نائین الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ

نائن الیون کے بعد دنیا کو فتح کرنے کے لیے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا نعرہ تخلیق کیا گیا اور ایک طے شدہ منصوبے کے تحت عراق اور افغانستان میں براہِ راست فوج کشی کردی گئی، جبکہ ان دونوں ممالک کے ہمسایہ ممالک میں مدد، تعاون اور دہشت گردوں کے خلاف سرد و گرم تعاقب کے نام پر فوج اور ایجنٹوں کی یلغار کردی گئی۔ نائن الیون کا واقعہ روزِاول سے ہی ماہرین کی نگاہوں میں مشتبہ رہا اور بالآخر یہ ثابت کردیا گیا کہ یہ سازش کاروں ہی کی اپنی کارستانی تھی اور اس میں مسلم دنیا کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مسلمان ایویں ہی برسوں گردن پھلا کر گھومتے رہے۔ اور تو اور سازش کاروں کے عائد کردہ الزامات کے مطابق بھی اس میں افغانستان اور عراق کا کوئی ہاتھ نہیں تھا مگر پھر بھی وہاں دہشت گردی کے انسداد کے نام پر باقاعدہ فوج کشی کردی گئی اور اس کو دنیا بھر کی ایجنٹ حکومتوں نے درست تسلیم بھی کرلیا۔اب جب وقت کی دھند کچھ چھٹنے لگی ہے تو اندازہ ہونا شروع ہوا ہے کہ یہ میلہ کس لیے سجایا گیا تھا۔ جی ہاں کہانی گھوم پھر کر ایک ہی مرکزی نقطہ پر پہنچ جاتی ہے اور وہ ہے ایک عالمگیر حکومت کا قیام۔ پوری دنیا کو باقاعدہ طور پر ایک حکومت کے زیراثر لانے کے لیے عوام کو کنگال کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ پیٹ بھرنے کے چکر میں ہی پڑے رہیں، اور ان کو سیکورٹی کے خوف میں مبتلا کرنا بھی لازمی ہے تاکہ وہ ہر روز اپنی آزادی کو محدود کرنے کے پروانے پر خود ہی دستخط کرتے رہیں۔جنگ ہی دنیا پر قبضے اور اپنی دولت کو راتوں رات سیکڑوں گنا ضرب دینے کا واحد ذریعہ ہے۔ جنہوں نے جنگ مسلط کی، وہ انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے پرانے جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے اصول کے تحت پس پردہ ہیں اور نیک نام بھی۔ ان کو کوئی نہیں جانتا سوائے چند ہزار لوگوں کے۔ اس پورے کھیل میں کوئی بدنام ہوا ہے تو وہ چند ممالک ہیں یا پھر چند افراد۔آج پاکستان سمیت دنیا کا ہر فرد امریکا و برطانیہ کو گالیاں دے رہا ہے۔ اس کا الزام اقوام متحدہ پر عائد کررہا ہے یا پھر بش و اوباما تیر و تفنگ کی زد میں ہیں۔ ایک دوسرا گروپ القائدہ و طالبان کی گردان کرتا ہے اور ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستانی عوام، آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کو اس کا ذمہ دار ٹھیرا کر اس تمام عمل کو ردعمل قرار دے دیتا ہے۔اس کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے نہ تو کسی زبردست تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی ریاضی داں کی۔ آسان سی بات ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں اس سے جس نے فائدہ اٹھایا ہے وہی اس کا محرک بھی ہے اور ماسٹر مائنڈ بھی۔ پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے نقصان میں کون کون رہا ہے۔نقصان اٹھانے والوں میں سب سے پہلے نمبر پر امریکا ہے۔ امریکا پر اِس وقت قرض کی مالیت 14.435ٹریلین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ اس وقت امریکی حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے روزانہ چار ارب ڈالر کے حساب سے قرض لے رہی ہے۔ جی ہاں روزانہ۔ امریکی حکومت پر قرض کی مالیت 2010ءمیں ہونے والی امریکا کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی بڑھ چکی ہے۔ امریکی حکومت کو قرض کی فراہمی کی آخری حد 14.29 ٹریلین ڈالر تھی جو وہ اس برس 2 مئی کو پار کرچکی ہے اور اس وقت عارضی بلوں کے سہارے کام چلارہی ہے۔ جمعہ کو آئی ایم ایف نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس حد میں اضافہ کرے ورنہ امریکی حکومت ڈیفالٹ کرجائے گی۔ قرضے کی حد میں یہ اضافہ پہلی مرتبہ نہیں ہوگا، یہ ہر سال ہوتا ہے۔ بش صاحب نے 800 ارب ڈالر کے اضافہ کے بعد یہ حد 8.18 ٹریلین ڈالر مقرر کی تھی تاکہ پینٹاگون کے بل منظور کیے جاسکیں۔ بعد ازاں یہ حد 14.29 ٹریلین ڈالر مقرر کی گئی۔ اس وقت امریکا کا ہر شہری 46 ہزار 239 ڈالر کا قرض دار ہی، جبکہ فی ٹیکس دہندہ پر یہ رقم ایک لاکھ انتیس ہزار تین سو چوّن ڈالر ہے۔