حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

تحریر: شبیر ابن عادل
حضرت غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت یکم رمضان 470 ھ (مطابق 17 مارچ 1078ء)کوایرانی صوبے کرمانشاہ کے شہر مغربی گیلان ہوئی اور 11ربیع الثانی561 ہجری(مطابق 12 فروری 1166ء) کو بغداد شریف میں وصال ہوا۔ وہ سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں۔

اس رات آپؒ کے والد ماجد حضرت سید ابو صالح نے خواب میں دیکھا کہ(جو کہ خود ایک ولی کامل اور مقربان خدا میں سے تھے) نبی کریم ﷺ ابو صالح موسیٰ ؒکے گھر میں تشریف لائے ہیں۔ پھر سرکارِ دوعالمﷺ نے ابو صالح موسیٰ کو خطاب کرکے ان الفاظ میں بشارت سے نوازا ”ابو صالح! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک عظیم فرزند عطا فرمایا، جس کی عنقریب اولیاء اللہ اور اقطاب میں وہ شان ہوگی جو انبیاء و مرسلین میں میری شان ہے“ اس بشارت کے خطاب فرمانے کے بعد سرکار دوعالمﷺ تشریف لے گئے۔ حضور غوث اعظمؒ کی والدہ ماجدہ بھی ایک ولی کاملہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی بارگاہ میں خاص مقام عطا فرمایا تھا،جہاں حضور غوث اعظمؒ کے والد گرامی کو آپ کی پیدائش سے متعلق بشارتیں دی گئیں، وہاں آپؒ کی والدہ ماجدہ کو بھی آپ کی ولادت باسعادت سے قبل عالم خواب میں آپ کے فضائل کے ساتھ بشارتیں دی گئیں۔
ان کاتعلق حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی سلسلے سے ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی کی خدمات و افکارکی وجہ سے شیخ عبد القادر جیلانی کو مسلم دنیا میں غوثِ الاعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا۔

آپ کا شجرہ سید ابو صالح موسی جنگی دوست بن عبد اللہ الجیلی بن سید یحییٰ زاہدبن سید محمد مورث بن سید داؤد بن سید موسی ثانی بن سید موسی الجون بن سید عبد اللہ ثانی بن سیدعبداللہ المحض بن سید حسن المثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے ملتا ہے۔
تمام علما و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبد القادر جیلانی ؒ مادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی بھی دودھ نہیں پیتے تھے اور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی۔
بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں لیکن آپ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا تھا اے برکت والے، میری طرف آ جا۔
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبد القادر جیلانی سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کے لیے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ مکتب بھی سُنا کرتے تھے کہ اللہ کے ولی کے لیے جگہ کشادہ کر دو۔

حضور غوث اعظمؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں جب میری والدہ ماجدہ نے مجھے مدرسے میں داخل کروایا تو میں دیکھتا کہ ایک اجنبی شخص روزانہ مجھے مدرسہ چھوڑنے آیا کرتا، پھر جب تک میں مدرسے میں رہتا اور تعلیم حاصل کرتا رہتا،وہ شخص بھی میرے قریب رہتا،جب چھٹی کا وقت آتا تو وہ مجھے گھر تک چھوڑنے آتا،لیکن میں اس شخص کو نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے؟ ایک دن میں نے اس سے پوچھا ”آپ کون ہیں“ تو وہ کہنے لگا میں اللہ کی طرف سے مامور ہوں اور انسانی شکل میں تیری خدمت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
آپ کے والد کے انتقال کے بعد،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ شیخ عبد القادر جیلانی کا شجرہ نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہ نسب نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ اٹھارہ (18) سال کی عمر میں شیخ عبد القادر جیلانی تحصیل ِ علم کے لیے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں حضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیر کے لیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے۔
تحصیل ِ علم کے بعد شیخ عبد القادر جیلانی نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی۔سیدنا غوث اعظم ؒفرماتے ہیں ”ویرانوں میں جب میں عبادت کیا کرتا تو شیاطین اور جنّ میری پاس آتے اور کئی کئی شکلوں میں مجھے ڈرانے کی کوشش کرتے اور کہتے یہ جگہ ہماری ہے،تم اسے چھوڑ کر بھاگ جاؤ،پھر میں ”لاحول ولا قوۃ“کا ورد کرتا تو وہ چیختے اور روتے ہوئے بھاگتے“ میرے پاس ایک شخص آیا جو کہ نہایت بدشکل تھا، وہ کہنے لگا ”میں ابلیس ہوں“ آپؒ نے مجھے اور میرے لوگوں کو کافی تنگ کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں ”میں نے اس سے کہا، تو یہاں سے چلاجا۔ پھر اچانک ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا تو میں نے اس کے سر پر ضربیں ماریں، وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر کچھ دیر گزری تو ایک اور ہاتھ نمودار ہوا، اس میں آگ کے شعلے تھے،یہ ہاتھ ابلیس کا تھا،وہ مجھ سے جنگ کرنا چاہتا تھا،لیکن اسی وقت ایک نقاب پوش گھڑ سوار آیا اور اس نے مجھے تلوار دی،جب ابلیس نے میرے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو وہ الٹے قدم بھاگا۔ (یہ واقعہ حضرت شیخ صیرنیؒ سے منقول ہے)

