قیامت کے سعادت نامے اور شقاوت نامے !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 71 تا 76 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یوم
ندعوا کل اناس
بامامھم فمن اوتی کتٰبہ
بیمینہٖ فاولٰئک یقرءون کتٰبھم
ولایظلمون فتیلا 71 ومن کا فی ھٰذہٖ
اعمٰی فھو فی الاٰخرة اعمٰی واضل سبیلا
72 وان کادوالیفتنونک عن الذی اوحینا الیک
لتفتری علینا غیرہٗ واذالاتخذوک خلیلا 73 ولو لاان
ثبتنٰک لقد کدت ترکن الیھم شیئا قلیلا 74 اذالاذقنٰک
ضعف الحیٰوة وضعف الممات ثم لا تجدلک علینا نصیرا
75 وان کادوالیستفزونک من الارض لیخرجوک منھا واذا
لایلبثون خلٰفک الاقلیلا 76
جو لوگ ھمارے بخشے ہوۓ اِس شرفِ انسانی کی قدر کرتے ہوۓ ھمارے اَحکامِ نازلہ پر عمل کریں گے تو یومِ محشر میں ھم جب اُن کو اپنے اپنے ایک ایک رہنما کے ساتھ بلائیں گے تو ھم اُن سعادت مند لوگوں کو اُن کے اَعمالِ سعادت کے وہ سعادت نامے پڑھائیں گے جن کو پڑھ کر وہ مُسرت و خوشی سے نہال ہو جائیں گے اور اُس دن کسی انسان کے ساتھ ایک بال برابر بھی ناانصافی نہیں ہوگی تاہَم یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیۓ کہ جو لوگ اپنی موجُودہ حیات میں اندھے بن کر رہیں گے اور اپنے اسی اندھے پَن کے ساتھ اپنی اَگلی زندگی میں جائیں گے تو وہ جس طرح اِس زندگی میں اَندھے کے اَندھے رھے ہیں اُس زندگی میں بھی اسی طرح اَندھے کے اَندھے ہی رہیں گے اور اے ھمارے رسالت مآب ! مُنکرینِ قُرآن اپنی ہر کوشش کے باوجُود بھی اپنی اِس خواہش میں ناکام رھے ہیں کہ وہ آپ کی زبان سے قُرآن کے بجاۓ اپنی زبان کی کوئی بات کہلوا سکیں ، اگر آپ کی زبان سے اِن کی پسند کا کوئی ایک کلمہ بھی نکل جاتا تو وہ آپ کو اپنا ایک آزمُودہ کار دوست بنا لیتے لیکن ھم نے تو آپ کی فطرت ہی اتنی پاکیزہ بنادی ھے کہ آپ قُرآن کی اِس عظیم بُرھان کے بغیر بھی اُن کی ایک نہ چلنے دیتے کیونکہ آپ کو تو ہمیشہ ہی ھمارے قانونِ فطرت و قانونِ قُرآن کی وہ مُستقل معیت حاصل رہی ھے جس نے آپ کی عالی ہمتی میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آنے دی اور اِس قانون فطرت و قانونِ قُرآن کی وجہ سے آپ کے عرصہِ حیات کا ہر مرحلہِ ثبات اتنا طاقت ور رہا ھے کہ آپ کے سامنے مُنکرینِ قُرآن کی ایک بھی نہیں چلی ، حالانکہ اُنہوں نے اِس بات کا پُختہ عزم کر رکھا تھا کہ وہ آپ کے قدم اُکھاڑ دیں اور آپ کو اِس سرزمین سے نکال دیں لیکن اگر مُنکرینِ قُرآن اپنے اِن مذمُوم عزائم میں کامیاب ہو جاتے تو آپ کے بعد اُن کی مُہلتِ حیات بھی ختم کر دی جاتی !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت کے آخری مضمون میں اَولادِ آدم کے جس شرفِ آدمیت کا ذکر کیا گیا تھا موجُودہ اٰیات کی پہلی اٰیت میں اَولادِ آدم کے اُسی شرفِ آدمیت کے حوالے سے اِس نۓ مضمون کا آغاز کیا گیا ھے کہ انسان کا حقیقی شرف انسان کے اُس کے جسم و جان کی تخلیق ہی نہیں ھے جس کا ھم نے برسبیلِ تخلیق ذکر کیا ھے بلکہ انسان کا حقیقی شرف اُس کی وہ تعلیم ھے جو علمِ قُرآن کی صورت میں نازل ہوئی ھے اور اہلِ حیات کے قانونِ حیات کے طور پر نازل ہوئی ھے اور اِس مقصد کے لیۓ نازل ہوئی ھے کہ انسان نے اسی تعلیمِ نازلہ کے مطابق اِس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنی ھے اور پھر اِس دُنیا کی اِس قلیل زندگی کے بعد اُس دُنیا کی اُس طویل زندگی میں داخل ہونا ھے جس طویل زندگی کے آغاز