طبیعت (Nature) کیا ہے؟

آج ذرا کچھ سائنس کی بات کریں۔ آپ نے اسکول میں، کالج میں یونیورسٹی میں ھر جگہ اساتذہ سے نیچر کی بڑی تعریفیں سنی ہوں گی۔

کسی نے آپ کو نھیں بتایا ہوگا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی نیچر کے بارے کچھ کہا ہے ۔

آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس جدید سائنسی موضوع پر ساڑھے بارہ سو برس پہلے امام جعفر صادق علیہ السلام نے کیا کہا تھا۔

فطری انتخاب کا نظریہ۔
امام جعفر صادق ع انسانی جسم کے اعضا کی خلقت کے بارے میں اپنے شاگرد مفضل ابن عمر سے گفتگو فرمارہے ہیں۔

’’ مفضل اب اگر تم ان تمام اعضاء ان کی بناوٹ کارکردگی اور جسم کے اندر ان کے مقام پر غور و فکر کرو گے تو سمجھ جاؤ گے کہ ہر عضو ایک خاص مصلحت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے

اور جسم کے ہر عضو کا دوسرے عضو سے ایک خاص رشتہ اور رابطہ ہے۔
یہ تمام اعضا مل کر انسانی جسم کی تشکیل کرتے ہیں اور انسان کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرتے ہیں جن کی اسے زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے۔‘‘
(توحید مفضل لیکچر:۱ صفحہ74)

کیا یہ اعضاء خود بخود بن جاتے ہیں۔

امام ؑ کے باتیں سن کر مفضل ابن عمرؓ نے عرض کی۔ ’’آقا! کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ یہ سب باتیں طبیعت (نیچر) کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی جس مخلوق کو جس طرح کے اعضا کی ضرورت ہوتی ہے، (ویسے اعضاء) خود بہ خود بن جاتے ہیں۔‘‘

(یعنی ان میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بدلتی ہوئی غذائی ضروریات اور ماحول کے مطابق اپنے اعضا میں تبدیلی پیدا کرسکیں۔)

آپ غور فرمائیں کہ مفضل ابن عمر نے مخلوق (انسان، جانور، پیڑ پودوں )کے بارے میں امام ؑ سے مخلوقات کے فطری انتخابات (NATURAL SLECTION OF SPECIES) کے حوالے سے سوال کیا۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فطری انتخاب یا نیچرل سلیکشن کا یہ نظریہ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے بھی دنیا میں موجود تھا۔اسی لیے جناب مفضل نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے۔۔

یعنی نیچر کو خدا سمجھنے والے قدیم زمانے میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ مخلوقات میں ماحول اور غذا کے بدلنے کی صورت میں اپنے اعضا میں حسب ضرورت تبدیلیاں لانے کی فطری (نیچرل سلیکشن کی) صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔

امام جعفر صادق ع نے مفضل ابن عمر کو تفصیلی جواب دیا اور یہ بھی بتایا کہ خود نیچر کیا ہے۔

طبیعت(نیچر) اللہ تعالی کا
بنا یا ہوا ایک نظام ہے۔

امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
’’مفضل دیکھو! اصل بات یہ ہے کہ تمام مخلوقات اللہ رب کریم کی پیدا کردہ ہیں اور جسے یہ لوگ ( مثلا سائنس دان) نیچر (Nature) کہتے ہیں، یہ اللہ تعالی کا بنایا ہوا ایک نظام ہے جسے اس نے اپنی (حکمت کاملہ سے) مخلوقات میں جاری کیا ہے۔‘‘
(توحید مفضل لیکچر۱ ،صفحہ80۔)

نوٹ: امام جعفرصادق ع نے اپنے پہلے لیکچر میں نیچر کے بارے میں مختصراً بات کی ہے لیکن اپنے چوتھے لیکچر میں نیچر کو خدا سمجھنے والوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اس موضوع پر بہت تفصیل سے بات کی ہے ۔

ہماری خواہش ہے کہ سائنس کے اساتذہ اور طلبہ توحید مفضل کے چوتھے لیکچر کے آخری ابوا ب کا بغور مطالعہ کریں۔

امام جعفر صادق؈ نے فرمایا:

