یاد رفتگان: ولی کامل فقیہ اعظم حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ

54ویں سالانہ عرس پر سجادہ نشین پیر محمد افضل قادری کی تحریر

میرے جد امجد شیخ المشائخ، استاذ الاساتذہ، فقیہ اعظم حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ 1884ءکے لگ بھگ مراڑیاں شریف گجرات میں ایک خالص علمی ومذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہوش سنبھالتے ہی آپ نے علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے سالہا سال بڑی محنت شاقہ فرمائی اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1905ءمیں ایک دینی وروحانی درسگاہ (جوکہ اس وقت دنیا بھر میں ”خانقاہ وجامعہ نیک آباد مراڑیاں شریف“ کے نام سے مشہور ہے) کی بنیاد رکھی۔ اس وقت گجرات اور گرد ونواح میں درس نظامی کی کوئی درس گاہ نہ تھی۔ چنانچہ نہ صرف گرد ونواح سے بلکہ کشمیر اور سرحدی علاقوں تک سے کثیر طلبہ دین یہاں کھنچے چلے آئے تھے۔ مقامی ومسافر طلبہ کی تعداد ایک صد سے دو صد تک رہتی تھی۔ آپ اکیلے ہی ان طلبہ کو ابتدائی قاعدہ سے لے کر درس نظامی کی آخری کتب تک تعلیم دیتے تھے۔

آپ سے جن سینکڑوں حضرات نے علم دین حاصل کیا ان میں شیخ الحدیث سید محمد جلال الدین شاہ جامعہ محمدیہ بھکھی شریف، استاذ العلماءحضرت مولانا پیر محمد اسلم قادری، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ محمد نواز نقشبندی کیلانی، حضرت مولانا محمد فضل کریم قادری، صدر العلماءحضرت مولانا فیض احمد مہلوی اور حضرت مولانا علامہ علی محمد کاشمیری اور درجنوں دیگر ممتاز دینی، علمی وروحانی شخصیات شامل ہیں۔

آپ نے جامع مسجد باری والی محلہ چاہ بھنڈر گجرات میں چالیس سال تک فی سبیل اللہ خطابت کے فرائض سرانجام دیئے، کسی سے ایک پائی تک وصول نہیں کی۔ حضرت پیر سید ولایت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی گجرات آمد پر حضرت شاہ صاحب کی مسجد میں آپ کی دعوت پر ہر نماز جمعہ کے بعد وعظ فرمایا کرتے تھے اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو مسائل کے جواب دیتے تھے۔ حضرت صاحب قبلہ اور حضرت پیر ولایت شاہ صاحب آپس میں ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ حضرت صاحب قبلہ کے وصال کی خبر سن کر حضرت پیر ولایت شاہ صاحب نے فرمایا: ”افسوس! ہم قطب زمانہ سے محروم ہوگئے۔“

عظیم عالم وفقیہ ومدرس ومبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت اور زہد وتقوی میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ومثالی تھا۔ تعلیم وتدریس کے علاوہ اوقات میں عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کے تلمیذ حضرت علامہ پیر سید محمد قاسم شاہ سابق خطیب نور پور شاہاں اسلام آباد، حال برطانیہ اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں: ”زمانہ طالب علمی میں رات کو جب بھی آنکھ کھلی تو حضرت استاذ صاحب قبلہ کو میں نے مصروف عبادت پایا۔“

آپکے تلمیذ حضرت مولانا محمد نواز صاحب رحمة اللہ علیہ سابق صدر مدرس بھکھی شریف فرمایا کرتے:’استاذ محترم بیماری کے ایام میں بھی روزانہ کم از کم اٹھارہ پارے تلاوت فرماتے تھے اور اس قدر کثرت کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے کہ تلاوت کرکے حافظ قرآن ہو گئے تھے۔ آپ اکثر روزہ سے ہوتے تھے لیکن گھر والوں کو بھی روزہ کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ گھر سے حسب معمول مسجد میں کھانا بھیجا جاتا تو چپکے سے کسی مسکین طالب عالم کو کھانا کھلا دیتے۔ آپ صحیح معنوں میں عابد وزاہد بے ریا تھے۔“