حضورسیّدنا غوث اعظم ؒ نے جب تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی،عبادت وریاضت اور مجاہدات کی مشقتوں اور صحر ا نوردی کی خلوتوں میں بہت عرصہ گزر گیا اور محنت شاقہ کے بعد پورا تزکیہ نفس ہوا تو آپ حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒؒکی خدمت میں حاضرہو ئے اور بیعت کرکے حلقہئ ارادت میں شامل ہوگئے جس سے آپ کوکمال عروج ملا۔ حتیٰ کہ ایک دن اپنے مرشد کامل قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور کسی کام کے لئے اُٹھ کر باہر آئے تو آپ کے شیخ طریقت نے فرمایا اس نوجوان کا قدم ایک دن تمام اولیا ء کی گردنوں پر ہو گا اور اِس کے زمانے کے تمام اولیا ء اِس کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں گے اور انکساری کریں گے۔
حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومیؒجب سیّدنا غوث اعظم ؒ سے بیعت لے چکے تو آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا جس سے آپ کو اتنا فیض ملا کہ خود فرماتے ہیں میرے شیخ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ ہر لقمہ میرے سینہ ِکو نور معرفت سے بھر دیتا تھا۔ پھر حضرت شیخ قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒ نے آپ کوخرقہئ خلافت پہنایا اور فرمایا:اے عبد القادریہ خرقہ حضور سرور کونین ؐ نے امیر المومنین حضرت علی ؓ کو عطا فرمایا اُ ن سے حضرت خواجہ حسن بصریؒکو ملا، اور پھر اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا اور اب میں تمہیں دے رہا ہوں۔ یہ خرقہ پہننے کے بعد حضور سیّدنا غوث اعظم ؒ پر برکات و تجلیات اور بے شمارا نوارِ ا لہٰیہ کا نزول ہوا۔ (قلائد الجواھر)
جب حضرت سیّدنا غوث اعظمؒ علوم ظاہری وباطنی سے فارغ ہوئے تو وعظ وتدریس پر مامور ہوئے۔ آپ نے ۳۵۵ھ؁ میں وعظ کی ابتداء یوں فرمائی، فرماتے ہیں کہ میں نے سہ شنبہ یعنی بروز منگل ۲۱ شوال المکرم ۱۲۵ھ؁ کو ظہر سے پہلے رسول اللہ ؐکا دیدار کیا‘ حضور اَقدس ؐنے فرمایا: اے میرے بیٹے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ میں عجمی (غیر فصیح)ہوں۔ بغداد شریف میں فصحائے عرب کے سامنے کیسے کلام کروں؟حضور نبی کریم ؒ نے سات بار لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اورمجھ سے فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کر اور حکمت وموعظ حسنہ سے اپنے رب کے راستے کی طرف بلا۔ پس میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا‘بہت سے لوگ میرے پاس آئے‘ میں گھبرا گیا پھر میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا‘ اُنہوں نے مجھے فرمایا: اے میرے بیٹے تو وعظ کیوں نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا‘حضور میں گھبرا گیا ہوں‘ آپ نے فرمایا: اپنامنہ کھول‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ باراپنا لعاب شریف میرے منہ میں ڈالا‘میں نے عرض کیا‘ پورے سات مرتبہ کیوں نہیں ڈال رہے‘ آپ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ؐ کے ساتھ اَدب کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔

چنانچہ آپؒ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ تھوڑے عرصہ میں آپ کے وعظ میں لوگ بکثرت شامل ہونے لگے‘باب الحلیہ کے مصلے میں گنجائش نہ رہی تو آپ کی کرسی شہر کے باہر عید گا ہ میں لے گئے‘ وہاں بھی لوگ جوق درجوق شوق سے گھوڑوں‘خچروں‘گدھوں اور اونٹوں پرآیاکرتے تھے‘ حاضرین مجلس کی تعداد تقریباً ستر ہزار ہوا کرتی۔ لیکن آپ کی آواز مبارک جتنی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی اتنی ہی دور والوں کو سنائی دیتی تھی اور آپ اہل مجلس کے خطرات قلبی کے موافق کلام فرماتے تھے۔40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔



شیخ عبد القادر نے مختلف اوقات مین چار شادیاں کیں جبکہ ازداوجی زندگی کا آغاز 50 برس کی عمر سے کیا۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒکی چار ازواج سے انچاس بچے پیدا ہوئے۔ بیس لڑکے اور باقی لڑکیاں۔

شیخ ابوالقاسم بن احمد بن محمد بغدادی ؒبیان کرتے ہیں کہ سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادرؒ رمضان 560ھ میں بیمار ہوئے، ہم آپ کے پاس موجود تھے کہ ایک صاحب وقار شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے ولی،السلام علیکم، میں ماہ رمضان ہوں۔ آپ سے اس امر کی معافی چاہتا ہوں،جو آپ پر مجھ میں مقدر کیا گیا ہے اور آپ سے جدا ہوتا ہوں، آپ سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ آپ نے آئندہ رمضان نہ پایا اور11 ربیع الثانی561 ہجری(مطابق1166ء) ہفتہ کی شب نواسی (89) سال کی عمر میں وصال ہوا اور آپ کی تدفین،آپ کے مدرسے کے احاطہ میں ہوئی۔
کسی نے ایک ہی بیت میں آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات اور عمر کو کس خوبی سے بیان کیا ہے۔
انّ باذن اللہ سلطان الرجال
جاء فی عشق و مات فی کمال
آپ کا حلیہ مبارک یوں مذکور ہے۔ رنگ گندم گوں، لاغر جسم، میانہ قد، سینہ کشادہ، گھنی داڑھی، آنکھیں سیاہ، آواز بلند، روش نیک، قدبلند، علم کامل۔ حیاتِ مبارکہ کا اکثر و بیش تر حصہ بغداد میں گزرا، وہیں آپ کا وصال ہوا اوروہیں مزار مبارک ہے، جس کیارد گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمال عقیدت کے ساتھ مصروف زیارت رہتے ہیں۔
فرموداتِ غوثِ اعظم:
٭ اے انسان، اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت وریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اُس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔
٭اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔
٭میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اُس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔

آپؓ کے القابات یہ ہیں:غوثِ اعظم، پیران ِ پیردستگیر،محی الدین،شیخ الشیوخ، سلطان الاولیاء، سردارِ اولیاء، قطب ِ ربانی، محبوبِ سبحانی، قندیل ِ لامکانی، میر محی الدین، امام الاولیاء، السید السند، قطب اوحد،شیخ الاسلام،زعیم العلماء،سلطان الاولیاء،قطب بغداد، بازِ اشہب،ابوصالح،حسنی اَباً،حسینی اُماً۔