’’مفضل! ایسے لوگوں سے سوال کیا جائے کہ کیا طبیعت (نیچر) جو اس قدر عظیم اور با مصلحت کام اس قدر باریک بینی سے سرانجام دیتی ہے تو کیا وہ علم ارادہ اور قدرت بھی رکھتی ہے یا وہ بے شعور بے ادراک ہے؟ اس میں علم ہے نہ ارادہ اور نہ قدرت۔ اب اگر وہ کہتے ہیں کہ اس میں علم ارادہ اور قدرت موجود ہے تو انہیں خلق کرنے والی ذات (یعنی اللہ) کو ماننے سے کیا چیز روکتی ہے؟

(یعنی خدا کی ذات کا انکار کرنے والے یہی تو کہتے ہیں کہ یہ ساری کائنات خود بہ خود پیدا ہوگئی ہے! تو اگر اب وہ یہ کہتے ہیں کہ ایسا طبیعت (نیچر) کی وجہ سے ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی پیدا کرنے والے کے وجود کو مان گئے۔)

امام جعفر صادق ع نے فرمایا:

’’اور اگر یہ اللہ کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ طبیعت (نیچر) بے علم، بے ارادہ اور بے قدرت ہے اور بغیر کسی علم و قدرت کے چیزوں کو بناتی ہے۔۔

تو یہ امر محال ہے کہ بے عقل، بے ارادہ اور بے قدرت شے اس قدر علم و حکمت، مصلحت و باریک بینی کے ساتھ کسی باشعور و ادراک شئے (مثلا کسی انسان، جانور یا درخت) کو تخلیق کرلے۔‘‘
(لیکچر۱،صفحہ 79۔80۔)

یقین ہے کہ قارئین اس بات کو سمجھ چکے ہوں گے کہ فطری انتخاب کا نظریہ جسے ڈارون سے منسوب کیا جاتا ہے ،ڈارون سے گیارہ سو سال پہلے بھی موجود تھا۔ اگر کسی دوست کے ذہہن میں کوئی شک و شبہہ موجو د ہے تو وہ توحید مفضل کے ان لیکچرز کو گوگل سرچ پر جا کر عربی، انگلش اور فارسی زبان میں دیکھ سکتا ہے۔

یہ گزارش ہم نے اس لیے کی ہے تا کہ کوئی شخص اس تحریر کو پڑھے تو یہ سمجھ کر آگے نہ بڑھ جائے کہ ہم نے یہ ساری باتیں امام جعفر صادق؈ سے محض عقیدت کے سبب لکھی ہیں۔

عقیدت کا پہلو اپنی جگہ ہے لیکن ہم نے جو دعویٰ کیا ہے اس کے واضح دلائل بھی پیش کیے ہیں جنہیں کوئی بھی قاری ’’ توحید مفضل ‘‘کے عربی متن سے چیک کرسکتا ہے۔

ڈارون کی خدمات سے انکار نہیں
فطری انتخاب کا نظریہ اگرچہ چارلس ڈارون سے بھی ہزار سال پہلے بھی موجود تھا

لیکن حیاتیات کے اس موضوع پر اس کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے اس راز کو سمجھنے کے لیے اس نے اپنی آرام و آسائش کی زندگی چھوڑ کر پانچ سال تک کے لیے سخت تکلیف دہ بحری سفر اختیار کیا۔ اس سفر کے دوران اس نے دنیا کے مختلف ملکوں، بر اعظموں اور سمندروں میں موجود بہت سے جزیروں میں وقت گزارا۔

اس کے بعد اس نے اپنے پانچ سال کے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند کیا اور ان پر غور و فکر کرکے اس نے پہلی بار’’مخلوقات میں فطری انتخاب‘‘ کے اسی نظریے کے مشاہداتی ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے

اور یہ علمِ حیاتیات کا وہ موضوع ھے جس کی طرف قرآن مجید نے سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو متوجہ کیاتھا۔

(اے رسول ان لوگوں سے) کہہ دو کہ ذرا زمین پر چل پھر کر تو دیکھو (یعنی یہ جاننے کی کوشش کرو) کہ اللہ نے مخلوق کو ابتداء میں کس طرح پیدا کیا۔پھر( اسی طرح وہی) اللہ قیامت کے دن آخری پیدائش کرے گا۔(سورہ عنکبوت،آیت۱۹)
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
 

NAJAF ALI
About the Author: NAJAF ALI Read More Articles by NAJAF ALI: 22 Articles with 23496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.