ادبِ رمضان اجر خود رحمٰن

کوئی بھی کام کرنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے،ادب آداب ہوتے ہیں،حدود وقیودمتعین کی جاتی ہیں۔ان کا لحاظ کرتے ہوئے انجام دیا گیا کام ہی پسندیدہ اور بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ آداب کی رعایت رکھتے ہو ئے کرنے والے کو کامیاب گردانتے ہوئے اسے انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ جس عمل کی جتنی اہمیت و فضیلت ہو اس کو اسی حساب سے کھول کر بیان کیا جاتا ہے تاکہ کرنے والے ابہام کا شکار نہ ہوں۔ماضی میں اس کام کو کامیابی سے کرنے والوں کی فہرست بتائی جاتی ہے۔انھیں حاصل ہونے والے فیوض وبرکات کو آشکار کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس عمل سے مزید فوائد حاصل کر سکیں۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔’’اے ایمان والو تم پہ روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پہ فرض کیے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بنو۔ القرآن‘‘

تمام روزہ داروں کو مبارک باد کہ آپ کے لیے ''رب العالمین ''ایمان کی دولت سے سرفراز ہونے کا سرٹیفیکیٹ لیے محفوظ ترین اور قیامت تک سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب میں ''آپ'' سے مخاطب ہے اور فرما رہا کہ تم پہ روزے فرض کیے گئے ہیں۔ سنت،نفل،واجب نہ سمجھ بیٹھنا، بے قدری نہ کرنا،فرض ہیں!ساتھ وضاحت فرما رہا ہے کہ یہ کوئی عام،یا بے فائدہ عمل نہیں یہ تو اتنا مفید اور بابرکت ہے کہ تم سے پہلے امتوں پہ بھی ''فرض'' تھا۔اﷲ پاک سمجھا رہا کہ اس میں تمہارا سب سے بڑا فائدہ پوشیدہ ہے۔ ''تاکہ تم متقی بنو''متقی کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ جو شخص اﷲ کی کبریاء اور رفعتوں کو پہچانتے ہوئے ایسے عمل کرئے جن سے رب راضی ہو جائیاور گناہ کرنے کی ہمت رکھتا ہو، موقع بھی بھر پور ہو مگر رب کے سامنے جواب دہ ہونے کا خوف اور ڈر اسے گناہ کرنے سے روک دے اسے متقی کہتے ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے۔اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ''ڈر ''گیا اس کے لیے ''دو جنتیں'' ہیں۔ (القرآن )روزہ متقی بناتا ہے۔اﷲ رب العزت نے ہر جگہ اپنی مخلوق کا فائدہ رکھا ہے اگر وہ سمجھے تو۔ مشکل یہاں پیش آتی ہے کہ ہم اپنے تیئں تھوڑی بہت کوشش تو کرتے ہیں مگر آداب کی رعایت کم یا نا پید ہونے کی وجہ سے مقصود فوائد پانے سے محروم رہتے ہیں۔روزے کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری یے کہ اس سے متعلقہ آداب پہ عمل کیا جائے۔زیادہ تر لوگ روزہ رکھ کے سو جاتے ہیں۔ گھنٹوں بعد جب اٹھنا ہوا تو من پسند،ٹرانسمیشن، فلم لگا لی کہ کچھ وقت مزید اطمینان سے گزر جائے جو کہ روزہ کے اصل مقصد کے متضاد اور بے انتہا نقصان دہ ہے۔ ٹی وی دیکھنا بذات خود لغو عمل ہے۔ مشائخ نے اس پہ تعلیمی حتی کہ مذہبی نوعیت کے پروگروم دیکھنے سے بھی منع کیا ہے کجا کہ برائیوں پہ مائل کرتے ڈرامے، فلمیں اور گانے۔ ہمیں حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ نامحرمات اور ناجائز امور نہ دیکھیں وہ اصل میں ہوں یا تصاویر کی صورت میں۔

