کرونا وائرس اور ہمارا آئن لائن تعلیمی نظام

کرونا وائرس 2019 کے آخری ایام میں ملک اے چین کہ ایک شہر میں وباہ بن کہ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وباۂ نے باقی ساری دنیا کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔ پاکستان میں پہلا کیس26 فروری کراچی میں رپورٹ ہوا اس کہ بعد ملک اے پاکستان میں بھی کروںاۂ کی وباۂ پھیلنے لگی ۔۔ اس بگڑتی صورت اے حال کو دیکھتے ہوےفیصلہ کیا گیا کہ ملک میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا جائے _ سب سے پہلے بند ہونے والے اداروں میں تعلیمی ادارے سرفرست تھے مارچ 2020 کے مڈ میں جب تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو کہاں گیا یکم اپریل سے دوبارہ سکولوں کو کھول دیا جائے گا لیکن کرونا کہ بڑھتے ہوے حملوں کی وجہ سے ایسا ممکن نا ہو سکا اور جو تعلیمی ادارے محض پندرہ دن کہ لئیے بند ہوئے تھے 7 مہینے بند رہینے کہ بعد 15 ستمبر سے تمام تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولے گئے_

اس دوران بچوں کو تعلیم دینے کے لیے آئن لائن کلاسز کا بندوست کیا گیا۔۔ آئن لائن کلاسز ایک نیا ٹرینڈ تھا۔۔ اس لیے آدھے سے زیادہ بچے تو اس کو سمجھ ہی نا سکے سہی سے جنہوں نے کچھ سمجھا ان میں سے اکثر ایسے علاقوں میں رہتے جہاں پہ انٹرنیٹ آتا ہی نہیں یا آتا ہے تو بہت ہی کم میرے گاؤں میں تو بس ایک سڑک پہ ہی کبھی کبھی فور جی آجاتا تھا کلاس لینے کے لیے اکثر شدید گرمی میں روڈ کہ کنارے کھڑا رہنا پڑتا تھا باقی جن بچوں کہ پاس انٹرنیٹ کی سپیڈ اچھی تھی وہ کلاس میں خود کو انرول کر کہ ایک دوسرے ساتھ میسجز میں لگ جاتے تھے تو کچھ بچے کلاس جوائن کر کہ نیندیں پوری کرتے تھے۔۔۔ اور ہاں جن کچھ بچوں کہ مائکس آن رہے جاتے تھے وہ تو بندے کو کسی اور عالم میں ہی پہنچا دیتے تھے کہیں سے گالیاں سنائی دیتی تھی تو کہی بچے رو رہے ہوتے تھے کہی پر سوکھی روٹیاں تو پتیسہ والے کی آواز آرہی ہوتی تھی۔۔اس آئن لائن تعلیمی نظام میں بچوں نے تعلیم تو شاید کم ہی حاصل کی لیکن یہ نظام تعلیم سے انکا ایک فایدہ ہوا کہ وہ مہنگے مہنگے موبائل فون لینے میں کامیاب ہو گئے آئن لائن پڑھائی کا جھانسہ دے کر اس کے بعد کیا تھا وہ بچے اور ٹک ٹوک یوٹیوب فیسبک اچھے خاصے پڑھنے والے بچے بھی کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے۔ اس دوران اگر کسی نے پڑھا ہے یا محنت کی ہے تو وہ ہے بیچارہ استاد۔اس کہ بعد جب امتحان لینے کا وقت آیا تو اس کرونا کہ سبب وہ بھی آئن لائن ہی ہونے تھے۔ بچے تو آئن لائن امتحانوں کا سن کر کچھ زیادہ ہی معتمن تھے
شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
معتمن ایسے ہیں وہ جیسے ہو کچھ بھی نہیں ۔۔۔

امتحانوں میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے لیے بچوں نے بہت محنت کیکہ کسی طرح نقل لگانے کا کوئی جوگاڑ لگایا جائے تو پھر کیا تھا تمام طالب علموں میں ٹیلیفونک رابطے تیز ہوگئے _پھر ہوا کچھ یوں کہ ایک ایسی جگہ کا انتظام کیا گیا جہاں پر انٹرنیٹ کی سپیڈ اچھی ہو ۔۔۔ پیپر والے دن تمام طالب علم وہیں پہنچ جاتے اور مل ملا کہ پیپر حل کر کہ انکل شفقت کو دعائیں دیتے گھر کو چل دیتے اس 7 مہینے کے طویل عرصے کہ بعد جب دوبارہ سے تعلیمی اداروں کو کھولا گیا تو کوئی امید کی کرن نظر آئی کہ چلیں اب کچھ نا کچھ تو بچوں کو سیکھنے کو ملے گا ہی ۔۔ لیکن شائد کرونا وائرس تو اسی انتظار میں تھا کہ تعلیمی ادارے کھلیں تو میں بھی باقی تمام طالب علموں کہ ساتھ مل کر سکول جاؤں بس پھر کیا تھا نومبر کہ آخری ایام میں پھر سے تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا اس دوران پھر سے آئن لائن تعلیم دینا شروع کر دی تمام اداروں نے۔۔ وہ بچے جن سے ریگولر کلاسز کی وجہ سے موبائل فون چھن چکے تھے ان کہ پاس دوبارہ سے اپنے موبائل فون واپس لینے کا موقع مل گیا ۔۔۔۔