میں انسان کے مُثبت و مَنفی اعمال کا ایک مُنصفانہ جائزہ لیا جاۓ گا اور اِس مُنصفانہ جائزے کے بعد اُس کے مُثبت و مَنفی اعمال کا وہ بدلہ دیا جاۓ گا جس سے اُس کی پہلی محرومیوں کا ازالہ ہو جاۓ گا اور یا پھر اُن پہلی محرومیںوں میں مزید اضافہ ہو جاۓ گا ، چونکہ مقصد انسان کی محرومیوں میں اضا فہ نہیں ھے بلکہ ازالہ ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا اور اٰیاتِ بالا کے علاوہ مُتعدد دیگر اٰیات میں بھی انسان کو بتایا گیا ھے کہ موت کے بعد دُنیا کی محرومیوں میں ازالے کا دار و مدار انسان کے مُثبت اعمال اور اضافے کا دار و مدار انسان کے مَنفی اعمال پر ھے ، جو انسان اِس زندگی سے اُس زندگی میں عملِ خیر لے کر جاۓ گا وہ جزاۓ خیر پاۓ گا اور جو انسان اِس دُنیا سے اُس دُنیا میں عملِ شر لے کر جاۓ گا وہ بھی اپنے اُس عملِ شر کے مطابق سزا پاۓ گا اور انسان کو جزا و سزا کے اِس عمل سے گزارنے کے لیۓ یومِ محشر کے آنے پر جس میدانِ محشر میں جمع کیا جاۓ گا اٰیاتِ بالا میں اُسی یومِ محشر کے میدانِ محشر کا بیان ہوا ھے اور قُرآن کے اِس بیان کے حوالے سے ھم نے جن دو باتوں کا جائزہ لینا ھے اُن میں پہلی بات انسان کا وہ "امام" ھے جس کے نام سے اُس روز انسان کو اُس میدان میں پُکارا جاۓ گا ، اٰیاتِ بالا کا سب سے پہلا لفظ "یوم" ھے جو نکرہ ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ جس حقیقت کا نام محشر و یومِ محشر ھے وہ چند منٹوں ، چند گھنٹوں ، چند دنوں ، چند ہفتوں یا چند مہینوں اور چند برسوں کی بات نہیں ھے بلکہ وہ اُس آغازِ وقت سے اُس اَنجامِ وقت تک اور اُس آغازِ زمانہ سے اُس اَنجامِ زمانہ تک کی بات ھے جس میں اُس "یومِ" نکرہ نے اپنے"الیومِ" معرفہ تک پُہنچنا ھے اور جس میں انسان کے اَنجامِ خیر و شر کا فصلہ ہونا ھے ، اٰیت ھٰذا میں یہ بتایا گیا ھے اُس دن انسانوں کو اُن کے امام کے نام سے بلایا جاۓ گا اور جو جس قوم کا امام ہوگا وہ پہلے پیش ہوکر اپنی قوم کے بارے میں اُس دن کیۓ جانے والے سوالوں کا جواب دے گا اور اُس امامِ قوم کے بعد اُس کے مُتعلقہ لوگوں کے ساتھ لازمی سوال و جواب کا وہ مرحلہِ لازم آۓ گا جس میں اُن کے اعمالِ خیر و شر کا جائزہ لیا جاۓ گا ، قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں آنے والی ترتیب وار سُورتوں میں سے سُورہِ ھُود کی اٰیات 11 ، سُورہِ فرقان کی 74 اور سُورہِ احقاف کی اٰیت 12 میں امام کا معنٰی ایک مُطلقاً ایک امامِ قوم ھے لیکن سُورہِ بقرہ کی اٰیت 124 میں جس امام کا ذکت ہوا ھے اُس کا تعارفی معنٰی"امام للناس" یعنی جُملہ انسانوں کا امام ھے اور اُس وقت اُس وقت کے جُملہ انسانوں کے امام ابراھیم علیہ السلام تھے ، سورَہِ حجر کی 17 اور سُورہِ یٰس کی اٰیت 12 میں امام کا معنٰی کتاب ھے اور کتاب سے مُراد قُرآنِ کریم ھے اور سُورَہِ اَسرٰی کی اِس اٰیت 71 میں امام سے مُراد امامِ مَحشر ھے اور اٰیت کے نفسِ مضمون سے گمان ہوتا ھے کہ اِس امامِ محشر سے مُراد وہ عام انسان اور وہ عام امام ہیں جو کسی زمانے میں کسی صحیح یا غلط طریقے سے ایک بڑے زمانے کے بڑے انقلاب کے بڑے علامتی رہنما کے طور پر مُمتاز ہوۓ ہیں اور اُنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں اپنا اپنا کوئی اَچھا یا بُرا کردار اَدا کیا ھے ، عُلماۓ اراضیات اپنی علمی تحقیقات کی بنا پر کہتے ہیں کہ زمین پر دس ہزار سال کا زمانہ ایک بڑی انقلابی