آئیے آنکھوں سے قرآن پاک کی زیارت کریں۔عام حالات میں ایک لفظ پہ دس نیکیاں،جبکہ رمضان میں ستر گنا مل رہا ہے۔ اپنے والدین کو مسکرا کر دیکھیں،ستر مقبول حج کا ثواب ہمارا منتظر ہے۔ اپنے زوج،یا زوجہ کو مسکرا کے دیکھنے والوں کے ساتھ رب بھی مسکراتا ہے۔مسکراہٹ تو فورا'' وائرل'' ہو جاتی ہے، یہ بہترین صدقہ ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ فطر کا حساب کتاب دیکھتے ہو ئے سارے سال کے لیے اپنے مال کو محفوظ کرنے کی تیاری کریں۔جھوٹ،چغلی،غیبت،بدکلامی،گالی گلوچ،لعن طعن،لڑنا جھگڑنا،غرور تکبر میں ڈوبی باتیں،بے حیائی اور فحش گوئی،گانے غزلیں، دوسروں کا مذاق اڑانا یہ سب باتیں ہمارے روزے کو'' فاقے'' میں بدلنے کی بھر پور طاقت رکھتی ہیں ہمیں پورے اہتمام کے ساتھ ان فضولیات سے بچنا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت روزے میں زبان کا بہترین مصرف ہے۔کاش ذکر اﷲ کی حلاوت سے ہماری زبانیں تر رہ پائیں۔سچ بولنے کی عادت اپنائیں اس یقین کے ساتھ کہ سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ہلاک کرتاہے۔میٹھے بول از حد قیمتی عمل ہیں۔

ہمیں تقوی کے حصول کے لیے اپنے کانوں کو بھی پابند کرنا ہے کہ وہ نامحرموں کی گفتگو،گانیباجے،غیبت،ریڈیو کی فضول نشریات کوسننے سے ہر ممکن پرہیز کریں۔سحری اور افطار کے اوقات کے لیے اپنی گھڑیاں ایک بار پھر دیکھ لیں۔ رمضان، اس سلسلے میں بے حد احتیاط کا متقاضی ہے۔ دیکھ لیجیے چند منٹ کی لا پرواہی پورے ماہ کی محنت پہ پانی نہ پھیر دے۔ بہت زیادہ شکم سیری مقصدِ صوم کے خلاف ہے۔دورانِ رمضان کھانے کے معاملے میں اعتدال پسندی کو اپنائیں۔

آخری مگر بہت اہم بات کہ زیادہ سے زیادہ ذکر وعبادات کرنے کے بعد شرمندگی ہو کہ اس عظیم الشان ماہِ مبارک کا حق ادا نہ ہو سکا۔یہ خوف اور ڈر ہمہ وقت دامن گیر ہو کہ ہماری یہ ادنی سی کوششیں اﷲ کے ہاں رد نہ ہو جائیں۔ٹھکرا نہ دی جائیں۔
کردے رہیے تے ڈردے رہیے
نہ کرہیے تے بوہتے ڈریے

میرا وجدان کہتا ہے ایسے روزے دار کے لیے ہی یہ ارشاد ہے’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ''خود ''اس کی ''جزا'' ہوں۔‘‘ لفظ اجزی کی مٹھاس پانے کے لیے کسی دنیاوی عاشق کے پاس چلیے۔اسکے محبوب نے کہہ دیا تیرے فلاں کام نے مجھے راضی کر دیا۔ ''جا آج سے میں'' تیرا'' ہو گیا''۔
عاشق کی سر شاری دیدنی ہو گی۔ اسے اس خوشی کے سامنے دنیا و مافیہا ہیچ نظر آئیں گی۔ وہ پھولے نہ سمائے گا۔

مگر ''مخلوق'' محبوب کی لاکھوں مجبوریاں ہو سکتی ہیں وہ اپنی بات سے مُکر سکتا ہے، دھوکا دے سکتا ہے۔وہ تو ''مذاق'' تھا کہہ سکتا ہے۔لیکن میرا اور آپ کا ''رب'' ان تمام عیبوں سے'' پاک'' ہے۔ مومن خالص اﷲ کی رضا کے لیے پورے آداب کے ساتھ روزے رکھے،اجر میں اسے''سچے وعدوں'' والا''سچا رب ''نہ ملے،کیا ممکن ہے؟؟؟
 

Nosheen Ramzan
About the Author: Nosheen Ramzan Read More Articles by Nosheen Ramzan: 3 Articles with 1776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.