آپ عظیم علمی وروحانی پیشوا تھے لیکن خدا کے گھر (مسجد) کی صفائی اکثر خود کرتے تھے۔ کئی بار مسجد کی صفائی کےلئے اپنی قمیص یا چادر استعمال کرتے اور اس قمیص کو بڑے شوق سے پہنتے اور فرماتے مسجد کا غبار آتش جہنم سے نجات دلاتا ہے۔ آپ علماءوسادات کا بے حد احترام کرتے تھے۔ یتیموں، مسکینوں کی پرورش میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ یتیم بچوں وبچیوں سے اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے۔ رشتہ داروں اور ہمسایہ کے حقو ق کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مصائب میں تعزیت کےلئے لوگوں کے گھر تشریف لے جاتے۔ قرب وجوار میں جنازہ میں ضرور شرکت کرتے اور تبلیغ دین کےلئے جہاں بھی جانا پڑتا بلا معاوضہ تشریف لے جاتے۔

آپکو قرآن پاک سے حد درجہ محبت تھی۔ کثرت تلاوت کے ساتھ ساتھ آپ قرآن پاک اپنے ہاتھ سے بھی لکھتے اور نادار طلباءکو قرآن پاک کے دستی نسخے تعلیم کےلئے عطا فرماتے۔ آج بھی آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی نسخے راقم الحروف کے پاس نیک آباد شریف میں موجود ہیں۔

آپ نے سلوک کی منازل طے کرنے کےلئے حجة الکاملین قطب الارشاد حضرت سرکار قبلہ پیر سید ظہور الحسن شاہ رحمة اللہ علیہ قادری جیلانی سجادہ نشین دربار عالیہ بٹالہ شریف سے بیعت کی اور پھر آپ کے خلف ارشد غوث زمانہ پیر سید نذر محی الدین قادری جیلانی رحمة اللہ علیہ سے مزید تربیت حاصل کی اور سرکار بٹالوی نے آپ کو خصوصی اجازت وخلافت سے بھی نوازا تھا۔

مشائخ کی خصوصی توجہ اور عبادت وریاضت میں محنت شاقہ کے سبب خدا تعالیٰ نے آپ کو ولایت کاملہ اور کرامات باہرہ سے نوازا تھا۔ سینکڑوں لوگ آج بھی بقید حیات گواہ ہیں کہ ایک دفعہ پورا موسم گرما بیتا جا رہا تھا او ربارش نہیں ہو رہی تھی تو حضرت صاحب قبلہ نے نالہ بھمبر کے کنارے نماز استسقاءپڑھائی، اسی وقت کالی گھٹاچڑھی اور بہت زیادہ بارش ہوئی۔ حاضرین نماز بھیگتے ہوئے گھر واپس پہنچے حالانکہ نماز سے قبل آسمان میں بالشت کے برابر بھی بادل نہ تھا۔

آپ کی دعاؤں سے بہت سے خوش نصیب لوگوں کو حضور نبی اکرمﷺکی زیارت کاشرف بھی نصیب ہوا۔ حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت پیر محمد یعقوب شاہ صاحب آف ماجرہ شریف کو کسی وجہ سے زیارت نبوی بند ہو گئی تو دریائے راوی کے کنارے ایک مجذوب کی ہدایت پر آپ مراڑیاں شریف حضرت صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپکی توجہ ودعا سے اسی رات زیارت نبوی سے مشرف ہو گئے۔ حضرت شاہ صاحب ہمیشہ مراڑیاں شریف میں ننگے پاؤں تشریف لاتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری اس قدر حضوری ہیں کہ اگر شرع شریف اس زمانے میں کسی کو صحابی کہنے کی اجازت دیتی تو میں برملا آپ کو صحابی کہتا۔

حضرت پیر سید محمد عربی شاہ قادری مہاجر مدنی جو صائم الدہر اور قائم اللیل صاحب کشف وکرامات بزرگ ہیں اور 41سال سے مسجد نبوی شریف میں معتکف ہیں، نے ہجرت مدینہ سے قبل حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ کے مزار شریف پر پانچ ماہ کا اعتکاف کیا۔ اپنے تحریری تاثرات میں فرماتے ہیں کہ میں نے اعتکاف کے دوران عجیب وغریب واقعات دیکھے اور صاحب مزار اور انکے سجادہ نشین (مولانا پیر محمد اسلم قادری رحمة اللہ علیہ) سے فیوض وبرکات حاصل کیں اور کئی بار حضور نبی اکرمﷺ ، حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور دیگر اولیاءاللہ کی زیارت نصیب ہوئی۔