کرونا کی دوسری لہر کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے 18 جنوری2021 تک بند رہے جب دوبارہ سے ادارے کھلے تو پھر یہ کہاں گیا کہ 50٪ طالب علم ایک دن سکول جائیں گہ باقی 50٪ دوسرے دنحاضر ہونگے ایسے چل ہی رہا تھا کہ پھر سے آکر کرونا وائرس کی تیسری لہر نے حملہ کر دیا جس کہ نتیجے میں پہلے 7 اضلاع کے تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو بعد میں 9 اضلاع کہ تعلیمی اداروں کو 11 اپریل تک بند کردیا گیا ۔ ابھی بھی سننے میں یہی آرہا ہے کہ اگر کرونا وائرس اسی طرح بے قابو رہا تو تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑے گا اگر ایسا ہوگیا تو ایک دفعہ پھر سے بچوں کہ مستقبل کہ ساتھ کھیلا جائے گا۔۔

میں یہاں پر آپ لوگوں سے ہی ایکا سوال پوچھوں گا کہ کیا کرونا کی پہلی دوسری یا تیسری لہر کہ دوران جب تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو کیا آپ کہ بچے گھر میں ہی بند رہے ؟ تو یقیناً آپ لوگوں کا جواب نا ہوگا کیوں کہ جیسے ہی تعلیمی ادارے بند ہوئے بچوں نے بہت بال اٹھا کر گراؤنڈز کا رخ کیا جہاں پر ایس او پیز کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا وہ بچے جو سارا دن صاف ستھرے رہتے تھے ان دنوں وہ سارا سارا دن مٹی میں کھیلتے نظر آتے رہے وہی گلے لگنا وہی مل کہ اٹھنا بیٹھنا ۔جو طلب علم کچھ میچور تھے یا ممی ڈیڈی کہے لیں تو ان کہ پاس دوست آجاتے یا وہ دوستوں کہ پاس چلے جاتے ہلا گلا ہوتا لیکن کرونا وائرس وہاں بھی نہیں جاتا نا گراؤنڈز میں جاتا بس پتہ نہیں کسی نے اس وائرس کو سمجھا کہ بھیجا ہے کہ جا پتر تو انکا تعلیمی نظام جو پہلے سے ہی بہت کمزور اس کا مکمل طور پر ختم کر کہ رکھ دے ۔۔ مجھے تو کبھی کبھی یہ انڈیا امریکہ کی سازش لگتی ۔۔

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں یہ بچے جو آئن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نقلیں مار مار کہ امتحان پاس کر رہے ہیں ان کا مستقبل کیا ہے ؟ یا تو یہ رشوت دے کہ نوکریاں حاصل کریں گے اور پھر کرپشن کر کر ڈبل ٹرپل واپس نکالیں گے اور جو بچارے رشوت نہیں دے سکتے ہونگے وہ پھر مختلف جرائم میں ملوث ہو جائے گے ۔ کیونکہ اس نظام اے تعلیم سے انہیں سیکھنے کو تو کچھ مل رہا نہیں تو وہ دوسروں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔۔ کیونکہ چاہے کوئی لائق طلب علم ہے یا نالائق آئن لائن تعلیم کو کوئی بھی سیریس نہیں لے رہا ۔ استاد لیکچر دے رہے ہوتے ہیں بچے گانے سن رہے ہوتے یا لیکچر چلا کر موبائل رکھ کہ سو جاتے کچھ بچے تو اتنے شریر ہوتے کہ دوران لیکچر ایسی ایسی آوازیں نکال رہے ہوتے توبہ ہی ہے ،تو کبھی سکیاں روٹیاں تو پتیسا والے کی آواز سنائی دیتی رہی ہوتی کسی کہ پیچھے بچے رو رہے ہوتے استاد کہ احترام کو سرعام پامال کیا جا رہا ہوتا ۔کلاس کم کامیڈی شو زیادہ لگ رہا ہوتا __

اب کچھ لوگوں کو یہاں پر مجھ سے اتراض ہوگا کہ اس میں ہمارے تعلیمی نظام ہماری حکومت کا قصور ہے تعلیم دی جارہی ہیں نا بچوں کی غلطی کہ وہ اپنا نقصان خود کر رہے اگر آپ کہ دماغ میں یہ چل رہا ہے تو میں صرف اتنا پوچھوں گا کی اگر بچے اس طرح گھر بیٹھے پڑھ سکتے ہیں تو آپ لوگ پھر اپنے اتنے پیسے کیوں ضائع کر رہے ہیں ۔ بچوں کو کتابیں لے دیں اور انہیں کہیں یوٹیوب سے لیکچر لے کہ پڑھیں اور امتحان دیں سکول کالجز اور یونیورسٹیز کی اتنی زیادہ فیسز دینے کا کیا فائدہ ؟تو اس کا جواب میں خود ہی دے دیتا ہوں کوئی بھی طالب علم اس وقت تک بات کو سمجھ نہیں سکتا جب تک اس کا مکمل دھیان اس میں نا ہو اور ایک مستقل رہنما نا ہو استاد جتنا کلاس میں اچھی طرح سمجھا سکتا سوال کر سکتا بچوں پہ نظر رکھ سکتا انکا امتحان لے سکتا اس طرح وہ آئن لائن کلاسز کہ دوران کبھی نہیں کر سکتا۔۔

آخر میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ اللہ پاک ان وزارتوں پہ بیٹھے لوگوں کو شعور عطا فرمائے کہ وہ طلب علموں کا مذید نقصان نہ کریں اور تعلیمی اداروں کو کھول دیا جائے کیونکہ یہ بچے اب اتنے ایک سمجھدار تو ہیں ہی کہ اپنی حفاظت خود کر سکیں ویسے بھی کروانا وائرس کی بہیت کم ہی طالب علموں میں تشخیص ہوئی ہے اللہ پاک ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری عطا فرمائے آمین۔۔
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.