شیخ عبد القادر جیلانی نے طالبین ِ حق کے لیے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں:
غنیۃ الطالبین،الفتح الربانی والفیض الرحمانی،ملفوظات، فتوح الغیب، جلاء الخاطر، ورد الشیخ عبد القادر الجیلانی، بہجۃ الاسرار، الحدیقۃ المصطفویہ، الرسالۃ الغوثیہ، آدابِ سلوک و التوصل الی ٰ منازل ِ سلوک، جغرافیۃ الباز الاشہب۔
سرکار غوث اعظمؒ کے فضائل و کمالات کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ جس وقت غوث اعظمؒ نے بغداد شریف میں ارشاد فرمایا ”قدمی ھٰذا علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ“ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒعین شباب کے عالم میں ملک خراسان کے ایک پہاڑ میں مجاہدہ و ریاضت کی منزلیں طے فرمارہے تھے۔ بغداد میں یہ اعلان ہوتے ہی آپ نے اپنا سر جھکالیا اور وہیں سے جواب دیا، آپ کے قدم مبارک میری آنکھوں اور سر پر۔ اس نیاز مندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان الہندحضرت غریب نوازؒ یہاں کے سارے ولیوں کے بادشاہ مقرر ہوئے۔
حضرت ابوالفرح ؒبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے بغداد کسی کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ واپسی پر میں غوث اعظمؒ کے مدرسے کے قریب سے گزرا تو عصر کی اذان ہورہی تھی، چناں چہ میں نے سوچا یہیں کچھ دیر قیام کروں، نماز عصر ادا کروں اور آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل کروں۔ جب میں مدرسے میں داخل ہوا تو جماعت کھڑی پائی۔ جلدی میں مجھے وضو کا خیال بھی نہ رہا اور میں جماعت میں جا ملا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں غوث اعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؒ نے فرمایا ”بیٹا! تمہیں نسیان کا مرض بہت غالب ہے،تم نے وضو کے بغیر ہی نماز ادا کرلی۔ یہ بات سن کر حیران ہوگیا کہ اس بات کا مجھے خود بھی علم نہ تھا۔

روایت میں آیا ہے کہ حضرت غوث اعظم ؒ بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف دِل میں رکھتے تھے اور مستجاب الدعاء تھے اور سخاوت کرنے میں مشہور تھے۔ اچھے اخلا ق کے مالک اور بہترین خوشبو استعمال کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کے جسم پر پہنے ہوئے لباس کا سوال کرتا تو اُتار کر اُسے عطا فرما دیتے تھے۔ آپ حاکموں کے پیسے کی طرف تکتے نہیں تھے۔

آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالرزاقؒ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ حج کے لئے روانہ ہوئے جب بغداد کے قریب ایک موضع میں جس کا نام حلّہ تھا پہنچے تو حکم دیا کہ یہاں کوئی ایسا گھر تلاش کرو جو سب سے زیادہ ٹوٹا پھوٹا اور اُجڑا ہواہو‘ ہم اُس میں قیام کریں گے۔ قصبہ کے امیروں اور رئیسوں نے بڑے اچھے اچھے مکانات آپ کے سامنے قیام کرنے کے لئے پیش کئے لیکن آپ نے اِنکار فرما دیا۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک ایسا مکان مل گیا جس میں ایک بڑھیا بوڑھا اور ایک بچی تھی۔ آپ نے بڑے میاں سے اِجازت لے کر رات اُس کے گھر میں گزاری اور وہ تمام نذرانے اور ہدایات جو نقد‘جنس اور حیوانات کی صورت میں آپ کو پیش کئے گئے تھے آپ نے اہل خانہ کو دے دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حوالہ جات:حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی، مناقب عبدالقادر جیلانی، غوثِ پاک کے حالات،تذکرہ مشائخ قادریہ،محمد دین کلیم، صفحہ108 مکتبہ نبویہ لاہور۔ بہجت الاسرار۔ غنیۃ الطالبین)


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 113919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.