موٹاپا آپ کے ساتھ کیا کرتا ہے؟

موٹاپا تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے اسے ام الامراض بھی کہا جاتا ہے کہ اگر موٹاپا طاری ہوگیا تو دمے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے، دل کیلئے مسئلے کا باعث ہوسکتا ہے کہ پہلے جس سائز کا دل خون پہنچا رہا تھا اب اس سائز میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح زیادہ وزن کی وجہ سے ہمارے جوڑ جو کہ پہلے ایک مخصوص وزن اٹھا رہے تھے اب وزن زیادہ ہوگیا تو جوڑوں میں درد کی کیفیت تک بات پہنچ جاتی ہے۔اضافی جسمانی چربی جوڑوں کے امراض کی ذمہ دار ہوتی ہے، طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن زیادہ بڑھ جانے سے گھٹنوں، کہنی اور ٹخنوں کے جوڑ پر بوجھ زیادہ بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تکلیف دہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

موٹاپا تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے اسے ام الامراض بھی کہا جاتا ہے کہ اگر موٹاپا طاری ہوگیا تو دمے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے، دل کیلئے مسئلے کا باعث ہوسکتا ہے کہ پہلے جس سائز کا دل خون پہنچا رہا تھا اب اس سائز میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح زیادہ وزن کی وجہ سے ہمارے جوڑ جو کہ پہلے ایک مخصوص وزن اٹھا رہے تھے اب وزن زیادہ ہوگیا تو جوڑوں میں درد کی کیفیت تک بات پہنچ جاتی ہے۔اضافی جسمانی چربی جوڑوں کے امراض کی ذمہ دار ہوتی ہے، طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن زیادہ بڑھ جانے سے گھٹنوں، کہنی اور ٹخنوں کے جوڑ پر بوجھ زیادہ بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تکلیف دہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

اسی طرح نظام ہاضمہ کے مسائل سامنے آتے ہیں اور جگر تک بلکہ جگر کے فیٹی لیور (چربیلا جگر) تک بات جا پہنچتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نیند کے مسائل سامنے آتے ہیں اور پھر آنتوں میں رکاوٹوں کے مسائل آتے ہیں، قبض ہوتا ہے اور بہت سے افراد جو موٹے ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت بواسیر کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور پھر شوگر یعنی ذیابیطس کے درمیان تعلق کو تو سب ہی جانتے ہیں۔ ا نسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز کو دوران خون سے باہر منتقل کرتا ہے، موٹاپے کے شکار افراد میں یہ کبھی کام کرتا ہے، کبھی نہیں، اس کے نتیجے میں خون میں گلوکوز جمع ہونے لگتا ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ مختلف طبی مسائل بالخصوص ذیابیطس ٹائپ ٹو کا باعث بن جاتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق موٹاپا کئی طرح کے کینسر پیدا ہونے کے رسک کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو موٹاپے کے مرض کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس میں خواتین اور مرد دونوں یکساں طور پر شکار ہوا کرتے ہیں۔

خواتین میں خاص طور پر ہردس سینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ آٹھ فیصد تک موت کے خطرے میں اضافہ کر دیتا ہے جبکہ مردوں میں ہر دسسینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ موت کا خطرہ بارہفیصد تک بڑھا دیتا ہے۔

سو پہلے بات کرتے ہیں۔خون میں چکنائی کی۔کولیسٹرول خون میں چربی کو کہا جاتا ہے، جو کہ جگر قدرتی طور پر بناتا ہے۔ کولیسٹرول کا کچھ حصہ اس غذا سے آتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔ مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موٹاپے کا شکار ہونے پر بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امراض قلب اور فالج کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

پھر موٹا پے کاا یک اور اثر ہے آدھے سر کا درد یا مائیگرین اور اس سے ملتی جلتی علامات: درحقیقت یہ سب اعصاب میں ورم کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق جب جسم میں چربی کی سطح بڑھنے لگتی ہے تو اس کے نتیجے میں سر کی جانب آکسیجن ملے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے، جو اس عارضے کا باعث بنتی ہے۔

پھر ہے آٓرتھرائیٹس۔ جسم میں اضافی چربی اعضا اور جوڑوں پر غیرضروری بوجھ بڑھاتی ہے اور اسے برداشت کرنے کے لیے انہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، اس جسمانی تناؤ اور دباؤ کے نتیجے میں بڑھاپے کی جانب سفر بہت تیز ہوجاتا ہے اور متاثرہ فرد درمیانی عمر میں ہی بوڑھا نظر آنے لگتا ہے۔

موٹاپے کا نتیجہ دماغی امراض بھی ہو سکتے ہیں: کیونکہ یہی اضافی جسمانی چربی کولیسٹرول کی سطح بڑھاتی ہے، جو کہ دماغی خلیات کی تنزلی کی رفتار بڑھانے والا عنصر ہے، جس سے یاداشت متاثر ہوتی ہے بلکہ ڈیمینشیا اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اسی کے ساتھ گردوں میں پتھری بھی ہو سکتی ہے: سارا دن بیٹھ کر گزارنے کی طرز زندگی، موٹاپا، زیادہ قد کے اعتبار سے زیادہ وزن، کمر کا بڑا سائز اور وزن میں اضافہ آپ کے لیے گردوں میں پتھریاں ہونے کا خدشہ بڑھا دیتے ہیں۔

