنا نہ ہماری عادتوں نے بدلنا اور نہ ہمارے حالات نے بدلنا ،شہنشاہ معظم کی آمد سے قبل پورے بازار کو نہ صرف سرف ایکسل سے غسل دیا گیا بلکہ دکاندار بھی اپنی من مرضی کے اہلکار منتخب کیے گئے بازار کو گاہکوں سے پاک کیا گیا اور علاقے بھر میں سیکورٹی کا یہ عالم تھا کہ دو سیکٹرز میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی ساتھ ہی ان دو سیکٹرز کی موبائل سروس معطل کر دی گئی اس طرح کے دورے شروع میں میاں نواز شریف کرتے تھے جوافسروں کی کھڑے کھڑے بے عزتی فرما دیتے اور ایک بار تو حد کر دی جناب نے جب فیصل آباد میں دو سول افسروں کو ہتھکڑی تک لگو ا دی پھر وقت نے دیکھا کہ انہیں میاں صاحب کو جہاز میں سیٹ کے ساتھ ہتھکڑی لگائی گئی اور قدرت نے انہیں یہ باور کروایا کہ غرور اور تکبر کا انجا م ہمیشہ سے ہی بھیانک ہوتا ہے،بعد ازاں یہ کام میاں شہباز نے سنبھال لیا مگر ان کا انداز قدرے بہتر اور مشفقانہ تھا،آج کل یہ کام آپا فردوس عاشق اعوان نے سنبھال رکھا ہے اور انداز وہی میاں نواز شریف والا ہے، جس کی وجہ سے اب بیوروکریسی جو پہلے ہی سکون میں تھی آج کھل کے سامنے آنا شروع ہو گئی ہے ملک پاکستان آج کل جن شدید مساٗئل کا شکار ہے ان میں اگر نمبر نگ کی جائے تو کرونا اور مہنگائی میں سے کسی ایک کوپہلا نمبر دیناخاصا مشکل کام ہے، عام افراد ایک طرف کرونا کی تباہ کاریو ں کا شکار ہیں تو دوسری طرف مہنگائی انہیں لے دے گئی ہے ،سب سے بری حالت اس وقت مڈل یعنی درمیانے طبقے کی ہے اور ان میں بھی خصوصا وہ جو دیہاڑی دار یا چھوٹے کاروباری حضرات ہیں ،یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر اپنا کاروبار کرتے ہیں اور اسی کے پرافٹ میں سے اپنا اور بچوں کا دال دلیہ چلاتے ہیں جبکہ دیہاڑی دار طبقہ روزانہ جاتا ہے اور کما کر لاتا ہے تو اس کے اہل و عیال پلتے ہیں ،جب سے کرونا آیا ہے یہ دونوں طبقے سخت بدحالی کا شکار ہیں اور اکثر جگہ تو نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے کسی بھی محلے کی کریانہ کی دکان میں جا کر ایک سائیڈ پر ہو کر بیٹھ جائیں اور وہاں آتے لوگوں کی بے بسی اور دکاندار کا رویہ دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے مگردوکاندار اپنی جگہ الگ سے مجبور اور پریشان ہے اسے ہفتے میں دو دن اور کبھی سات دن دکان کھولنے ہی نہیں دی جاتی اوپر سے ادھار کہاں سے دے ،کہاں سے لائے یا دے اور اپنے بچوں کا کیا کرے اگر سارا مال ہی ادھا ر اٹھوا دے ،دنیا بھر میں رش ختم کرنے کا یونیورسل اصول یہ ہی ہوتا ہے کہ وقت بڑھا دیا جائے اگر ایک دیگ چاول پانچ منٹ میں تقسیم کرنا پڑے تو چاولوں کے ساتھ ساتھ دیگ اور چاول لینے دینے والوں کا بھی حشر نشر ہو جاے گا اور اگر اسی دیگ کو تقسیم کے لیے وقت پانچ منٹ کی بجائے پانچ گھنٹے کر دیا جائے تو نہ کوئی رش پڑے گا نہ کسی کے کپڑے ہی پھٹیں گے مگر نہ جانے یہاں کیا ہو رہا ہے کہ دو دن مارکیٹ بند کر کے تیسرے دن جب کھلتی ہیں تو لوگوں کا سیلاب ایسے امڈ آتا ہے جیسے کسی نے ڈیم کا پشتہ اپنی جگہ سے سرکا کر میلوں دور تک کھڑے پانی کو نکلنے کا راستہ دے دیا ہوحکمرانوں کی ڈرامہ بازی اور کنفیوژن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی،ملک کدھر جا رہا ہے کسی کو پرواہ نہیں ،چار وزیر خزانہ بدل کر بھی یہ گاڑی اپنی جگہ سے ہلنے جلنے کا نام تک نہیں لے رہی،نہ جانے وہ دو سو ماہر معاشیات کدھر گئے جنہوں نے نہ صرف دو سو ارب ڈالر واپس لانا تھے بلکہ روزانہ کی اربوں روپے کرپشن بھی پکڑنا تھی مگر آج نہ وہ دو سو ارب ڈالر ملے نہ کہیں دو سو ماہر معاشیات ہی کیں نظر آتے ہیں الٹا نئے منت سماجت کر کے لائے گئے وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر چودہ طبق روشن کر دیئے کہ حالات جس رخ پر جا رہے ہیں دو چار سال بعد صورتحال بیان سے باہر ہو جائے گی،ادھر سب کو اپنی اپنی پڑی ہے حکومت ہے یا اپوزیشن کسی کو ککھ پرواہ نہیں ہر کسی کو شروع دن سے اپنا مفاد عزیز ہے عوام جائے بھاڑ میں اور یہ سلسلہ آج بھی دھڑلے سے جاری ہے،اوپر سے رہی سہی کسر لاک ڈاؤن نے نکال دی ہے ،بچوں کی تعلیم کا الگ سے ستیاناس ہو چکا ،اسکول بند کالج بند مگر فیس پوری ایمانداری سے وصول کی جا رہی ہے ،اس وقت ایک ایسی جامع پالیسی کی ضرورت ہے کہ جس سے لوگوں کا روزگار بھی چلتا رہے اور وبا سے احتیاط بھی ہوتی رہے اور اس کا بہترین طریقہ چوبیس گھنٹے کا م کی اجازت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر سنجیدہ گفتگو کریں اور ملک کے مسائل کو مل کر حل کرنے کی کوشش کریں مگر ہم دنیا جہان سے بات چیت کریں گے بھلے ہمارا ازلی دشمن بھارت ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی اسمبلی میں سامنے بنچوں پہ بیٹھے پاکستانیوں سے کبھی مشورہ نہیں کریں گے،پھر یہی کچھ ہونا جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے لگے رہو منا بھائی،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