دوسری طرف 1905ءمیں آپ کی قائم کردہ دینی وروحانی درسگاہ (جہاں اس وقت آپ کے پوتے (راقم الحروف) مہتمم اورشیخ الحدیث والتفسیر کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، اور آپکی پوتی محترمہ ر۔ ک۔ قادری صاحبہ شعبہ خواتین کی نگران اعلیٰ اور آپکے پرپوتے پیر عثمان افضل قادری ناظم اعلیٰ و مفتی کے فرائض انجام دے رہے ہیں) کے شعبہ جات ”جامعہ قادریہ عالمیہ “اور شعبہ خواتین ” شریعت کالج طالبات “ میں طلبہ وطالبات کےلئے علیٰحدہ علٰیحدہ جدید درس نظامی ،الشہادة العالمیہ فی علوم العربیہ والاسلامیہ ایم اے عربی وایم اے اسلامیات سمیت 20شعبہ جات میں بڑی محنت وجانفشانی کے ساتھ کا م ہورہا ہے ۔ 900مسافر طلبہ وطالبات کےلئے فری خوراک ،فری رہائش اور فری تعلیم کا انتظام ہے اور 321سے زائد شاخوں میں ہزاروں طلبہ وطالبات دینی تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ دنیا بھر سے آنے والے سوالوں کے جوابات وفتاویٰ جات جاری کئے جاتے ہیں۔

الحمد للہ ! آپ کے قائم کردہ ادارے میں سنت نبوی اور طریقہ صوفیائِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے شعبہ خدمتِ”افضلیہ ویلفیئر رجسٹرڈ“ قائم ہے جس کے ذریعے کشمیر،خیبر،پختونخواہ،جنوبی پنجاب،اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں سینکڑوںٹن خوراک،دوائیاں ،بستر،خیمے ، برتن،موقع پر پہنچ کر تقسیم کرنے کے علاوہ تا حال 50متاثرہ مساجد ومدارس اور53شکستہ گھروں کی تعمیر میں حصہ لیا گیاہے جبکہ دہشت گردی سے متاثرہ سادات علماءومشائخ اور یتیم بچوں کی امداد وسیع پیمانہ پر کی گئی ہے جو کہ اب بھی بعض مقامات پر جاری ہے ۔ضرورتمند سادات علماءکے ساتھ بھی مالی تعاون کیا جاتا ہے اور ضرورتمند بیٹیوں کی شادی میں بھی حسب توفیق حصہ لیا جاتا ہے ۔ جبکہ قبل ازیں زلزلہ سے متاثرہ کشمیر کے 35،مانسہرہ کے 20اور بلوچستان کے 35متاثرہ مدارس ومساجد کی تعمیر میں حصہ لیا گیا تھا۔

وصال:
آپ 26رجب المرجب 1378ھ بمطابق 14فروری 1958ءدس بجے شب بروز ہفتہ کلمہ پڑھتے ہوئے راہی ملک بقا ہو گئے۔ وصال کے وقت بھی کئی کرامات ظہور پذیر ہوئیں۔ اگلے روز آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں ہزار ہا عوام وخواص نے شرکت کی اور آپ کو ”خانقاہ وجامعہ نیک آباد (مراڑیاں شریف)“ میں ایک صاحب کرامات گیلانی سید حضرت کھولیاں والی سرکاررحمة اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کے اسم گرامی کی نسبت سے اس جگہ کا نام ”نیک آباد“ رکھا گیا ہے۔

عرس مبارک:
آپکا سالانہ عرس مبارک ہر سال 27رجب المرجب صبح 9بجے تا نماز ظہر خانقاہ وجامعہ نیک آباد (مراڑیاں شریف) گجرات میں ہوتا ہے۔
 
image
Pir Muhammad Usman Afzal Qadri
About the Author: Pir Muhammad Usman Afzal Qadri Read More Articles by Pir Muhammad Usman Afzal Qadri: 27 Articles with 51768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.