کینسر کا رسک بھی بڑھ جاتا ہے: جسمانی چربی زیادہ ہونے سے مثانے کے غدود بھی پھیل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کینسر زدہ خلیات کی نشوونما وہاں ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ مردوں میں عام اور جان لیوا کینسر ہے۔

جسمانی وزن میں اضافہ کسی فرد کی جانب سے ناقص غذا کے استعمال کا عندیہ بھی دیتا ہے، کچھ مقدار میں چربی صحت کے لیے اچھی اور ضروری ہے تاکہ جسمانی افعال مناسب طریقے سے کام کرسکیں، مگر بہت زیادہ چربی کھانے کے نتیجے میں آنتوں کے لیے اسے پراسیس کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے قبض کا مرض اکثر شکار بنانے لگتا ہے۔

ایسی حاملہ خواتین جو موٹاپے کا شکار ہوں، ان میں ہائی بلڈ پریشر، خون کی روانی رک جانے اور بچے کی پیدائش کے لیے آپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

یاد رکھیں موٹاپا ختم کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں، کوئی آسان راستہ نہیں اور اگر آپ کسی کے منہ سے سنیں یا اشتہار میں دیکھیں کہ کوئی ایساوعدہ کر رہا ہے جس سے آپ دنوں اور ہفتوں میں آئیڈیل وزن حاصل کرلیں گے تو ہوشیار ہو جائیں۔ وو کہتے ہیں نہ کہ یہ عشق نہیں آسانَ۔۔۔

سو موٹاپے کا علاج اور ایک صحت مند، اکہرا، چست اور کم عمر بدن منزل نہیں بلکہ ایک عمر بھر کے سفر کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ جب آپ اپنے ڈائٹ پلان اور ورزش کے بعد اپنا آئیڈیل وزن حاصل کرلیں اس کے بعد بھی بے احتیاطی نہیں کر سکتے۔ موٹاپے کو کم کرنے میں ورزش سے تیس فیصد تک وزن کو کم یا کنٹرول کیا جا سکتا ہے جب کہ وزن کو کم یا کنٹرول کرنے میں ستر فیصد ہاتھ ہماری خوراک کا ہوتا ہے۔ یہاں ہم کچھ اہم ترین ٹپس کا ز کر کریں گے جن کی مدد سے آپ اپنا وزن کامیابی سے کم کر سکتے ہیں۔

نمبر ایک: شکر کا استعمال بند کر دیں: وزن کو کم کرنے کے لیے سب پہلے اپنی خوراک سے شکر اور نشاستہ (یعنی اسٹارچ) جیسے کاربوہائیڈریٹس کو نکال دیں، ایسا کرنے سے آپ کی بھوک میں کمی ہو گی جس کی وجہ سے آپ کم سے کم کھائیں گے۔بجائے اس کے کہ آپ گھنٹوں جِم میں محنت کریں اور پیسے بھی خرچ کریں، آپ اپنے جسم کو دینے والی خوراک کا جائزہ لیں، اگر آپ اپنی خوراک سے کاربوہائیڈریٹس کو کم کردیں گے تو آپ کا جسم اس چربی کو استعمال کرنے لگتا ہے جو کہ جسم میں جمع ہوتی ہے۔

نمبر دو: پانی زیادہ پئیں: زیادہ سے زیادہ پانی پینے سے جسم ترو تازہ رہتا ہے اور پانی کی زیادہ مقدار آپ کو کم سے کم بھوک محسوس کرواتی ہے، اگر آپ دن بھر پانی کا زیادہ استعمال کریں گے تو آپ کو زیادہ بھوک محسوس نہیں ہوگی۔ کھانا کھانے سے پہلے پانی پینے سے موٹاپا جلد کم ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ کھانا کھانے سے پہلے پانی پئیں نا کہ کھانے کے بعد۔ اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو صاف کردیتا ہے اور اگر تربوز نہ ملے تو خربوزہ، پپیتا، سردہ، گرما ان میں سے کوئی سا بھی پھل کھانے سے پہلے کھا لیں (کم از کم ڈیڑھ گھنٹے پہلے) تو پیٹ کے اندر موجود چربی کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے پیٹ کم ہوتا ہے اور وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔

نمبر تین: جب تک بھوک نہ لگے کبھی نہ کھائیں اور سیر ہونے سے پہلے، پیٹ بھرنے سے پہلے ہاتھ روک دیں۔

نمبر چار: ورزش کریں۔۔۔ ہفتے میں پانچ دن روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ اور ایسی ورزش جس سے سانس پھولے، دل کی دھڑکن تیز ہو اور پسینہ آئے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr. Syed Ikram
About the Author: Dr. Syed Ikram Read More Articles by Dr. Syed Ikram: 8 Articles with 5439 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.