تبدیلی کا زمانہ ہوتا ھے اور عُلماۓ سائنس کے نزدیک اِس وقت ھماری زمین کی عُمر 5 اَِرب سال سے زیادہ ہو چکی ھے اور اِس کی بقیہ عمر بھی 5 اَرب سال سے کُچھ زیادہ ہی ھے ، فرض کریں کہ اگر حسابِ حیات کے حسابِ محشر تک دُنیا کی مجموعی عُمر 11 اَرب سال ہوئی تو دس ہزار سالہ انقلاب کے مطابق دُنیا میں ایک بلین برس کے انسانوں کے قومی نمائندے ایک ہزار ملین اور گیارہ اَرب انسانوں کے قومی نمائندے گیارہ ہزار ملین ہوں گے تو سب سے پہلے اُن کے ساتھ سوال و جواب ہوگا اور اُن کے ساتھ ہونے والے سوال و جواب کے بعد ہر ایک اُمت کے ہر ایک نبی اور ہر ایک رسول سے بھی اُس کی اُمت کے بارے میں یہی سوال جواب ہو گا اور اِس سلسلہِ کلام میں قُرآنِ کریم کی جو اٰیت ھماری حتمی و ختمی رہنمائی کرتی ھے وہ سُورةُالنحل کی اٰیت 89 ھے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ اے ھمارے رسول ! ھم اُس روز جن اُمتوں کے ایمان و عمل پر جن گواہوں کو طلب کریں گے وہ اُن اُمتوں کے اپنے اپنے نبی اور رسول ہوں گے اور پھر اُن تمام اُمتوں کے ایمان و کفر پر آپ سے آپ کی گواہی بھی لی جاۓ گی کیونکہ ھم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ھے اُس کتاب میں اُن اُمتوں کو دی گئی ھماری ساری ھدایات موجُود ہیں اور ھماری رحمت و سلامتی قبول کرنے والوں کے لیۓ ھماری رحمت و مہربانی کی ساری تفصیلات بھی موجُود ہیں ، قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کے مطابق اُس روز جو آخری فیصلہ Final judgment ہوگا وہ سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتی شہادت اور آپ پر نازل ہونے والے قُرآن کی اٰیاتی شہادت پر ہو گا ، اِس گزارش کے بعد اِس سلسلہِ کلام کی جس دُوسری بات پر ھم اپنی مُختصر سی معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ عُلماۓ روایت نے اِس کے اٰیت الفاظ "اوتی کتٰبہ بیمینہٖ" سے یہ مُہمل مفہوم کشید کیا ھے کہ اِس سے مُراد اہلِ ایمان کا نامہِ اعمال اُن کے دستِ راست میں دینا ھے اور پھر اپنی اَندھی عقل کے اِس اَندھے گھوڑے کو دوڑانے کی یہ دلیل دی ھے کہ دستِ راست پاک اور دَستِ چَپ ناپاک ہوتا ھے اور پھر انسانی ہاتھوں کے پاک و ناپاک ہونے پر بڑی بڑی طویل اور لایعنی بحثیں بھی فرمائی ہیں ، حالانکہ "یُمن" کا معنٰی سعادت ھے اور اِس کی ضِد شقاوت ھے ، قُرآنِ کریم نے سُورَہِ ھُود کی اٰیت 106 تا 108 میں اہلِ جہنم کو شقی اور اہلِ جنت کو سعید کہا ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ اہل ایمان اہلِ سعادت ہوں گے اور اُن کی فردِ عمل بھی سعد ہوگی اور جن کو وہ فردِ عمل دی جاۓ گی وہ اُس کو ہاتھ میں پکڑ کر خوش نہیں ہوں گے بلکہ اُس کو پڑھ کر خوش ہوں گے اور اہلِ کفر جو اہلِ شقاوت ہوں گے اِن کی فردِ عمل بھی اُن کی شقاوت سے پُر ہو گی اور وہ اُس فردِ شقاوت کو ہاتھ میں پکڑ کر پریشان نہیں ہوں بلکہ اُس کو پڑھ کر پریشان ہوں گے ، اگر بایاں ہاتھ اتنا نجس ہوتا جتنا اہلِ روایت نے سمجھا اور سمجھایا ہوا ھے تو پھر بائیں ہاتھ سے آپ کے غُسل کرنے اور وضُو فرمانے کے بعد بھی قُرآن کو چُھونا ایک اَمرِ حرام ہوتا جو کہ ہرگز نہیں ھے ، تاھم ، ھم اِن اُمور پر جو مزید گفتگو کریں گے وہ اِن الفاظ و اصطلاحات کے مُتعلقہ مقامات پر کریں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 469708 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More