برطانیہ کی بھی تقریباً ایسی ہی صورت حال ہے اور برطانوی حکومت اب تک 1.1 ٹریلین پاؤنڈ کی قرض دار ہوچکی ہے۔ پاکستان جو 2003 ءمیں 32.3 ارب ڈالر کا قرض دار تھا اب 57.2 ارب ڈالر کا قرض دار ہے۔آخر یہ سارا پیسہ جا کہاں رہا ہی؟ جب امریکا اور برطانیہ بھی دیوالیہ ہوگئے ہیں تو پھر وہ اس جنگ میں شریک کیوں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں اس کھیل کے اصل محرک تک لے جاتے ہیں۔ جنگ میں کیا ہوتا ہی؟ فوج حرکت میں آتی ہے۔ اس کی رسد کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ نقل و حمل کے لیے بھاری پیمانے پر ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہی، اور یہاں پر تو بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کی بھاری پیمانے پر حرکت ہوئی۔ اس کے لیے پٹرول چاہیے ہوتا ہے۔ جنگ کررہے ہیں تو گولہ بارود بھی چاہیے۔ روز ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوں گے اور جہاز بھی۔ بکتربند اور زمینی ٹرانسپورٹ کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ہے۔ ہاں بھاری مقدار میں ادویات بھی درکار ہیں۔ آخر یہ سب کون فراہم کررہا ہی؟ اسلحہ، گولہ بارود، ہوائی جہاز، بحری جہاز، الیکٹرونکس کے آلات بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کون ہیں؟ اور تو اور اسٹیل ملوں کے مالکان کون ہیں جن کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے اپنا لوہا سونے سے مہنگا فروخت کیا۔ پٹرول پر دنیا بھر میں کون قابض ہیں؟ اور ہاں، یہ ادویات ساز کمپنیوں کے مالکان کون ہیں؟ یہ سب کے سب دنیا کے بڑے بینکار ہیں جو ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔اِس وقت یہ سوال بہت مناسب ہے کہ جب امریکا وبرطانیہ کو پتا ہے کہ اس میں ان کا نقصان ہے اور یہ بینکار جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ قومیت، اپنی دولت کو روز ضرب دے رہے ہیں، تو وہ اس کھیل میں کیوں شریک ہیں؟پہلی بات تو یہ کہ ان ممالک میں بھی اسی طرح ان بینکاروں کے پیادے حکومت کررہے ہیں جس طرح تیسری دنیا پر۔ دوسری بات یہ کہ آخر امریکا، برطانیہ قرض لیتے کس سے ہیں؟ جی ہاں بینکوں سی، چاہے یہ فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا ہو یا بینک آف انگلینڈ (یہ بات میں اپنی کتاب ”جنگوں کے سوداگر“ میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں کہ کس طرح یہ بینک نجی شعبے میں سازش کے ذریعے قائم کیے گئی)۔ اب اگر پاکستان صرف بیس کروڑ ڈالر کی قسط کے لیے آئی ایم ایف کی ہر بات ماننے کو تیار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کتے بلی کی خوراک پر ڈیوٹی کم کرکے سستی کردو، ہم مان لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی خوراک و ادویات پر سیلزٹیکس لگاکر اسے مہنگا کردو، ہم مان لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کھاد و کیڑے مار ادویات مہنگی کردو تاکہ بنیادی غذائی اشیاءمہنگی ہوجائیں اور غریب دو وقت کی روٹی نہ کھاسکے، ہم مان لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پٹرول، بجلی و گیس مہنگا کردو تاکہ ہر چیز کے دام خود بخود بڑھ جائیں اور مڈل کلاس کا خاتمہ کیا جاسکی، ہم مان لیتے ہیں۔ سستی بجلی نہ تو پیدا کرو اور نہ درآمد کرو بلکہ دنیا کی مہنگی ترین بجلی فرنس آئل کے ذریعے پیدا کرو تاکہ صنعتوں کا خاتمہ کیا جاسکے اور بے روزگاری پھیلی، ہم مان لیتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ صرف بیس کروڑ ڈالر کے لیے ہم ہر شرط مانتے ہیں۔ عزت، آبرو ہر شے کا مسکرا کر روز سودا کرتے ہیں، تو جو حکومت ہر روز چار ارب ڈالر کا قرض ان بینکوں سے لیتی ہے وہ کون کون سی شرط کیوں نہ مانے گی!امریکا پر موجود قرضہ جات کی تقریباً 4.45 ٹریلین ڈالر رقم غیر ملکی قرض ہے۔ یہ چین، جاپان اور دیگر مما لک کی ہے۔ مگر ذرا پھر تصحیح کرلیں، یہ رقم ان حکومتوں کی نہیں ہے بلکہ چین و جاپان کے مرکزی بینکوں اور بینک آف انگلینڈ کی ہے۔ جی ہاں، انہی بینکاروں کی۔اب اس سوال کا جواب آسان ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خسارے کا شکار کون ہے اور اس کا محرک کون۔
Masood Anwer
About the Author: Masood Anwer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.